نجم الحسن عارف:
پی ٹی آئی نے اپنی پارٹی میں ایک بڑی دراڑ اور حکومت کی ٹوٹ پھوٹ روکنے کیلیے جہانگیر ترین کو ’’فیس سیونگ‘‘ دینے کا اصولی فیصلہ کرلیا تاکہ پنجاب کے بجٹ اور قومی بجٹ کی منظوری سے پہلے پی ٹی آئی کے اندرہی کوئی بڑا تماشا نہ لگ جائے، جس کے نتیجے میں حکومت جاتی رہے۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کو ’’فیس سیونگ‘‘ دینے کی حکمت عملی اپنائی ہے تاکہ اگلے مالی سال کے مرکزی و صوبائی بجٹ آسانی سے منظور ہوسکیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ نواز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تا حال میاں نواز شریف موجودہ اسمبلیوں کے ذریعے تبدیلی لاکے اپنی جماعت کی حکومت بنانے پر تیار نہیں۔ اگرچہ میاں شہباز شریف نسبتاً نرم رائے رکھتے ہیں۔ لیکن حتمی فیصلہ میاں نواز شریف ہی کریں گے۔
ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف کی اپنے بیانیے کے ساتھ کمٹمنٹ کا یہ عالم ہے کہ وہ بجٹ کے گورکھ دھندے پر اپنا یہ نکتہ نظر احتیار کرسکتے ہیں کہ بجٹ سیشن کے دوران بظاہر بجٹ کی مخالفت کی جائے۔ لیکن عین منظوری کے وقت مشکل پیدا نہ کرنے کی حکمت عملی اپنالی جائے تاکہ بزدار حکومت اپنی اسی رفتار سے چلتی رہے۔
نواز لیگی ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف کسی بھی صورت چوہدری پرویز الٰہی کیلیے صوبائی اقتدار ممکن بنانے کو تیار ہیں اور نہ ہی گری ہوئی معاشی صورتحال میں معاشی چیلنجوں کا سارا بوجھ اپنی جماعت کے کندھوں پر لادنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اگر جہانگیر ترین کے حامی گروپ کی وجہ سے بجٹ منظوری کے سلسلے میں بزدار حکومت دبائو میں آرہی ہے تو اگلے انتخابی معرکے کے پیش نظر وہ غیر معمولی طور مسلم لیگ نواز کے حق میں ہی ثابت ہورہی ہے۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے بقول میاں شہباز شریف سات ماہ تک جیل میں رہنے کے بعد کورونا کی وجہ سے چند دن کیلئے گھر میں ہی آرام کریں گے اور پارٹی رہنمائوں کے ساتھ میل ملاقات میں بھی عجلت نہیں دکھائیں گے۔ البتہ اگلے دو ہفتے میں ان کے لندن جانے کا امکان رد نہیں کیا جاتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں شہباز شریف کا یہ ممکنہ دورہ لندن پارٹی کی آئندہ حکمت عملی اور پارٹی کے حوالے سے اہم فیصلوں کا باعث ہوگا۔ ان ذرائع کے مطابق زیادہ امکان یہ ہے کہ میاں شہباز شریف، رمضان کے آخری عشرہ میں لندن میں ہوں گے اورعید الفطر لندن میں ہی اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ منائیں گے۔
ذرائع کے مطابق میاں شہباز شریف، پارٹی قائد میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد ہی اپنی سیاسی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کرسکیں گے۔ کیونکہ ان کے مفاہمانہ بیانیے کیلئے کتنی بھی گنجائش ہو، میاں نواز شریف کی منظوری کے بغیر وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
ذرائع کے مطابق ملک میں کورونا کی شدت کے باعث فوری طورپرمیاں شہباز شریف زیادہ باہر نہیں نکلیں گے۔ اس لیے انہوں نے رہائی کے بعد پارٹی رہنمائوں سے ملاقات کیلیے بھی فی الحال کوئی گرم جوشی ظاہر نہیں کی ہے۔
نواز لیگ کے ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نواز کے کے قائد آج بھی میاں نواز شریف ہیں۔ پارٹی ذرائع سے ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق میاں نواز شریف نے لندن میں ہونے کے باوجود تحفظ ناموس رسالتؐ کے لیے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کے حوالے سے پارٹی رہنمائوں کا اسٹریٹیجی اجلاس 22 اپریل کو اسلام آباد میں طلب کیا تھا۔
