فرنٹ مین آغا مقصود عباس نے ڈیڑھ ماہ میں 50 کروڑ وصول کرکے رحمت بابا کو دیے جو حوالہ کے ذریعے رقم کینیڈا میں مقیم مافیا باس کو بھیجتا ہے-فائل فوٹو
فرنٹ مین آغا مقصود عباس نے ڈیڑھ ماہ میں 50 کروڑ وصول کرکے رحمت بابا کو دیے جو حوالہ کے ذریعے رقم کینیڈا میں مقیم مافیا باس کو بھیجتا ہے-فائل فوٹو

یونس میمن نے بلڈرز سے سوا ارب روپے بھتہ وصولی کا ٹاسک دے رکھا تھا

امت تحقیقاتی ٹیم:
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کو پٹہ سسٹم پر لینے والے آصف زرداری کے قریبی دوست یونس میمن نے سابق ڈی جی ایس بی سی اے آغا مقصود عباس کو سوا ارب روپے بھتہ وصولی کا ٹاسک دے رکھا تھا۔ آغا مقصود عباس کو تین ماہ کے اندر یہ رقم یونس میمن کے حوالے کرنا تھی۔ آغا مقصود عباس نے ڈیڑھ ماہ کے دوران 50 کروڑ سے زائد کی رقم بلڈر مافیا سے وصول کر کے رحمت بابا کے حوالے کی۔ جو یونس میمن کو ایس بی سی اے، کے ڈی اے اور ریونیو سے بھتہ کی مد میں حاصل ہونے والی رقم حوالہ سے بھیجتا ہے۔آغا مقصود عباس کی جانب سے عاصم خان کو اپنا فرنٹ مین بنانے پر یونس میمن کا نام منظرعام پر آیا۔ اس سے قبل یونس میمن دو سال سے کے ڈی اے اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کو پٹہ سسٹم پر چلا رہا تھا۔ لیکن کوئی سرکاری افسر یونس میمن کے نام سے واقف نہیں تھا۔

’’امت‘‘ کی تحقیقات کے مطابق یونس میمن کا اصل نام یونس قدوائی ہے۔ وہ رئیل اسٹیٹ کے کام کے ساتھ ساتھ کنسٹرکشن کا کام بھی کرتا ہے۔ یونس قدوائی بلڈروں میں یونس سیٹھ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جب اس نے ایس بی سی اے کو پٹہ سسٹم پر لیا تو آغا مقصود عباس نے اپنی پیداگیر ٹیم کو اس کا نام یونس میمن بتایا۔ جس کے بعد بلڈر مافیا میں تیزی سے یونس میمن کا نام گردش کر گیا۔ یونس قدوائی عرف یونس سیٹھ عرف یونس میمن کنٹونمنٹ ایریا میں زیادہ تر کنسٹرکشن کا کام کرتا تھا اور اس کے آصف زرداری سے قریبی مراسم تھے۔

’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق بلاول چورنگی کے پاس ایک بڑے پلازہ میں یونس قدوائی سابق صدر آصف زرداری کا پارٹنر بھی ہے۔ یونس قدوائی کے بارے میں ایف آئی اے ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق جعلی اکائونٹس کیس میں شبیر بمباٹ نے سب سے پہلے یونس قدوائی عرف یونس سیٹھ کی نشاندہی کی تھی۔ معلوم ہوا ہے کہ جعلی اکائونٹس کیس میں یونس قدوائی بھی ایک اہم مہرہ تھا۔ اسے آصف زرداری کے کہنے پر کینیڈا فرار کرایا گیا تھا ۔ یونس قدوائی عرف یونس میمن نے کراچی میں زمینوں کے معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کی ہوئی تھی۔

’’امت‘‘ کی تحقیقات کے مطابق یونس میمن نے بہادر آباد کے علاقے میں بھی کنسٹرکشن کی ہے۔ جہاں دو میمن بلڈر جو ہیکل اینڈ جیکل کے نام سے مشہور تھے، اس کا کام سنبھالتے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ سرکار کی ایک اہم شخصیت علی حسن زرداری سے بھی یونس میمن کے قریبی مراسم ہیں۔ جبکہ اویس مظفر ٹپی کے عروج کے دور میں یونس میمن نے بڑے پیمانے پر ریونیو کی زمینوں پر قبضہ کیا اور پھر ان زمینوں کو اپنے نام کرایا۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو پٹہ سسٹم پر لینے کے بعد یونس قدوائی عرف یونس میمن نے منظور قادر کا کا کے مشورے سے سابق ڈی جی ایس بی سی اے آغا مقصود عباس کو ایس بی سی اے کے پٹہ سسٹم کا چارج دیا اور اسے تین ماہ میں بلڈر مافیا سے سوا ارب روپے وصول کرنے کا ٹاسک دیا۔ آغا مقصود عباس نے ٹاسک ملنے کے بعد اپنا فرنٹ میمن معطل سینئر بلڈنگ انسپکٹر عاصم خان کو چنا۔ جو کہ آغا مقصود عباس کے دور اس کی سرپرستی میں جمشید ٹائون میں غیر قانونی تعمیرا ت کا سسٹم چلاتا تھا۔

