سپر یم کورٹ نے شہباز شریف کو بیرون ملک جانے دینے سے متعلق حکم کے خلاف اپیل پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ بادی النظر میں حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی توہین کی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے شہباز شریف کو بیرون ملک جانے دینے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل پر سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ شہباز شریف کی درخواست پر ہائی کورٹ کی 7 مئی کی مہر لگی ہے، جس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ مہر کے حساب سے تو درخواست دائر بھی اسی دن ہوئی جب حکم دیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اتنی جلدی میں سارا کام کیسے ہو سکتا ہے؟ انتہائی ارجنٹ درخواست پر چیف جسٹس کی باقاعدہ تحریر ہوتی ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ شہباز شریف نے ہائی کورٹ سے درخواست واپس لے لی ہے، درخواست واپس ہونے پر وفاق کی اپیل کیسے سنی جا سکتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ درخواست واپس لینے کے حکم میں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ واپس نہیں لیا گیا، شہباز شریف کی توہین عدالت کی درخواست زیرالتوا ہے، توہین عدالت درخواست کے ذریعے بیرون ملک روانگی کے فیصلے پرعمل کرایا جا سکتاہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ حکومتی اداروں نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اقدام کیا، بادی النظر میں حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی توہین کی۔ شہباز شریف رکن پارلیمان اور اپوزیشن لیڈر ہیں، تمام اراکین اسمبلی کا احترام ہے ، کیا شہباز شریف کو کوئی میڈیکل ایمرجنسی تھی جو اتنی جلدی سماعت ہوئی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ شہباز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت مسترد ہوئی تھی، ایسا کوئی ریکارڈ نہیں کہ شہباز شریف کو ایمرجنسی تھی، لاہور ہائی کورٹ نے تو وفاق کا موقف بھی نہیں سنا، بلکہ یکطرفہ حکم دے کر عملدرآمد کے لیے بھی زور دیا گیا،شہباز شریف بطور اپوزیشن لیڈر قابل احترام ہیں لیکن انصاف قانون کے مطابق ملنا چاہیے۔
اٹارنی جنرل کا موقف سننے کے بعد سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی اپیل ابتدائی سماعت کے لیے منظور کر لی، سپر یم کورٹ نے شہباز شریف کی بیرون ملک روانگی کیس میں ہائیکورٹ سے ریکارڈ طلب اور مقدمے کے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