ادھر تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین نے بلاشبہ اپنی قوت کا اظہار کرنے کیلئے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اپنے حامیوں کا جتھہ تو تیار کرلیا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ دنوں ان کا جتھہ پہلے سے تعداد میں بڑھ سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جہانگیر ترین نے ابھی تک وزیراعظم عمران خان کے خلاف براہ راست کوئی بات نہیں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی جہانگیر ترین کے حامی ارکان اسمبلی کے ساتھ ملاقات پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔
ان ذرائع کے مطابق وزیراعظم اور جہانگیر ترین کے مشترکہ دوستوں کے توسط سے رابطے شروع ہوچکے ہیں اور دو طرفہ موقف ایک دوسرے کو سمجھایا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین کے علاوہ حکومت میں ومجود ذمہ دار لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین اوران کے بیٹے کے خلاف مقدمات کی نوعیت سنگین نہیں۔ جس کیس میں الزام ہے کہ جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز کے ایک کمپنی سے دوسری کمپنی کو فروخت کے حوالے سے شیئر ہولڈرزکے مفادات کو نقصان پہنچا، تو یہ معاملہ کسی بھی طور پر خطرناک نہیں ہے۔ کیونکہ شیئر ہولڈرز میں 80 سے 90 فیصد شیئر جہانگیر ترین کے اپنے اہل خانہ ہیں۔ جبکہ بقیہ لگ بھگ 10 فیصد شیئرز رکھنے والوں میں سے ابھی تک کوئی شکایت لے کر سامنے نہیں آیا۔ اس لیے ایک ایسے نجی معاملے میں جہاں متاثرہ فریق شکایت کنندہ ہی ہوں، وہاں مقدمات کیسے جاندار ہوسکتا ہے۔
ان ذرائع کے مطابق جہاں تک منی لانڈرنگ کیس کا تعلق ہے۔ آج تک منی لانڈرنگ میں کسی کو سزائیں سنائی نہیں جاسکیں تو جہانگیر ترین کو کیسے سزا ہوسکے گی؟ اسی لیے وزیراعظم کے ساتھ جہانگیر ترین کے بالواسطہ اور بلاواسطہ رابطے مفید رہیں گے۔ تاہم حکومت یکساں احتساب کی اپنی اعلان کردہ پالیسی کو نقصان پہنچائے بغیر جہانگیر ترین کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے پر تیار ہے کہ اسی صورت حکومت پنجاب اور مرکز کے بجٹ بغیر کسی بڑی مشکل کے منظور کراسکے گی بصورت دیگر بجٹ منظور نہ ہوسکا تو بزدار حکومت بھی جاسکتی ہے اور وزیر اعظم عمران خان کی وفاق میں حکومت بھی مشکلات میں گھر سکتی ہے۔
واضح رہے جہانگیر ترین گروپ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے پاس قومی اسمبلی کے آٹھ سے 9 ارکان اور صوبائی اسمبلی پنجاب کے ارکان کی تعداد 20 سے زائد ہوچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق بجٹ کی منظوری یا عدم منظوری میں ایک اہم فیکٹر مقتدر حلقوں کا ہے۔ اس لیے ان کی مرضی ہوگی تو جہانگیر ترین رکاوٹ بن سکیں گے اور نہ ہی نواز لیگ کوئی بڑا مسئلہ پیدا کرسکے گی۔
ان ذرائع کے مطابق بجٹ کی منظوری اور حکومت کے قائم رہنے کا اب بھی انحصار مقتدر حلقوں کی مرضی پر ہے۔ پی ٹی آئی کے ان ذرائع کے مطابق نواز شریف چونکہ مقتدر حلقوں کے بارے میں سوچ تبدیل کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اس لئے پی ٹی آئی حکومت کیلیے مقتدر حلقوں میں پہلے کے مقابلے میں رائے بدلنے کے باوجود امکان ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو مزید وقت مل جائے گا۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ بجٹ کی منظوری سے قبل اسمبلیوں میں خاصا ہنگامہ ہوتا رہے۔ اپوزیشن جماعتیں بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتی رہیں اور جہانگیر ترین گروپ ’’بلیک میلنگ‘‘ کے انداز میں اپنے مطالبات پیش کرتا رہے۔ لیکن بعد ازاں بجٹ کی ہر جگہ منظوری بھی ہوجائے۔
ان ذرائع کے مطابق زیادہ امکان یہ ہے کہ عید الفطر تک ایک جانب وزیراعظم اور جہانگیر ترین کے درمیان جاری معاملات میں بہتری آجائے گی۔ دوسری جانب میاں شہباز شریف لندن سے میاں نواز شریف کے ساتھ حکمت عملی کی تیاری کے حوالے سے عید الفطر تک حتمی نتیجہ تک پہنچ جائیں گے۔ اس لیے بجٹ منظور میں ساری دشواریاں اس وقت تک ختم ہوچکی ہوں گی۔