کراچی ۔ عام لوگ اتحاد کے رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین نے بجٹ کو ففٹی ففٹی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس چور و راشی افسران سے نمٹنے کیلیے واحد راستہ کیپسٹی ٹیکس ہے۔ سرکلر قرضوں سے قوم چھٹکارا تب ہی پائے گی جب چھوٹے بجلی صارفین کو بلا واسطہ سبسڈی ادا ہوگی۔ ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی انوائس بنتے ہی FBR کو ارسال یقینی بنائی جائے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہم بجٹ کو 50:50 اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ اس میں افزائش یا بڑھوتری کا عنصر واضح ہے ،جیسے زراعت، کاروبار و صنعت کو مالی محرکات باہم پہنچانا وغیرہ۔ لیکن مار وہیں کھائی جہاں سے عوام ہمیشہ ڈسے گئے ہیں۔ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ افسر نے رشوت لینی ہے اور ٹیکس نہ دہندہ سرمایہ دارکو سہولت کاری ضرور مہیا کرنی ہے۔ IMF نے موجودہ پروگرام شروع کرتے وقت متنبہ کیا تھا کہ پاکستانی معیشت 10 کھرب ٹیکس کے بریکٹ میں آتی ہے، پھر بھی اس بجٹ کو 5.8 کھرب پر محدود کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے تو انکم ٹیکس خواہ پرائیوٹ انفرادی سطح کا ہو یا اجتماعی اداروں کا وہcapacity یا اسطاعت پر مبنی ہو۔ اسی طرح ٹیکس افسران کے صوابدیدی اختیارات کا خاتمہ اور ٹیکس کنندہ کی حتمی ذمہ داری قائم ہوگی۔ اسی طرح اگر ودھ ہولڈنگ ٹیکس کے قواعد اگلے ہی روزایف بی آر کو ارسال کئے جاسکتے ہیں تو ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی بیجک (انوائس)فروخت کے وقت ہی ترتیب پاکر ایف بی آر کو کیوں نہیں جاسکتی، متعلقہ رقم بے شک 15 روز میں واجب الادا رہےمگر کسی کو بھی معلوما مواد (ڈیٹا) سے چھیڑ چھاڑ کا موقع فراہم نہیں ہونا چاہیے۔ اور ہم تو دستاویزی معیشت کی طرف گامزن بتائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک اور اہم مسئلہ سبسڈیز کا اور خصوصاً توانائی کی افزائش اور ترسیل کے سلسلے کا ہے۔ اربہا روپیہ متعلقہ کمپنیوں کو سرکار کی طرف سے دیا جاتا ہے، صرف اس لئے کہ چھوٹے کھاتہ دار جیسے 300 یونٹ تک کے صارف بوجھ سے آزاد رہیں اور حکومت بجلی کے اداروں کو خسارے سے محفوظ رکھ سکے۔ ہوتا دراصل یہ ہے کہ ادارے زیادہ تر سبسڈیز کو خود ہضم کر جاتے ہیں۔ بھارت میں انہوں نے یہ علاج نکالا ہے کہ سبسڈی کی رقم ہر صارف کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرا دی جاتی ہےجو وہاں سے ادارے کو مختص ہوجاتی ہے اور یوں اس دھاندلی سے جان چھوٹ گئی ہے۔ ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟۔