ایس بی سی اے کے آگاہی نوٹس کے باوجود ادارے کے افسران اپنا حصہ وصول کر کے عوام کو لٹنے دیتے ہیں۔فائل فوٹو
 ایس بی سی اے کے آگاہی نوٹس کے باوجود ادارے کے افسران اپنا حصہ وصول کر کے عوام کو لٹنے دیتے ہیں۔فائل فوٹو

کراچی میں 100 سے زائد غیر قانونی ہائوسنگ پروجیکٹس کا انکشاف

امت تحقیقاتی ٹیم:
کراچی میں 100 سے زائد غیر قانونی ہائوسنگ منصوبوں کا انکشاف ہوا ہے۔ غیر قانونی ہائوسنگ منصوبے چلانے والے سادہ لوح افراد کو سستے پلاٹوں کی فروخت پر کھلے عام لوٹ رہے ہیں۔ غیر قانونی منصوبے اسکیمیں شہر کراچی کے داخلی اور خارجی راستوں کے اطراف کی زمینوں پر بنائے گئے ہیں۔ جہاں سے یہ قبضہ مافیا کروڑوں روپے وصول کر رہی ہے۔ اس مافیا کو جہاں بعض سرکاری اداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ تو وہیں علاقے کے وڈیرے اور جرائم پیشہ افراد بھی ان کے بڑے سرپرست ہیں۔ یہ مافیا اپنے ہی کارندوں سے جعلی مارکیٹنگ کمپنیاں بنا کر ان کے ذریعے زرعی زمینوں پر پلاٹ کاٹ کر آسان اقساط اور نقد رقم لے کر فروخت کر رہے ہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی وقتاً فوقتاً پیدا گیری کے لیے ایسے بعض رہائشی منصوبے کے خلاف آگاہی کا نوٹس اخبارات میں شائع کرتی ہے۔ جس کے بعد ایس بی سی اے افسران اپنا حصہ وصول کر کے عوام کو لٹنے دیتے ہیں۔

’’امت‘‘ کی تحقیقات کے مطابق کراچی میں عوام کو اپنی زمین کا جھانسہ دے کر لوٹنے والی قبضہ مافیا سرگرم ہے۔ یہ مافیا شہر کے مضافاتی علاقوں میں زرعی زمینوں پر غیر قانونی ہائوسنگ اسکیمیں بنا کر ان کی سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیر کر کے کھلے عام پلاٹس فروخت کر رہی ہیں۔ غیر قانونی ہائوسنگ پراجیکٹس چلانے والوں کے پاس سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی این او سی فار سیل نہیں ہے۔ لیکن یہ مافیا کھلے عام اپنی پبلسٹی کرکے پلاٹوں کی فروخت میں مصروف ہے۔ مذکورہ مافیا کی جانب سے جعلی مارکیٹنگ کمپنیاں بنا کر خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ اور جب غیر قانونی ہائوسنگ اسکیم چلانے والے ایک بڑی رقم حاصل کر لیتے ہیں تو اس مارکیٹنگ ایجنسی کو تالا لگا دیتے ہیں۔ جبکہ جعلی ہائوسنگ اسکیم میں پلاٹوں کی خریداری کرنے والوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ بلڈر سے پلاٹ خرید رہے ہیں یا پھر مارکیٹنگ ایجنسی سے پلاٹ خرید رہے ہیں۔ کسی بھی خریدار کو پلاٹ خریدتے وقت اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ جس زمین پر پلاٹ خرید رہا ہے یا بکنگ کرا رہا ہے۔ اس زمین کا اسٹیٹس کیا ہے؟ اور زمین کا مالک کون ہے؟۔ غیر قانونی ہائوسنگ پراجیکٹ چلانے والی مافیا کا ٹارگٹ بھی ایسا متوسط طبقہ ہوتا ہے۔ جو کم پیسوں اور کم ماہانہ اقساط پر اپنی زمین لینے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اور یہ مافیا انہی سادہ لوح افراد کو اپنی باتوں میں گھیر کر ان کی ساری عمر کی جمع پونجی دائو پر لگا دیتے ہیں۔

کراچی میں سب سے زیادہ غیر قانونی ہائوسنگ منصوبے، اسکیم 45 ناردرن بائی پاس کی زرعی زمینوں پر قائم ہیں۔ اسی طرح نیشنل ہائی وے کے اطراف کی زرعی زمینوں، ملیر کی زرعی زمینوں اور حب ریور روڈ کے اطراف میں جعلی گوٹھوں کی زمینوں پر ہائوسنگ پراجیکٹ بنا کر سیدھے سادے لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے۔
’’امت‘‘ کی تحقیقات کے مطابق اسکیم 45 میں اس وقت 50 سے زائد جعلی ہائوسنگ پراجیکٹ کام کر رہے ہیں۔ غیر قانونی ہائوسنگ پراجیکٹ چلانے والی مافیا کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ زمین کے ایک ٹکڑے کا سروے نمبر حاصل کرتی ہے اور پھر اس سروے نمبر کے اطراف کی زرعی زمینوں کے مالکان سے پرسنٹیج پر اپنے معاملات طے کر کے اپنی ہائوسنگ اسکیم لائونج کرتی ہے۔ جس کے بعد معمار کے عقب میں کوآپریٹو سوسائٹیوں اور گوٹھوں کی فرنٹ کی دکانوں میں اپنی مارکیٹنگ ایجنسی کا ایک بڑا سا دفتر قائم کرتے ہیں۔ جو مکمل سہولیات سے آراستہ ہوتا ہے۔

