عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق مالی کی فوج نے ملک کی نگراں حکومت کے صدر باہ نداو او وزیراعظم مختار وان کو حراست میں لے لیا۔ فوجی بغاوت اُس وقت کی گئی جب ملک کی نگراں حکومت کے اُن دو فوجی افسران کے عہدے تبدیل کیے گئے جنہوں نے گزشتہ برس فوجی بغاوت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
مالی میں گزشتہ برس اگست میں ملک کی سرحدوں پر شدت پسندوں سے نبرد آزما فوجیوں نے اپنی تنخواہوں اور مراعات سے ناخوش ہوکر ملکی اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ مالی کے عوام حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں تھے تاہم فوجی بغاوت کی بھی حمایت نہیں کی تھی۔
عالمی سطح پر بھی فوجی بغاوت کی شدید مخالفت دیکھنے میں آئی اور مالی پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی تھیں جس کے بعد فوجی حکومت ملک میں سویلین حکومت کو اقتدار سونپنے پر رضامند ہوئی تھی۔
اُس وقت کے فوجی بغاوت کی قیادت کرنے والے اسیمی گویتا نے ملک میں نگراں حکومت کے قیام کا اعلان کیا تھا جو ڈیڑھ سال میں صاف اور شفاف انتخابات کراکے اقتدار منتخب حکومت کو سونپ دے گی۔
اسیمی گویتا نگراں حکومت میں خود نائب صدر بن گئے اور فوجی بغاوت کے ایک اور کردار جنرل سادیو کمارا کو وزیردفاع مقرر کیا گیا تھا جب کہ ایک اور فوجی بغاوت رہنما جنرل ملک ڈیا کو بھی کابینہ میں لیا گیا۔
ستمبر 2020 میں نگراں حکومت کے قیام کے بعد پہلی بار اس ماہ ہی کابینہ میں ردوبدل کی گئی اور سابق فوجی بغاوت کی قیادت کرنے والے اسیمی گویتا اور جنرل سادیو کمارا کے عہدے تبدیل کیے گئے۔ کابینہ کا یہ فیصلہ ملک میں دوبارہ فوجی بغاوت کا سبب بنا۔
ادھر اقوام متحدہ اور افریقی یونین نے صدر اور وزیراعظم کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی اور ملکی اقتدار سویلین حکومت کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
تازہ فوجی بغاوت پر ملٹری قیادت کی جانب سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا تاہم عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں 12 رکنی نئی کابینہ کا اعلان کردیا گیا ہے۔