انتظامیہ شاپ کیپرزکے ساتھ مل کر جدوجہد کرنا چاہتی ہے- ذرائع۔فائل فوٹو
 انتظامیہ شاپ کیپرزکے ساتھ مل کر جدوجہد کرنا چاہتی ہے- ذرائع۔فائل فوٹو

’’الہ دین شاپنگ مال 25 سالہ لیز پر تھا‘‘

امت رپورٹ:
’’میں نے دن رات محنت کرکے اپنا فرنیچرکا کاروبار جمایا تھا۔ اس محنت کے نتیجے میں دس برس بعد اس قابل ہوگیا کہ تین دکانیں خریدنے کے ساتھ چند چھوٹے کیبن بھی کرائے پر لے لئے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف مجھے محنت کا بھرپور صلہ دیا اور معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا۔ بلکہ میرے توسط سے کم از کم ڈھائی درجن لوگوں کے گھروں کے چولہے جلانے کا اننتظام بھی کرا دیا۔ تاہم کے ایم سی نے چشم زدن میں میری دس سالہ محنت کو خاک میں ملا دیا۔ اور میرے ساتھ جڑے متعدد افراد کو بے روزگار کر دیا‘‘۔
الہ دین شاپنگ مال میں ’’فرنیچر کلب‘‘ کے نام سے کاروبار کرنے والے محمد عباس ’’امت‘‘ کو اپنی بپتا سنارہے تھے۔ ایک محمد عباس ہی نہیں۔ کے ایم سی کے ہاتھوں مسمار کئے جانے والے الہ دین شاپنگ مال کے تین سو سے زائد دکاندار اسی اذیت سے گزر رہے ہیں۔ ان میں کئی بیوائیں، یتیم اور ایسے بزرگ شامل ہیں۔ جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد گریجویٹی کی شکل میں ملنے والی اپنی ساری عمر کی جمع پونجی لگاکرالہ دین شاپنگ مال میں دکانیں خریدی تھیں۔ معاشی قتل عام کا شکار ان دکانداروں کو یہ دکھ بھی ہے کہ میڈیا میں اس ظالمانہ ایکشن کو تجاوزات کے خلاف کارروائی کا نام دے کران کے زخموں پر نمک چھڑکا جارہا ہے۔ حالانکہ ان کی دکانیں لیز تھیں۔ الہ دین پارک کی انتظامیہ اورکے ایم سی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت یہ دکانیں پچیس سالہ لیز پر بنائی گئی تھیں۔ ایگریمنٹ میں یہ شامل تھا کہ پچیس سالہ لیز ختم ہونے پر لیز میں مزید پچیس برس کی توسیع کی جائے گی۔ لیکن اس کے برعکس شاپنگ مال کو میدان بنانے کی کارروائی شروع کر دی گئی۔ ستم یہ ہے کہ کسی ایک دکاندار کو بھی نوٹس نہیں ملا۔ تقریباً سب نے الہ دین شاپنگ مال مسمار کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے حکمنامے کی خبر ٹی وی پر سنی۔


