توپ کاپی میوزیم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب دو نعلین مبارک اور ایک بند جوتا مبارک (درمیان میں)۔فائل فوٹو
توپ کاپی میوزیم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب دو نعلین مبارک اور ایک بند جوتا مبارک (درمیان میں)۔فائل فوٹو

رسول پاکؐ کو بند جوتوں کا جوڑا شاہ نجاشی نے تحفے میں دیا

عارف انجم:
قسط نمبر 17
عباسیہ دور کے مشہور محقق اور مورخ ابن ابی الحدید کے پاس نعلین مبارک کہاں سے آئے۔ اس بارے میں تاریخ واضح نہیں۔ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ ابن ابی الحدید کے پاس موجود نعلین مبارک کا حضرت انسؓ کے پاس موجود نعلین مبارک سے کوئی تعلق تھا۔ حضرت انسؓ دمشق میں مقیم رہے اور ابتدائی اسلامی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس نعلین مبارک کا ایک جوڑا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ نبی اکرمﷺ کی حیات مبارکہ میں نعلین مبارک اٹھانے کی ذمہ داری عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تھی۔ تاہم بعد ازاں نعلین مبارک کا ایک جوڑا حضرت انسؓ کے پاس آیا جو انہی کے پاس رہا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت انسؓ دونوں ہی خادمین رسول تھے۔
امام قسطلانیؒ اپنی کتاب ’’المواہب اللدنیہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادمین میں سے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں تکیہ، مسواک، نعلین اور وضو کے لیے پانی لے کر حاضر رہتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں تشریف لے جانے کے لیے اٹھتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعلین مبارک پہنا دیتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف رکھتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک اٹھا کر بغل میں دبالیتے تھے۔ اسی وجہ سے انہیں صاحب نعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک جوڑوں کو اٹھانے والے صحابیؓ کہا جاتا ہے۔
بخاری شریف کی حدیث نمبر 3107 جو پہلے بھی بیان کی گئی، سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد نعلین مبارک حضرت انسؓ کے پاس تھیں۔ حضرت انسؓ کی عمر نبی اکرم کے وصال کے وقت 20 برس تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طویل عمر پائی اور سو برس سے زائد عمر میں 91 یا 93 ہجری میں انتقال کیا۔ ایسے میں گمان کیا جا سکتا ہے کہ آپؓ کے پاس جو نعلین مبارک تھیں۔ وہ شام یا عراق میں محفوظ رہیں۔ لیکن قطعیت سے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ وہی نعلین مبارک تھیں۔ جن کا ابن ابی الحدید کے پاس موجود ہونا ثابت ہے۔
احمد بن محمد المقری کی کتاب ’’فتح المتعال فی مدح النعال‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن ابی الحدید کے پاس موجود نعلین مبارک کا ہی نقش مختلف علما نے نقل کیا اور اپنی کتابوں میں پیش کرتے رہے۔ ان میں علامہ ابن عساکر، ابن الحاج، ابن المرجل، امام عراقی، حافظ زین الدین، سراج الدین بلقینی، امام سخاوی، اور علامہ سیوطی علیہ الرحمۃ شامل ہیں۔ یہیں سے نعلین مبارک کا وہ نقش عام ہوا جو ہم آج بھی دیکھتے ہیں۔ یہ نقش سلطنت عثمانیہ کے تحت آنے والے علاقوں اور ان سے باہر بھی نقل ہوا۔
ابن ابی الحدید کے پاس موجود نعلین مبارک جو 14 ویں صدی عیسوی میں مدرسہ الاشرفیہ دمشق میں محفوظ کی گئیں۔ بعد ازاں ترکی منتقل کر دی گئیں۔ 1872ء میں اس وقت کے سلطان اور خلیفہ سلطان عبدالعزیز نے نعلین مبارک کو انتہائی عزت و احترام کے ساتھ قسطنطنیہ منتقل کرایا تھا۔ دمشق اس وقت سلطنت عثمانیہ کا ہی حصہ تھا۔
امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ اور فنون کی پروفیسر کرسٹین گروبر کے مطابق 19 ویں صدی عیسوی میں سلطنت عثمانیہ میں نعلین شریف کے حوالے سے غیر معمولی تڑپ پائی جاتی تھی۔ اس دوران نعلین مبارک کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا۔ جہاں ’’نعلِ رسول منظومی‘‘ کے عنوان سے ایک طویل نظم مقبول ہوئی۔ وہیں ’’روضہ الصفا فی وصف نعل مصطفیٰؐ‘‘ کے عنوان سے ایک عربی کتاب کا ترجمہ بھی کیا گیا۔ یہ کتاب طرابلس سے تعلق رکھنے والے اسکالر احمد بن سلیمان طرابلسی نے تحریر کی تھی۔ اس کتاب میں نعلین مبارک کے وصف، فوائد اور نفع کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
خلیفہ سلطان عبدالعزیز کی جانب سے نعلین مبارک کو دمشق سے قسطنطنیہ منتقل کرانے کا مقصد خیر و برکت کا حصول تھا۔ ایسا 19 ویں صدی میں ہی کیوں ہوا؟ اس کی ایک خاص وجہ ہے۔
ترک اور مغربی مورخین کی تحاریر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے آغاز سے ہی عثمانی سلاطین کو آثار متبرکہ میں گہری دلچسپی تھی اور وہ ان کے لیے انتہائی عقیدت رکھتے تھے۔ اس کی ایک مثال 15 ویں صدی کے ترک سلطان محمد اول کے اس واقعے سے ملتی ہے۔ جب انہوں نے نعلین مبارک کی ایک نقل کے لیے بھی بھاری ہدیہ دیا اور انہیں آنکھوں اور چہرے سے لگایا۔
تاہم 18 ویں اور 19 ویں صدی میں آثار مبارکہ کو جمع کرنے کے لیے ان کی کوششیں تیز ہوگئیں۔ کرسٹین گروبر اور یونیورسٹی آف واشنگٹن کے اسلامک اسٹیڈیز کے پروفیسر برینن وہیلر کے مطابق انہی تیز تر کوششوں کے دوران دمشق میں صدیوں سے محفوظ نعلین مبارک کو قسطنطنیہ لایا گیا۔ نعلین مبارک اور دیگر آثار مبارکہ کی دوسرے خطوں سے ترکی کو منتقلی کا عمل سلطان عبدالعزیز کے بھائی اور پیشرو سلطان عبدالمجید اول نے تیز کیا تھا۔ اس کا ایک مقصد ان تبرکات کو محفوظ بنانا بھی تھا۔
لیکن ان آثار مبارک سے برکت کا حصول اس سے زیادہ بڑا مقصد تھا۔ بالخصوص ایسے وقت میں جب سلطنت عثمانیہ مشکلات میں گھری تھی۔ سلطنت عثمانیہ کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نعلین مبارک کے لیے عقیدت اور محبت میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوا۔ عثمانی سلطنت کے زوال کی تاریخ کا بخوبی جائزہ لیا جائے تو اس محبت اور عقیدت میں اضافے کے کچھ دنیاوی اسباب بھی ملتے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ جب مشکلات میں گھری تو ترک سلاطین کو اپنے زوال کی سمجھ بھی آنے لگی۔ اس کا اعتراف 19 ویں صدی میں ترکی میں شروع ہونے والی اصلاحات کے موقع پر ایک سرکاری دستاویز میں کیا گیا۔ ان اصلاحات کو ’’تنظیمات‘‘ کہا جاتا ہے۔
زوال پذیر سلطنت عثمانیہ میں یہ تنظیمات زبردست مغربی دباؤ پر شروع کی گئی تھیں۔ عثمانی سلطان اور مسلمانوں کے خلفیہ عبدالمجید اول نے 1839ء میں تنظیمات کے لیے پہلا فرمان جاری کیا۔ اس فرمان کو ’’گل خانہ خط شریف‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس دستاویز کے شروع میں ایک حیرت انگیز اعتراف ہے۔ جو اہل مغرب کو آج بھی چونکا دیتا ہے۔ سلطان عبدالمجید اول نے اعتراف کیا تھا کہ سلطنت عثمانیہ کے زوال پذیر ہونے کا سبب قرآن و سنت اور شریعت سے دوری ہے۔ اس دستاویز کا آغاز یوں ہوتا ہے۔ ’’پورا عالم جانتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے ابتدائی دنوں سے قرآن کے اصول اور شریعت کی قواعد پر ہمیشہ عمل کیا گیا۔ (اسی بدولت) ہماری عظیم سلطنت طاقت اور قوت کی بلندیوں پر پہنچی اور اس میں رہنے والے آرام اور آسائش کی انتہا پر۔ لیکن پچھلے ڈیڑھ سو برس میں طرح طرح کی مشکلات اور دیگر وجوہات کی بنا پر شریعت پر عمل نہیں کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ماضی کی طاقت اور خوش حالی اب کمزوری اور غربت میں بدل چکی ہے۔ یہ واضح ہے کہ جن ممالک میں شریعت کی حکمرانی نہ ہو۔ وہ باقی نہیں رہ پاتے‘‘۔
سلطان عبدالمجید اول سلطنت عثمانیہ کے زوال کو سمجھ چکے تھے۔ وہ تبرکات مقدسہ سے فیض پانا چاہتے تھے۔ لیکن غلطیوں کا احساس ہونے کے باوجود سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں نے مغربی مطالبات پر سر تسلیم خم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے جزیہ معاف کرنے جیسی رعایتیں دے دیں۔ سلطنت عثمانیہ میں مغرب کا عمل دخل بڑھتا چلتا گیا۔ بے عملی نے انہیں تبرکات مقدس کے فیض سے محروم کر دیا۔ (واللہ عالم بالصواب)۔

توپ کاپی میوزیم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب دو نعلین مبارک اور ایک بند جوتا مبارک (درمیان میں)۔فائل فوٹو
توپ کاپی میوزیم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب دو نعلین مبارک اور ایک بند جوتا مبارک (درمیان میں)۔فائل فوٹو

توپ کاپی میوزیم کے نائب صدر حلمی ایدین کی تحقیق کے مطابق نعلین مبارک کے علاوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کبھار دو بند جوتے بھی پہنتے تھے۔ نعلین مبارک کے زیادہ استعمال کا سبب یہ تھا کہ حجاز کے موسم کے اعتبار سے یہ بہترین تھیں۔ بند جوتوں میں سے ایک جوڑا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے تحفے میں بھیجا تھا اور دوسرا صحابی رسول دحیہ الکلبیؓ نے نبی پاک ﷺ کو پیش کیا تھا۔ حضرت دحیہ الکلبیؓ قیصر روم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط پہنچانے کے حوالے سے مشہور ہیں۔
استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں جو تین نعلین مبارک موجود ہیں۔ ان میں سے ایک کی تفصیل گزشتہ روز آچکی ہے۔ دیگر دو نعلین مبارک میں سے ایک نعلین مبارک بڑی حد تک صرف تلوے پر مبنی ہے۔ اس کے اوپر صرف ایک بند دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ تیسری نعلین مبارک سب سے بہتر حالت میں ہیں۔ تاہم اس نعلین مبارک میں انگوٹھے سے گزرنے والا قبال صرف ایک ہے۔ احادیث میں دو قبال (قبالان) کا ذکر ملتا ہے۔ تینوں نعلین مبارک چمڑے سے بنی ہیں۔ چمڑے کی تین تہوں کو جوڑا گیا ہے۔ جیسا کہ ابتدائی اسلامی روایات میں ذکر ملتا ہے۔ ان کی سلائی کے لیے استعمال ہونے والا دھاگہ بھی چمڑے کا ہے۔ ان تینوں نعلین مبارک کے ساتھ میوزیم حکام نے ’’نعلین سعادت‘‘ کے الفاظ تحریر کر رکھے ہیں۔ جبکہ بند جوتے کے ساتھ ’’جوتا مبارک‘‘ کے الفاظ ہیں۔ یہ جوتا مبارک سیاہ چمڑے سے بنا ہے اور یمنی طرز کا ہے۔ اس کے سامنے کا حصہ گول نہیں۔ بلکہ انگوٹھے کی طرف سے باہر کو نکلا ہوا ہے۔ توپ کاپی میوزیم کے صدر حلمی ایدین کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بند جوتوں کے دو جوڑے تحفے میں پیش کیے گئے۔ ایک حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ارسال کیا تھا۔ جب کہ دوسرا جوڑا حضرت دحیہ کلبیؓ نے پیش کیا تھا۔ تاہم حلمی ایدین توپ کاپی میوزیم میں موجود بند جوتے کو ان میں سے کسی کے ساتھ بھی منسوب نہیں کرتے۔