محمد قاسم:
افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا شروع ہوتے ہی طالبان نے اہم صوبوں کا گھیرائو شروع کر دیا ہے۔ ملک کے جنوب اور وسطی افغانستان سے ہزاروں جنگجو ہلمند اورغزنی کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔ جہاں انہوں نے ہلمند اورغزنی کا محاصرہ کرلیا ۔
دوسری جانب افغانستان کے صوبہ قندھار میں امریکی فوج نے گزشتہ روز طالبان کے خلاف ایک کارروائی کی۔ جو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ جس پر طالبان نے فوری طور پر مذکورہ اڈے جہاں پرامریکی فوج تعینات ہے، پر حملہ کر دیا۔ جس سے آگ بھڑک اٹھی۔ بعد ازاں امریکی کمانڈروں نے طالبان سے رابطہ کیا کہ وہ اڈا خالی کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا اڈے پرحملے رکوائے جائیں جس پرطالبان نے حملے روک دیے۔
جنوب مشرقی افغانستان کیلیے طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے’’امت‘‘ کو بتایا کہ انخلا کے لیے اڈے پر حملے رکوائے گئے۔ لیکن اگر امریکا نے آئندہ اس طرح کی کارروائی کی کوشش کی تو اس کے خلاف شدید حملے کیے جائیں گے۔ طالبان امریکی افواج کے انخلا میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔ تاہم ان کی جانب سے کسی بھی کارروائی کا جواب دیا جائے گا۔
’’امت‘‘کو دستیاب اطلاعات کے مطابق ہلمند سے امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی طالبان نے ایئر بیس پر قبضے کیلیے ہلمند کا محاصرہ شروع کر دیا۔ گزشتہ روز (پیر کو) ہزاروں جنگجوئوں نے دارالحکومت لشکر گاہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی تھی، جسے روکنے کیلیے کابل حکومت نے قبائلی عمائدین کو طالبان کے پاس بجھوا دیا ہے کہ وہ رمضان میں حملے بند کر دیں تاہم طالبان کے ملٹری کمیشن کے عہدیدار کے مطابق افغان کمانڈروں کو انٹونک ہوائی اڈے پر قیام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگرکابل حکومت ہلمند پر حملے رکوانا چاہتی ہے تو اسے اپنی افواج کو انٹونک پر تعینات نہیں کرنا چاہیے اورنہ ہی طالبان انٹونک پر قبضہ کر یں گے۔ اگر غنی حکومت نے اپنے کمانڈوزکو تعینات کیا تو طالبان انٹونک پردھاوا بول دیں گے اور ساتھ ہی ہلمند پر بھی قبضہ کر لیں گے۔
ادھر لڑائی کے خدشے کے پیش نظر ہلمند سے عوام نے نقل مکانی کی تیاری شروع کر دی ہے۔ تاہم طالبان ذرائع کے مطابق قبائلی عمائدین اور طالبان کے درمیان اگر مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو عید تک طالبان حملے روک دیں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ وسطی صوبہ غزنی کے دارالحکومت غزنی کے قرب و جوار میں بھی طالبان کے جنگجو پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔
غزنی سے رکن اسمبلی احمد غزنیوال نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر غزنی نکل جائے گا۔ کیونکہ طالبان کے ہزاروں جنگجوئوں نے غزنی کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ جبکہ غزنی میں حکومت مخالفین دیگر کمانڈر بھی طالبان سے ملنے کیلیے تیار ہیں۔ تاہم حقانی نیٹ ورک کی جانب سے انہیں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ کیونکہ وہ ماضی میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف امریکا کا ساتھ دے چکے ہیں۔ غزنی سے بھی لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے اور لوگ محفوظ مقامات کی طرف جارہے ہیں۔
حقانی نیٹ ورک کے مطابق دوحہ معاہدے میں ایسی کوئی شق تحریر نہیں کہ طالبان دارالحکومت یا صوبوں کا کنٹرول نہیں سنبھالیں گے۔ صرف غیر ملکی افواج کے انخلا کے دوران ان پر حملے نہیں کئے جائیں گے۔ تاہم افغانستان کے اندر صوبوں کا کنٹرول حاصل کرنا طالبان کا حق ہے۔ کیونکہ غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل رہی ہیں اور طالبان ایک فاتح قوت ہیں۔ فاتح قوت کیلیے کوئی شرائط نہیں رکھی جاتیں۔ حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر کے مطابق افغان فوج ان علاقوں میں ہتھیار ڈال دے، جہاں پر طالبان کا ستر فیصد سے زائد علاقوں پر قبضہ ہے اور ان صوبوں کا انتظام طالبان کے حوالے کر دے تاکہ عوامی مسائل کیلیے کوششیں شروع کی جائیں۔ مشرقی افغانستان کے تقریباً ستر فیصد حصے پر حقانی نیٹ ورک کا کنٹرول ہے۔ اس لئے ان علاقوں میں امن ملک کے دوسرے حصوں سے زیادہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد ازبکستان سے غیر اعلانیہ دورے پر کابل پہنچ گئے ہیں۔ جہاں پر انہوں نے صدر اور دیگر افغان سیاستدانوں کے ساتھ ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔ اس حوالے سے افغان طالبان کے آٹھ ہزار قیدیوں کا معاملہ سر فہرست رہے گا۔ جبکہ خلیل زاد کے دورے کے دوران افغان حکومت کے سلامتی کے مشیر حمداللہ محب نے کہا ہے کہ طالبان لڑائی چاہتے ہیں اور افغان سیکورٹی افواج طالبان کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں۔
زلمے خلیل زاد کے دورے کے حوالے سے ذر ائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ خلیل زاد نے ازبکستان میں ازبک حکام کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ امریکی ڈرون اور فضائیہ کیلئے اڈے فراہم کرے۔ جس پر اب تک ازبکستان نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ جبکہ جنرل دوستم نے بھی ازبکستان میں ڈیرے ڈال دیئے ہیں اور اپنے خاندان کے اہم افراد کو ازبکستان اور ترکی منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
ازبکستان میں جنرل دوستم نے خلیل زاد سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ اس بار طالبان کو روکنا ازبک ملیشیا اور شمالی اتحاد کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن اگر خانہ جنگی ہوتی ہے تو عام لوگوں کا زیادہ نقصان ہوگا۔ اس لئے امریکا طالبان کے ساتھ امن معاہدہ اور جنگ بندی پر توجہ دے۔ اگر ایسا نہ کیاگیا تو خون خرابہ ہو گا اور ازبک ملیشیا اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ کیونکہ اس کے پاس دفاع کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ افغان سیکورٹی فورسز طالبان کا راستہ نہیں روک سکتے اور امریکا نے ازبک ملیشیا اور شمالی اتحاد کو اسلحہ فراہم نہیں کیا۔ اس لئے ان کی بار بار اپیلوں کو مسترد کر دیا گیا اور اسلحہ نہ دینے کی وجہ سے ازبک ملیشیا اور شمالی اتحاد کے وہ جنگجو جنہوں نے امریکا کا ساتھ دیا تھا۔ طالبان کے رحم و کرم پر آگئے ہیں۔