چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ایڈمنسٹریٹرکے ایم سی لئیق احمد کو ہدایت کی ہے کہ کے ایم سی کے 80 فیصد عملے کو فارغ کریں، یہ لوگ کوئی کام نہیں کرتے، سارا دن دفاتر میں بیٹھے رہتے ہیں، کراچی میں آفت آتی ہے تو کوئی نظر نہیں آتا، پچھلے سال کی بارشوں میں ہم نے دیکھ لیا۔
عدالتِ عظمیٰ میں گجر نالے پر تجاوزات کے خلاف آپریشن سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان نے آپریشن ایک ہفتے روکنے کی استدعا کردی۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے نالوں پرتجاوزات کے خاتمے کا آپریشن جاری رکھتے ہوئے متاثرین کی بحالی کے لیے اٹارنی جنرل کو وفاق اور صوبائی حکومت سے مشاورت کی ہدایت کر دی۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مؤقف اختیار کیا کہ نالے پر تجاوزات آپریشن سے 40 ہزار لوگ متاثر ہوں گے، جس سے انسانی المیہ جنم لے گا۔
انہوں نے استدعا کی کہ وفاقی اور صوبائی حکومت سے اس سلسلے میں بات کرنا چاہتا ہوں، آئندہ سیشن تک آپریشن روک دیں اور پھر ایک سیشن رکھ لیں۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ پہلے لوگ چیک لینے آ رہے تھے، مگر حکمِ امتناع کی وجہ سے اس کا سلسلہ روک دیا گیا تھا، کیا ڈیمالیشن کا کام روک رہے ہیں؟.
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نےکہا کہ نہیں آپ اپنا کام جاری رکھیں۔عدالتِ عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو اس معاملے پر وفاقی اور صوبائی حکومت سے مشاورت کی ہدایت کر دی۔
دورانِ سماعت ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی لئیق احمد سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ گجر نالے پر تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کردیا ہے، عمارتیں گرانے میں مشکلات ہوتی ہیں، فنڈز کا مسئلہ ہوتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جو یہاں لیز دینے میں ملوث ہیں ان کے خلاف ایف آئی آرز درج کرائیں گے، یہ پہلا اقدام ہو گا۔ایڈمنسٹریٹرکے ایم سی نے بتایا کہ عمارتیں گرانے پر بہت خرچہ ہو گیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی مشینری گل سڑ رہی ہے، ٹرک کھڑے ہوئے ہیں، ملازمین نے ان کے پرزے نکال لیئے ہیں، کے ایم سی کو کھوکھلا کر دیا گیا ہے، پہلے کے ایم سی اپنا فنڈ خود پیدا کرتی تھی۔
چیف جسٹس گلزاراحمد نے انہیں ہدایت کی کہ کے ایم سی کے 80 فیصد عملے کو فارغ کریں، یہ لوگ کوئی کام نہیں کرتے، سارا دن دفاتر میں بیٹھے رہتے ہیں، کراچی میں آفت آتی ہے تو کوئی نظر نہیں آتا، پچھلے سال کی بارشوں میں ہم نے دیکھ لیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے یہ بھی کہا کہ پہلے ہم دیکھتے تھے کہ رات 3 بجے ساری کچی پکی سڑکیں دھل جاتی تھیں، بچوں کے اسکول جانے سے پہلے سارا کچرا اٹھا لیا جاتا تھا، اب سب جگاڑوں میں لگے ہوئے ہیں۔