بلاسود قرضے
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہر شہری گھرانے کو کاروبارکے لیے 5 لاکھ روپے تک بلاسود قرضے دیں گے۔ ہر کاشت کار گھرانے کو ہر فصل کی کاشت کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے بلاسود قرضے دیں گے۔ اسی طرح ٹریکٹرزاورمشینی امداد کے لیے 2 لاکھ روپے تک بلاسود قرضے دیں گے۔
کم لاگت گھروں کی تعمیر کے لیے 20 لاکھ روپے تک سستے قرضے، ہر گھرانے کو صحت کارڈ اور ایک فرد کو مفت تکنیکی تربیت دی جائے گی۔ گھر کی خریدار یا تعمیر میں مدد کے لیے 3 لاکھ روپے سبسڈی دی جارہی ہے جس کے لیے بجٹ میں 33 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ احساس پروگرام کے لیے 260 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں۔
آئی ٹی پر ٹیکس چھوٹ
آئی ٹی سروس کی برآمدات کو زیرو ریٹنگ کی سہولت فراہم کردی گئی ہے۔ پھلوں کے رس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کردی گئی۔ قرآن پاک کی اشاعت کے لیے معیاری کاغذ کی درآمد پر بھی چھوٹ دے دی گئی۔ خود تلف ہونے والی سرنجز اور آکسیجن سلنڈرز پر ٹیکس چھوٹ دے دی گئی۔
درآمدات پر ٹیکس استثنیٰ
آئندہ بجٹ میں کتابوں، رسالوں، زرعی آلات اور 850 سی سی گاڑیوں کے سی بی یو کی درآمد کو ود ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دیا جارہا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ 10 ملین روپے تک سالانہ ٹرن اوور والی گھریلو صنعت کو سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن سے استثنیٰ دے دیا گیا۔
پوائنٹ آف سیل مشینیں
تھوک اور پرچون کاروباروں کے لیے پی او ایس مشینیں اس وقت 11 ہزار دکانوں میں نصب ہیں جنہیں 2 سال میں بڑھا کر 5 لاکھ ریٹیل دکانوں میں نصب کیا جائے گا جو ایف بی آر سے منسلک ہوں گی۔ حکومت ان مشینوں کی تنصیب مفت کرے گی۔
الیکٹرک گاڑیاں سستی
الیکٹرک گاڑیوں کی مقامی مینو فیکچرنگ کے لیے کٹس کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ ان گاڑیوں کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح میں 17 فیصد سے 1 فیصد تک کمی کی گئی ہے۔
شوکت ترین نے کہا کہ بجٹ میں اخراجات جاریہ 14 فیصد اضافہ کے ساتھ 6561 ارب روپے سے بڑھا کر 7523 ارب روپے کیا جارہا ہے، سبسڈیز کیلیے 682 ارب روپے رکھے جارہے ہیں،
شوکت ترین نے کہا کہ آئندہ مالی سال کیلیے مجموعی ریونیو کا تخمینہ 7909 ارب روپے ہے اور ریونیو میں اضافہ کا ہدف 24 فیصد ہے، ایف بی آر کا ہدف 24 فیصد گروتھ کے ساتھ 5829 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے اور نان ٹیکس ریونیو گروتھ کا ہدف 22 فیصد رکھا گیا ہے، وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ 2704 ارب روپے سے بڑھا کر 3411 ارب روپے کردیا ہے۔
سی پیک منصوبے
سی پیک کے 13 ارب ڈالر کے 17 بڑے منصوبے مکمل کر لیے گئے اور 21 ارب ڈالر مالیت کے مزید 21 منصوبے جاری ہیں، اسٹریٹجک نوعیت کے 28ارب ڈالر کے 26 منصوبے زیر غور ہیں، بجٹ میں کراچی لاہور موٹروے کی تکمیل ترجیحات میں شامل ہے۔
نئے سال کا دفاعی بجٹ مجموعی قومی بجٹ کا 16 فیصد اور جی ڈی پی کا 2.8 فیصد ہے، جس میں سے پاک آرمی کا دِفاعی بجٹ ملکی بجٹ کا 7 فیصد ہے۔
آبی ذخائر
وزیر خزانہ نے کہا کہ آبی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے 91 ارب روپے، داسو ہائیڈور پاور پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کے لیے 57 ارب روپے مختص، دیامبر بھاشا ڈیم کے لیے 23ارب، مہمند ڈیم کے لیے 6ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں، جب کہ نیل جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کے لیے 15ارب روپے کی تجویز ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ بجلی کی ترسیل کے منصوبوں کے لیے 118 ارب روپے رکھے گئے ہیں، اسلام آباد اور لاہور میں بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کے لیے ساڑھے سات ارب روپے اور داسو سے 2160 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے ساڑھے آٹھ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
کرونا فنڈز
کورونا سے نمٹنے کے لیے 100 ارب روپے رکھے جائیں گے، تنخواہ دار پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، ٹیکس نظام کو سادہ بنانے کے لیے نئے قوانین لا رہے ہیں۔
سندھ کے لیے 14 سے زائد ترقیاتی منصوبے
سندھ کے لیے 14 سے زائد ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ ٹیلی کام سیکٹر کے لیے ایکسائز ڈیوٹی 17 سے 16 فیصد کر دی گئی۔ 850 سی سی گاڑیوں میں ساڑھے چار فیصد ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی۔ چھوٹی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 17 سے 12.5 فیصد کیا جا رہا ہے۔
آزادکشمیرکے لیے 60 ارب روپے مختص کیے گئے، گلگت بلتستان کےلیے 47 ارب روپے مختص کیے گئے۔ ہائرایجوکیشن پر 66 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ بجلی کی ترسیل کیلیے 118ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ موبائل فون کے استعمال پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں کمی کی جا رہی ہے۔ 12 فیصد سے دس فیصد کیا جائے گا اور بعد میں یہ 8 فیصد ہو جائے گی۔
مالی سال 2021-22 کے بجٹ میں اینٹی ریپ فنڈ بھی قائم کردیا گیا۔وزیر خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران بتایا کہ وزیر اعظم کی طرف سے خصوصی ہدایات پر اینٹی ریپ فنڈ قائم کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اینٹی ریپ فنڈ میں ابتدائی طور پر 100 ملین روپے کی رقم رکھی گئی ہے جس میں بعد میں اضافہ کیا جائے گا۔
ترقیاتی بجٹ
آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 900 ارب روپے مقرر کیا گیا جس میں سے وفاقی وزارتوں کو 672 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ملے گا، ایوی ایشن ڈویژن کیلیے 4 ارب 29 کروڑ، کابینہ ڈویژن کو56ارب2کروڑ روپے ، موسمیاتی تبدیلی 14ارب روپے، کامرس ڈویژن 30 کروڑ روپے، وزارت تعلیم و تربیت کیلیے9 ارب روپے، وزارت خزانہ 94ارب روپے ، ہائر ایجوکیشن کمیشن 37 ارب روپے ، ہاؤسنگ و تعمیرات کیلیے 14 ارب94 کروڑ، وزارت انسانی حقوق 22 کروڑ، وزارت صنعت و پیداوار3 ارب، وزارت اطلاعات 1 ارب 84 کروڑ روپے، وزارت آئی ٹی 8 ارب روپےمختص کیے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بین الصوبائی رابطہ کیلیے 2 ارب 56 کروڑ، وزارت داخلہ 22 ارب روپے، امورکشمیراورگلگت بلتستان کیلیے61ارب، وزارت قانون و انصاف 6 ارب، امور جہازرانی و میری ٹائم کیلیے4 ارب 95 کروڑ، وزارت انسداد منشیات کیلیے 33 کروڑ، وزارت غذائی تحفظ کے لیے 12 ارب ، نیشنل ہیلتھ سروسزکیلیے 22ارب82 کروڑ، قومی ورثہ و ثقافت کیلئے 4 کروڑ 59 لاکھ، پٹرولیم ڈویژن 3 ارب 7 کروڑ روپے، وزارت منصوبہ بندی 99 ارب 25 کروڑ، سماجی تحفظ 11 کروڑ 89 لاکھ، ریلوے ڈویژن کیلیے 30 ارب روپے، سائنس و ٹیکنالوجی 8 ارب 11 کروڑ، آبی وسائل 110 ارب روپے، این ایچ اے 113 ارب 95 کروڑ روپے، پیپکو کے لیے 53 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مقرر کیا گیا ہے۔ دیگر ضروریات و ایمرجنسی کیلیے 60 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