عارف انجم:
قسط نمبر 18
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ مدینہ منورہ واپس آرہے تھے۔ راستے میں وہ بنو ساعدہ قبیلے کے علاقے میں آرام کے لیے رکے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سہل بن سعدؓ کو پانی لانے کا حکم دیا۔ سہل بن سعدؓ نے حکم کی تعمیل کی۔ جب اللہ کے نبی ﷺ پانی نوش فرما چکے تو حضرت سہل بن سعدؓ نے وہ پیالہ مبارک اپنے پاس محفوظ کرلیا۔ جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہونٹوں سے لگایا تھا۔ حضرت سہل بن سعدؓ نے طویل عمر پائی۔ مدینہ منورہ میں مقیم صحابہ کرامؓ میں سے انتقال کرنے والے وہ آخری صحابی رسول ہیں۔
حضرت سہل بن سعدؓ نے برسوں تک پیالہ مبارک اپنے پاس رکھا اور پھر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو عنایت فرما دیا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ بعد میں خلیفہ بنے۔ انہیں ان کی نیک سیرتی کے باعث پانچواں خلیفہ راشد یا خلیفہ خامس بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ ان کے خلیفہ بننے سے برسوں پہلے کی بات ہے۔ جب حضرت سہل بن سعدؓ سے انہیں پیالہ مبارک حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ 61 ہجری (681 عیسوی) میں پیدا ہونے والے عمر بن عبدالعزیز ابھی نوجوان ہی تھے۔ آپ اس دور کے اہل علم حضرت انس بن مالک اور یوسف بن عبداللہ جیسے جلیل القدر صحابہؓ اور تابعین کے حلقہ ہائے درس میں شریک ہوتے۔ توپ کاپی میوزیم کے نائب صدر حلمی ایدین کی تحقیق کے مطابق نوجوانی میں ہی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے آثار مبارکہ محفوظ کرنا شروع کر دیئے۔ ان میں پیالہ مبارک، ایک چمڑے سے بنا تکیہ مبارک جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے، ایک جبہ مبارک، ایک لحاف مبارک اور ایک ترکش مبارک شامل تھے۔
حضرت سہل بن سعدؓ کی جانب سے پیالہ مبارک حضرت عمر بن عبدالعزیز کو سپرد کیے جانے کا ذکر صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی ملتا ہے۔ بخاری کی حدیث نمبر 5236 میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپؐ کے اصحابؓ بنی ساعدہ کے چھتے میں بیٹھے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا ’’اسقنا لسہل‘‘۔ (سہل مجھے (پانی) پلاؤ)۔ سہل نے کہا، میں نے یہ پیالہ نکالا اور سب کو پانی پلایا۔ ابو حازم نے کہا کہ سہل نے وہ پیالہ نکالا۔ ہم لوگوں نے بھی اس میں پیا برکت کے لیے۔ پھر عمر بن عبدالعزیز نے وہ پیالہ سہل سے مانگا۔ سہل نے دے دیا۔
حضرت سہل بن سعدؓ نے 91 ہجری (708 عیسوی) میں وفات پائی۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 96 برس تھی۔
حضرت عمربن عبدالعزیزؒ 707 عیسوی میں مدینہ منورہ کے گورنر بنائے گئے اور 713 عیسوی تک اس منصب پر رہے۔ مسجد نبوی کی چوتھی توسیع آپ کے دور میں ہوئی۔ اس دوران حجرہ نبوی کو مسجد میں داخل کیا گیا۔ پہلی مرتبہ اذان کی جگہ اور کھوکھلی محراب بنوائی گئی۔ مسجد نبوی کے رقبے میں 58 فیصد اضافہ کیا گیا۔ دروازوں کی تعداد 3 سے بڑھا کر 20 کر دی گئی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ 718 عیسوی میں خلیفہ بنے۔ روایات کے مطابق 720 عیسوی میں آپؒ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔ چونکہ اموی دور میں دارالخلافہ دمشق کو بنایا جا چکا تھا۔ لہٰذا حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ وفات کے وقت شام میں تھے اور وہیں سپرد خاک ہوئے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے پیالہ مبارک القلقشندی خاندان کے پاس آگیا۔ اس خاندان میں کئی علما گزرے ہیں۔ ان میں سے ایک امام لیث بن سعد ہیں۔ جن کی عمر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے انتقال کے وقت 7 برس تھی۔ قلقشندی مصر کی ایک بستی کا نام ہے۔ اس سلسلہ نسب کے ایک اور مشہور عالم دین شہاب الدین القلقشندی ہیں۔ جن کا دور 14 ویں اور 15 ویں صدی عیسوی کا ہے۔ القلقشندی خاندان سے 16 ویں صدی عیسوی میں پیالہ مبارک دمشق کے گورنر امیر سیبائی (دور حکمرانی 1509-1515ئ) کے پاس آگیا۔