الہ دین شاپنگ مال کو مسمار کرنے کا سلسلہ دوسرے روز بدھ کو بھی جاری رہا۔ دکاندار بے بسی سے یہ کارروائی ہوتے دیکھتے رہے۔ پہلے روز تاجروں نے پُر امن احتجاج ریکارڈ کرانے کی کوشش کی تھی۔ اس کا نتیجہ انہیں بدترین لاٹھی چارج اور شیلنگ کی شکل میں بھگتنا پڑا۔ اس احتجاج میں شریک ایک دکاندار پرویز احمد نے بتایا کہ پولیس نے خواتین اور بزرگوں کا خیال بھی نہیں کیا۔ خواتین کو مرد پولیس اہلکاروں نے لاٹھیوں کا نشانہ بنایا۔ بزرگوں کو لاتیں اور گھونسے مارے گئے۔ حالانکہ یہ پُر امن احتجاج تھا۔ جس میں جوان بچیاں بھی احتجاجی پلے کارڈ لے کر ایک سائیڈ پر کھڑی تھیں۔ پرویز احمد کے بقول دکانداروں کو کوئی وارننگ نہیں دی گئی تھیں۔ ان سمیت تقریباً تمام دکانداروں کو میڈیا سے معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر دو دن کے اندر شاپنگ مال گرایا جارہا ہے۔ چونکہ دکانداروں کے پاس کسی قسم کا نوٹس نہیں آیا تھا تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید یہ خبر غلط ہو۔ جب اس بارے میں دکاندار نے انتظامیہ سے رابطہ کیا تو وہ بھی گومگو کی کیفیت میں تھی۔ اگلے ہی روز صبح نو بجے کے قریب شاپنگ مال کے سامنے کرینیں اور پولیس کی گاڑیاں پہنچ گئیں۔ دکانداروں کا مطالبہ تھا کہ انہیں سپریم کورٹ کا آرڈر دکھایا جائے۔ لیکن کسی نے بھی یہ آرڈر نہیں دکھایا۔
کے ایم سی کی جانب سے پہلے دن کی کارروائی ختم ہونے کے بعد الہ دین شاپ کیپرز ایسوسی ایشن کے ذمہ داران سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ انتظامیہ سے بھی مشاورت کی گئی۔ بعد میں متفقہ طور پر فیصلہ ہوا کہ ابھی شاپنگ پلازہ کا بڑا حصہ سلامت ہے۔ اسے بچانے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے۔ جس کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرکے حکم امتناعی حاصل کرلیا جائے۔ تاہم یہ کوشش بھی اس وقت ناکام ہوگئی۔ جب بدھ کی صبح سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں ایسوسی ایشن کے وکیل کو سننے سے انکار کر دیا گیا۔

الہ دین شاپ کیپرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ اور سابق صدر دلشاد بخاری بتاتے ہیں کہ دکانداروں نے رات کو ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ صبح سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن دائر کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں ایسوسی ایشن نے وکیل کی خدمات بھی حاصل کرلی تھیں لیکن وکیل کو عدالت میں نہیں سنا گیا۔ یوں اسٹے آرڈر سے متعلق دکانداروں کی امید بھی ٹوٹ گئی۔ دراصل محترم چیف جسٹس تک درست معلومات نہیں پہنچائی گئیں۔ اس کے برعکس نااہل انتظامیہ اپنا غلط موقف پوری طرح پہنچانے میں کامیاب رہی۔ جس کی مرضی سے شاپنگ مال لیز ہوا تھا۔ ان کے خیال میں اگر چیف جسٹس تک متاثرین کا موقف بھی پہنچ جاتا تو شاید ریلیف کا کوئی راستہ نکل آتا۔ دکانوں کے قانونی ہونے کے بارے میں دلشاد بخاری کا کہنا تھا کہ الہ دین شاپنگ مال کی دکانیں انیس سو پچانوے سے پہلے کی بنی ہوئی ہیں۔

الہ دین پارک کی انتظامیہ اے اے جوائے لینڈ پرائیویٹ لمیٹڈ اور کے ایم سی کے مابین میوچل انڈر اسٹینڈنگ ایگریمنٹ طے پایا تھا۔ جس کے تحت کے ایم سی نے پچیس سالہ لیز پر یہ دکانیں دے دی تھیں۔ ایگریمنٹ میں طے تھا کہ پچیس سال کی لیز پوری ہونے کے بعد اس میں مزید پچیس سال کی توسیع کر دی جائے گی۔ الہ دین کی مجموعی اراضی باون ایکڑ ہے۔ جس میں سے پانچ فیصد اراضی کو کمرشل سرگرمیوں کی اجازت دی گئی تھی۔ اسی پانچ فیصد اراضی پر شاپنگ مال تعمیر ہوا اور اپر گرائونڈ اور لوئر گرائونڈ دکانیں بنائی گئیں۔ ابتدا میں مجموعی طور پر دو سو پینسٹھ لیزڈ دکانیں تھیں۔ جو نقشے کے مطابق بنائی گئیں۔