’’امت‘‘ کی تحقیقات کے مطابق آغا مقصود عباس نے ڈیفنس فیز VII کے ایک بنگلے میں عاصم خان سے ملاقات کر کے اسے اعتماد میں لیا اور بتایا کہ یونس میمن نے ایس بی سی اے کا پٹہ سسٹم لے لیا ہے اور اسے سندھ بھر میں بلڈروں سے بھتہ وصولی کی ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ آغا مقصود عباس کے حکم پر ہی معطل ایس بی آئی (سینئر بلڈنگ انسپکٹر) عاصم خان نے ٹائون کی سطح پر پٹہ سسٹم چلانے والی ٹیمیں بنائیں۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ آغا مقصود عباس معطل ایس بی آئی عاصم خان پراتنا بھروسہ کرتا تھا کہ اس نے کراچی کی ذمہ داری عاصم خان کو دے دی۔ جبکہ اندرون سندھ کی ذمہ داری عاصم خان کے بھائی کے حوالے کی۔ جو ڈیپوٹیشن پر ایس بی سی اے میں ہے اور اس کی تعیناتی اندرون سندھ میں ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ یونس قدوائی عرف یونس میمن کا پٹہ سسٹم صرف کراچی تک محدود نہیں بلکہ یہ سسٹم حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میر پور خاص، بدین، میر پور خاص میں بھی کام کر رہا ہے۔ آغا مقصود عباس نے عاصم خان کو ٹاسک دیا تھا کہ یونس میمن کے پٹہ سسٹم کو خاموشی سے چلایا جائے اور اس پٹہ سسٹم کو آغا مقصود عباس کے نام پر چلایا جائے۔ کہیں بھی یونس میمن کا نام نہ آئے۔ لیکن معطل سینئر بلڈنگ انسپکٹر نے بعض نجی محفلوں میں خود کو بڑے سیٹ اپ کا حصہ دکھانے کے لیے یونس میمن کا نام لینا شروع کیا۔ جس کے بعد ایس بی سی اے اور بلڈر مافیا میں یونس میمن کے نام کی گونج شروع ہوئی۔

’’امت‘‘ کی تحقیقات کے مطابق آغا مقصود عباس کے فرنٹ مین عاصم خان نے سب سے پہلے کراچی کے ایسے ٹائونوں کو ٹارگٹ کیا۔ جہاں بڑے پیمانے پر غیر قانونی تعمیرات ہوتی تھیں۔ ان میں نارتھ ناظم آباد ٹائون، گلبرگ ٹائون، جمشید ٹائون 1، جمشید ٹائون II، صدر ٹائون I، صدر ٹائون II، لیاقت آباد ٹائون اور گلشن اقبال ٹائون شامل ہیں۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ عاصم خان نے نارتھ ناظم آباد ٹائون کے حوالے سے غیر قانونی تعمیرات کے سسٹم کو پہلے اپنے ہاتھ میں رکھا اور بعض بلڈروں کو بھتہ کے لیے بلانا شروع کیا۔ جس پر منظور قادر کاکا دور کے ایک بلڈر نے کینیڈا میں منظور قادرکاکا سے رابطہ کیا اور نارتھ ناظم آباد کا سسٹم اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ مذکورہ بلڈر خود نظام نہیں چلا سکتا تھا۔ اسے ایس بی سی اے کے کسی افسر کے سہارے کی ضرورت تھی۔ جس پر اس نے پہلے ٹائون میں موجود ایک افسر پر ہاتھ رکھ کر اسے چلانے کی کوشش کی۔ لیکن جب وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا تو اس نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عاصم صدیقی کا ٹرانسفر نارتھ ناظم آباد ٹائون میں کرادیا۔ عاصم صدیقی طویل عرصے تک نارتھ ناظم آباد ٹائون کو کنٹرول کرتا رہا۔ جہاں اس کی مضبوط گرفت ہے۔ عاصم صدیقی سابق ڈائریکٹرعادل عمر صدیقی کا فرنٹ مین رہ چکا ہے۔ عادل عمر صدیقی نے جو ان دنوں نیب کیس بھگت رہے ہیں، سارا مال نارتھ ناظم آباد میں اپنی تعیناتی کے دور ان کمایا تھا اور اس دور میں عاصم صدیقی ان کا فرنٹ مین تھا۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ عاصم خان، عاصم صدیقی کو بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر نارتھ ناظم آباد ٹائون لایا۔ عاصم صدیق نے چارج لینے کے بعد بلڈروں کو ہراساں کرنا شروع کیا۔ جس پرایک بلڈرنے وفاقی ادارہ کے ایک افسر سے ڈی جی ایس بی سی اے شمس الدین سومرو کو عاصم صدیقی کی شکایت کی۔ جس پر شمس الدین سومرو نے عاصم صدیقی کو معطل کر دیا۔ عاصم صدیقی کو بحال کرانے کے لیے عاصم خان نے آغا مقصود عباس کو کہا۔ لیکن آغا مقصود عباس نے موجودہ ڈی جی شمس الدین سومرو کو عاصم صدیقی کو بحال کرنے کے لئے کہنے سے معذرت کر لی۔ جس کے بعد عاصم خان نے عاصم صدیقی کو معطل رہتے ہوئے نارتھ ناظم آباد کا پٹہ سسٹم چلانے کا کہا۔ذریعے کا کہنا ہے کہ نارتھ ناظم آباد کا نومولود بلڈر عاصم صدیقی پر بہت بھروسہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عاصم صدیقی نارتھ ناظم آباد ٹائون کا سارا پٹہ سسٹم چلا رہا ہے۔

’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ اس وقت نارتھ ناظم آباد کا پٹہ سسٹم جن پلاٹوں پر ایس بی سی اے کے نقشہ کے خلاف غیر قانونی تعمیرات کرا رہا ہے۔ ان میں پلاٹ نمبر A-24 بلاک A نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-78 بلاک A نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-122 بلاک A نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-231 بلاک A نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-500 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلا ٹ نمبر C-129 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-504 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر B-209 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-572 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر B-52 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-526 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-499 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-19 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-463 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-86 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-402 پلاٹ C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-3/5 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-386 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-324 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-199 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر B-106 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-6 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-2 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر C-11 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر B-13 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-111 بلاک C نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-169/2 بلاک D نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر B-175 بلاک D نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-30 بلاک D نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-308 بلاک D نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-454 بلاک D نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-272 بلاک آئی نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-249 بلاک آئی۔ پلاٹ نمبر A-99 بلاک آئی۔ پلاٹ نمبر A-90 بلاک آئی نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-499 بلاک آئی پلاٹ نمبر A-36 بلاک آئی۔ پلاٹ نمبر A-327 بلاک آئی نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر C-146 بلاک آئی نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر B-424 بلاک آئی۔ پلاٹ نمبر B-229 بلاک آئی نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر R-28 بلاک K نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر R-1 بلاک K نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر R-50 بلاک K۔ پلاٹ نمبر A-284 بلاک J نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-156 بلاک J نارتھ ناظم آباد۔ پلاٹ نمبر A-172 بلاک J۔ پلاٹ نمبر A-275 بلاک J۔ پلاٹ نمبر A-4، سیکٹر 15/A/5 بفرزون شامل ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تعمیرات کرنے والوں سے یونس میمن اور آغا مقصود عباس کے سسٹم نے معاملات طے کر لیے ہیں۔

’’امت‘‘ کے تحقیقات کے مطابق آغا مقصود عباس کے فرنٹ میمن عاصم خان نے گڈاپ ٹائون کا سسٹم اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ گڈاپ ٹائون میں سب سے زیادہ غیر قانونی تعمیرات سرجانی ٹائون اور معمار میں کی جاتی ہیں۔ سرجانی ٹائون میں عاصم خان کی ہدایت پر ماجد حسین اور اسماعیل ماجد سارے معاملات دیکھ رہیں ہے۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ ماجد حسین نامی بلڈنگ انسپکٹر گزشتہ 6 سال سے گڈاپ ٹائون میں تعینات ہے اور سرجانی ٹائون میں غیر قانونی تعمیرات کرانے کا کنگ مانا جاتا ہے۔ عاصم خان نے ماجد حسین کو پٹہ سسٹم کا حصہ بنا لیا ہے۔ جس کے بعد سرجانی ٹائون میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی تعمیرات کی جا رہی ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ سرجانی ٹائون میں بعض کثیر المنزلہ پراجیکٹ چائنا کٹنگ کی زمینوں کو جعلی طریقے سے لیز کرا کے بنائے جا رہے ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ ان بلڈرز کو عاصم خان نے ایس بی سی اے کے دفتر میں بلا کر معاملات طے کیے ہیں۔

’’امت‘‘ کو ایک بلڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کے پراجیکٹ کا گرائونڈ پلس چھ کا نقشہ ایس بی سی اے سے منظور ہے اور وہ ایس بی سی اے کے پرانے سسٹم کے تحت ڈائریکٹر کو ہر ماہ کی منتھلی ڈیڑھ لاکھ دیتا ہے۔ جب اسے عاصم خان نے بلایا تو وہ اس سے ملنے گیا۔ جہاں عاصم خان نے اسے پچیس لاکھ ایک ہفتہ میں دینے کا کہا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ اگر 25 لاکھ نہیں دیے تو اس کا پراجیکٹ مسمار کر دیا جائے گا۔ بلڈر کا کہنا تھا کہ عاصم خان کوئی دوسری بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ سسٹم تبدیل ہو گیا ہے۔ منتھلی ٹائون کو جاتی رہے گی۔ اسے یونس میمن کے سسٹم کو پیسے کر کے دینے ہیں۔ بلڈر کے مطابق اس نے دو حصوں میں عاصم خان کو ادائیگی کی ہے۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ سرجانی ٹائون میں سیکٹر 7/B۔ سیکٹر 7/C اور سیکٹر 4/D میں ہونے والی غیر قانونی تعمیرات سے بھی یونس میمن کے سسٹم کے نام پر وصولیاں کی جا رہی ہیں۔ سرجانی ٹائون میں پلاٹ نمبر SR-20 سیکٹر 4/B۔ پلاٹ نمبر SR-37 سیکٹر 7/C۔ پلاٹ نمبر SR-17/18 سیکٹر 7/A۔ پلاٹ نمبر SR-01 سیکٹر 7/B۔ پلاٹ نمبر SR-25 سیکٹر 4/D۔ پلاٹ نمبر SR-19 سیکٹر 7/C۔ پلاٹ نمبر SR-03 سیکٹر 7/C۔ پلاٹ نمبر SR-31-32 سیکٹر 7/C۔ پلاٹ نمبر SR-33 سیکٹر 7/C۔ پلاٹ نمبر SR-21 سیکٹر 7/A۔ پلاٹ نمبر SR-19-20 سیکٹر 7/C۔ پلاٹ نمبر SR-25 سیکٹر 7/B۔ پلاٹ نمبر SR-20 سیکٹر 7/A۔ پلاٹ نمبر SR-13 سیکٹر 7/C۔ پلاٹ نمبر SR-41-42 سیکٹر 7/C اور پلاٹ نمبر SR-8 سیکٹر 7/C سے عاصم خان نے پٹہ سسٹم کے نام پر بھاری رقوم وصول کر لی ہیں۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ معمار کے بلڈروں کو بھی معطل ایس بی آئی عاصم خان سے ملنے کے پیغامات مل گئے ہیں اور بلڈروں کی جانب سے عاصم خان سے رابطے شروع کر دیئے گئے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو ایس بی سی اے کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ کینیڈا میں خود ساختہ روپوش یونس قدوائی عرف یونس میمن کا نام بڑے پیمانے پر منظر عام پر آنے سے آغا مقصود عباس پریشان ہے۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ آغا مقصود عباس نے ایک نجی محفل میں اعتراف کیا ہے کہ عاصم خان نے یونس میمن کا نام ظاہر کر کے اس کی پوزیشن خراب کر دی ہے۔ واضح رہے کہ یونس قدوائی کے ڈی اے اور ریونیو میں یونس سیٹھ سے جاناجاتا تھا اوراس نے ایس بی سی اے کو پٹہ سسٹم پر لینے کے لئے یونس میمن کا کوڈ استعمال کیا۔ اہم ذریعے کا کہنا ہے کہ یونس میمن کی ہدایت پر ضلع جنوبی کا ڈائریکٹر منیر بھنبھرو کو بنایا گیا ہے۔ منیر بھنبھروکی زیادہ تر تعیناتی صدر ٹائون میں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ضلعی جنوبی کی ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ جبکہ عاصم خان نے معطل ایس بی سی اے افسر ظفر سپاری کو بھی صدر ٹائون اور جمشید ٹائون کے معاملات چلانے کے لئے چھوڑ رکھا ہے۔