لیکن نبی اکرم ﷺ کے استعمال میں آنے والا یہ واحد پیالہ مبارک نہیں جو صحابہ، تابعین اور دیگر مسلمانوں کے لیے استبراک و توسل کا ذریعہ بنا۔ ایک اور پیالہ مبارک حضرت انسؓ کے پاس بھی تھا۔ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5638 ہے: ’’ہم سے حسن بن مدرک نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا ہم کو ابو عوانہ نے خبر دی۔ ان سے عاصم احول نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیالہ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس دیکھا ہے۔ وہ پھٹ گیا تھا تو انس رضی اللہ عنہ نے اسے چاندی سے جوڑ دیا۔ پھر عاصم نے بیان کیا کہ وہ عمدہ چوڑا پیالہ ہے۔ چمکدار لکڑی کا بنا ہوا۔ انس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے اس پیالہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بارہا پلایا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ ابن سیرین نے کہا کہ اس پیالہ میں لوہے کا ایک حلقہ تھا۔ انس رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ اس کی جگہ چاندی یا سونے کا حلقہ جڑوا دیں۔ لیکن ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنایا ہے۔ اس میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ کرو۔ چنانچہ انہوں نے یہ ارادہ چھوڑ دیا‘‘۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو اس پیالہ سے پینے کی سب انواع پانی، نبیذ، شہد اور دودھ سب چیزیں پلائی ہیں۔
یہ پیالہ مبارک حضرت انسؓ کے پاس رہا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے صاحبزادے حضرت نضر بن انس رحمہ اللہ کی میراث سے یہ پیالہ آٹھ لاکھ درہم میں فروخت ہوا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بصرہ میں اس پیالہ سے پانی بھی پیا۔ تاہم یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ کوئی دوسرا پیالہ تھا۔
موجودہ دور میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ایک پیالہ 2011 میں لندن سے چیچنیا لایا گیا۔ برطانوی اخبار گارجین اور دیگر جرائد کی اس وقت کی رپورٹوں کے مطابق یہ پیالہ لندن میں حضرت علیؓ کی آل اولاد میں سے کسی نے چیچنیا کے صدر رمضان قادریوف کے لیے بھیجا۔ گارجین نے دعویٰ کیا کہ قادریوف نے پیالہ مبارک کے بدلے بڑی رقم ہدیہ بھی کی۔ لیکن چیچن حکام اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ یہ پیالہ مبارک خصوصی طیارے کے ذریعے چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی پہنچایا گیا۔ جہاں صدر قادریوف رولز رائس گاڑیوں کا قافلہ لے کر استقبال کے لیے پہنچے۔ پیالہ مبارک کو گاڑیوں کے قافلے میں گروزنی کی جامع مسجد تک لایا گیا۔ راستے میں دونوں جانب ہزاروں افراد قطاریں بنائے کھڑے تھے۔ مسجد پہنچنے کے بعد رمضان قادریوف نے وہ باکس کھولا جس میں پیالہ مبارک رکھا گیا تھا۔ پیالہ مبارک پر نگاہ پڑتے ہی قادریوف سسکیاں لے کر رونے لگے۔ ان کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ مجمعے پر بھی رقت طاری ہوگئی۔ قادریوف نے پیالہ مبارک کو اوپر اٹھایا۔ بوسہ دیا اور پھر سر سے بلند کرلیا۔ پورے مجمعے نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔
اس کے بعد یہ پیالہ مبارک گروزنی کی جامع مسجد میں محفوظ کر دیا گیا۔ اس موقع پر چیچن حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ حضرت علیؓ کی آل اولاد میں سے جن صاحب کے پاس پیالہ مبارک تھا۔ ان سے متعدد لوگوں نے رابطہ کیا تھا۔ تاہم مذکورہ شخصیت نے کہا کہ وہ پیالہ مبارک صرف رمضان قادریوف کو سپرد کریں گے۔ یہ پیالہ مبارک اب بھی گروزنی کی جامع مسجد میں محفوظ ہے۔
توپ کاپی محل میں موجود تبرکات مقدسہ میں سے کچھ ایسے ہیں۔ جن کی نسل در نسل منتقلی کی تفصیلی اسناد موجود ہیں۔ ایک پیالہ مبارک جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی نوش فرمایا تھا یہاں موجود ہے۔ صحابی رسول حضرت سہل بن سعدؓ نے آقائے دو جہاں کو پانی پلانے کے بعد یہ پیالہ مبارک اپنے پاس محفوظ کر لیا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے پانچویں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز کو ان کی نوجوانی کے دنوں میں یہ پیالہ مبارک عنایت فرمایا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد یہ پیالہ مبارک طویل عرصے تک القلقشندی خاندان کے پاس رہا۔ اس خاندان کے کئی افراد کا شمار نامور علما میں ہوتا ہے۔ 16 ویں صدی عیسوی میں پیالہ مبارک دمشق کے گورنر امیر سیبائی (دور حکمرانی 1509-1515ئ) کے پاس آگیا۔
یہ پیالہ مبارک لکڑی سے بنا ہے۔ جب یہ گورنر دمشق کے پاس آیا تو 900 برس گزر چکے تھے اور شکست و ریخت کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ 16 ویں صدی میں اس کے گرد چاندی کا کور لگایا گیا۔ پیالہ مبارک کے جو حصے گھس چکے تھے۔ ان میں سیاہ رنگ کا مادہ ڈال کر مضبوط بنا دیا گیا۔
پیالہ مبارک کا قطر 20 سینٹی میٹر ہے۔ اس کی اونچائی 8 سینٹی میٹر ہے۔ جبکہ پیالے کی اپنی موٹائی 2 سینٹی میٹر ہے۔ باہر جو چاندی کا کور لگایا گیا ہے۔ اس پر قرآنی آیات کندہ ہیں۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارک کے دور سے لے کر گورنر امیر سیبائی تک پیالہ مبارک کن شخصیات کے پاس رہا۔ اس کی مختصر تاریخ کور کے لب (کنارے) پر باریک الفاظ میں تحریر ہے۔ پیالہ مبارک پر تحاریر کے لیے خط ثلث استعمال کیا گیا ہے۔ جو عربی کے خوبصورت ترین فونٹس میں سے ایک ہے۔