بعد ازاں کے ایم سی اور انتظامیہ کے تعاون سے مزید چھوٹے کیبن اور اسٹال بھی بنا دیئے گئے۔ یوں یہ تعداد ساڑھے تین سو کے قریب تھی۔ دلشاد بخاری کے بقول اصل مسئلہ کراچی کے موجودہ ایڈمنسٹریٹر لئیق احمد اور الہ دین پارک کی انتظامیہ اے اے جوائے لینڈ کے مابین چپقلش سے شروع ہوا۔ انتظامیہ ایگریمنٹ کے مطابق لیز میں مزید پچیس برس کی توسیع چاہتی تھی۔ لیکن ایڈمنسٹریٹر اس پر تیار نہیں تھے۔ بعد ازاں انتظامیہ نے عدالت جاکر حکم امتناعی حاصل کرلیا۔ لیکن یہ اسٹے آرڈر برقرار نہیں رہ سکا اور بات شاپنگ مال کو گرانے تک جا پہنچی۔ دراصل انتظامیہ اور ایڈمنسٹریٹر کے دوران چپقلش کا خمیازہ تاجروں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یعنی دو ہاتھیوں کے درمیان چیونٹیاں پس رہی ہیں۔

دلشاد بخاری نے بتایا کہ قریباً ڈھائی ماہ قبل کراچی چیمبر آف کامرس میں ان کی ایڈمنسٹریٹر لئیق احمد سے ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے لئیق احمد کو کہا تھا کہ آپ الہ دین انتظامیہ کے بجائے دکانداروں کے ساتھ براہ راست بات کرلیں اور کوئی درمیان کا راستہ نکالیں۔ کیونکہ دکانداروں نے تو یہ دکانیں الہ دین کی انتظامیہ اے اے جوائے لینڈ سے خریدی تھیں۔ جس کی سب لیز سب کے پاس موجود ہے۔ لہٰذا تنازعہ کی سزا دکانداروں کو نہیں ملنی چاہئے۔ تاہم بعد میں نہ ایڈمسنٹریٹر کی طرف سے دکانداروں کو بلایا گیا۔ جبکہ کورونا بحران کے سبب معاشی مشکلات میں پھنسے دکانداروں کو ان سے دوبارہ رابطہ کرنے کا خیال آیا۔ یہاں تک کہ دکانیں مسمار کرنے کی کارروائی شروع ہوگئی۔ الہ دین شاپنگ مال میں دلشاد بخاری کی اپنی بھی تین دکانیں تھیں۔ ان میں سے جوتوں کی ایک بڑی دکان سے انہیں پینسٹھ ہزار روپے ماہانہ کرایہ آرہا تھا۔ دیگر دو دکانوں میں سے ایک کاسمیٹکس کی اور دوسری کھلونوں کی دکان تھی۔ ان دونوں دکانوں سے بھی انہیں بالترتیب پچیس اور بیس ہزار روپے کرایہ مل رہا تھا۔ لیکن اب وہ بھی شاپنگ مال کے دیگر دکانداروں کی طرح اپنی اس ماہانہ آمدنی سے محروم ہوگئے ہیں۔

Aladin Park encroachments: KMC demolishes shopping mall's corridor,  entrance gate

دلشاد بخاری نے بتایا کہ کے ایم سی کی کارروائی کے دوسرے روز تک شاپنگ مال کا تیس فیصد سے زائد حصہ مسمار کیا جا چکا تھا۔ مزیدکارروائی کا آغاز آج جمعرات سے ہوگا۔ جبکہ بے بس دکانداروں کو اپنی باقی ماندہ پراپرٹی بچانے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ دلشاد بخاری کے بقول جس طرح بنی گالہ کے غیر قانونی حصے کو جرمانہ ادا کرنے کے بعد ریگولرائز کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اسی طرح الہ دین شاپنگ مال کے دکانداروں کو بھی کچھ جرمانہ لگاکر معاشی خود کشی سے بچایا جا سکتا تھا۔ لیکن ملک میں بالا دستوں کی جیت ہے۔ غریبوں کی سننے والا کوئی نہیں۔ متاثرہ دکانداروں نے اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں پیش کر دیا ہے۔
الہ دین شاپنگ مال کو گرانے کے لئے کے ایم سی کا آپریشن جاری ہے۔ اس دوران بعض دکاندار جیسے تیسے اپنا سامان نکالنے میں مصروف ہیں۔ انہی میں فرنیچر کی دکانیں چلانے والے محمد عباس شامل ہیں۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے محمد عباس نے بتایا ’’میں نے دن رات ایک کرکے اپنے کاروبار کو عروج پر پہنچایا۔ پہلے ایک دکان خریدی۔ اور اس کے بعد مزید دو دکانیں خریدنے کے قابل ہوگیا۔ کاروبار مزید بڑھا تو آٹھ چھوٹے کیبن بھی کرائے پر لے لئے تھے۔ میرے پاس چھ ملازمین تھے۔ جبکہ جس کارخانے سے میں اپنا فرنیچر تیار کراتا تھا۔ وہاں بیس کے قریب کاریگر کام کر رہے تھے۔ فرنیچر سپلائی کرنے کے لئے بھی دو افراد موجود تھے۔ شاپنگ پلازہ مسمار ہونے سے مجھ سمیت ستائیس افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ان میں ایک ایسا کاریگر شامل ہے۔ جو ایک عرصے سے بے روزگار تھا۔ اب اس نے میری شاپ کے لئے فرنیچر بنانا شروع کیا تھا۔ آرڈر پر دیا گیا پہلا صوفہ سیٹ اس نے ایک روز قبل ہی میری دکان پر پہنچایا تھا۔ مزید دو صوفہ سیٹ اختتامی مراحل پر تھے کہ شاپنگ مال مسمار کرنے کی کارروائی شروع ہوگئی۔ یوں طویل عرصے تک بے روزگار رہنے والے کاریگر کو دوبارہ بے روزگار ہونا پڑا ہے۔ محمد عباس کا مطالبہ تھا کہ مسمار کئے جانے والے شاپنگ مال کے دکانداروں کو متبادل کے طور پر کسی اور جگہ دکانیں دی جائیں۔ ورنہ سینکڑوں خاندانوں میں سے متعدد خود کشی پر مجبور ہو جائیں گے۔

Protesters clash with police during anti-encroachment operation

متاثرہ دکانداروں میں ریلوے کے ایک ریٹائرڈ بزرگ بھی شامل ہیں۔ کینسر کے مریض یہ بزرگ دکاندار ریلوے میں اکائونٹنٹ تھے۔ ریٹائر ہونے پر گریجویٹی کی شکل میں ملنے والی جمع پونجی سے انہوں نے شاپنگ مال میں ایک دکان خریدی تھی۔ اس کے ماہانہ کرائے سے وہ اپنی گزر بسر کر رہے تھے۔ شاپنگ مال کو مسمار کئے جانے کی کارروائی کے موقع پر ہونے والے مظاہرے میں یہ بزرگ بھی شامل تھے۔ شیلنگ کے دوران وہ گر گئے۔ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ اس وقت اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اسی طرح شاپنگ مال میں تین چھوٹی دکانیں کرائے پر لے کر اپنا گزر بسر کرنے والی بیوہ رشیدہ خاتون (نام تبدیل کر دیا گیا ہے) بھی اپنے کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔ ان میں سے ایک دکان ان کی بیٹی کی تھی۔ رشیدہ خاتون کے بقول انہیں اور ان کی بچی کو ماہانہ آمدنی سے محروم کر دیا گیا ہے۔ گھر میں کوئی مرد کمانے والا بھی نہیں۔ ایسے میں اپنے بچوں کو لے کر وہ کہاں جائیں گی۔