اس مافیا کا کہنا  ہے کہ جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مافیا کے لوگ مارکیٹنگ کے دفتر پر لاکھوں روپے خرچ کر کے اسے ایک معیاری مارکیٹنگ ایجنسی ظاہر کرتے ہیں۔ جس کے بعد وہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو تنخواہ پلس کمیشن پر ملازم رکھتے ہیں اور اس کے بعد اس دفتر پر اپنے غیر قانونی رہائشی پراجیکٹ کی برانڈنگ کر کے سرجانی ٹائون سے معمار آنے والے راستے سپر ہائی وے سے معمار آنے والے راستوں اور فضائیہ پراجیکٹ سے ناردرن بائی پاس کے دوسری طرف جانے والے راستوں پر تشہیری بورڈ اور وال چاکنگ کراتے ہیں۔ جس کے بعد مارکیٹنگ ایجنسی پر ایک گزیٹڈ اوپننگ کر کے رش لگا کر اس کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پراپ لوڈ کر کے عوام کو غیر قانونی ہائوسنگ اسکیم میں سرمایہ کار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ امت کی تحقیقات کے مطابق اسکیم 45 میں آئی بی بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کی جانب سے میمن ٹائون فیز I اور فیز II کی فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔

میمن ٹائون فروخت کرنے والے بلڈر نے اپنے بروشر میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کی زمین 99 سالہ لیز سروے زمین ہے اور ان کے پاس ایم ڈی اے کے لے آئوٹ پلان کی منظوری لیٹر نمبر MDA/328/039/2020 کے تحت ہوئی ہے۔ بلڈر نے ایم ڈی اے سے لے آئوٹ پلان اپروف کرایا۔ لیکن اگر اسے کوئی پراجیکٹ بنا کر اس میں زمینیں فروخت کرنی تھیں تو اسے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے این او سی فار سیل اینڈ پبلسٹی لینا چاہیے تھی۔ جس کے بعد وہ تشہیر کر کے عوام کو پلاٹ فروخت کر سکتا تھا۔ لیکن بلڈر نے ایس بی سی اے سے این او سی نہیں لیا اور کھلے عام پلاٹوں کی بکنگ لینا شروع کر دی۔

آئی بی بلڈر کی جانب سے میمن ٹائون فیز II میں 80 گز کے پلاٹ کی بکنگ 100000 روپے اور ماہانہ اقساط 10000 روپے رکھی گئی ہے۔ جبکہ پلاٹ کی قیمت 4 لاکھ روپے رکھی گئی ہے۔ اس طرح 100 گز کے پلاٹ کی بکنگ ایک لاکھ 20 ہزار روپے رکھی گئی ہے اور ماہانہ اقساط 10 ہزار 555 روپے اور پلاٹ کی قیمت 5 لاکھ روپے رکھی گئی ہے۔ اسی طرح 120 گز کے پلاٹ کی بکنگ ایک لاکھ 50 ہزار روپے اور ماہانہ اقساط 12 ہزار 500 روپے اور پلاٹ کی کل قیمت 6 لاکھ روپے رکھی گئی ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ مذکورہ بلڈر نے میمن ٹائون فیز I کے بعد میمن ٹائون فیز II کی فروخت شروع کی اور اب بلڈر میمن ٹائون فیز III لانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس حوالے سے ’’امت‘‘ نے جب ایس بی سی اے کے ڈیزائن سیکشن سے رابطہ کیا تو ذمہ دار افسر کا کہنا تھا کہ ایس بی سی اے نے میمن ٹائون کو کوئی این او سی جاری نہیں کی ہے۔ ایس بی سی اے کا کہنا تھا کہ کوئی بھی پبلک سیل ہائوسنگ پراجیکٹ ایس بی سی اے کی این او سی کے بغیر فروخت کرنا غیر قانونی ہے۔ ذمہ دار افسر کا کہنا تھا کہ ایس بی سی اے کسی بھی بلڈر کو اگر پبلک سیل پراجیکٹ فروخت کرنے کی این او سی جاری کرے گی تو اس کی این او سی عوام کی آگاہی کے لیے اپنی ویب سائٹ پر بھی ڈالے گی۔ تاکہ عوام اپنی مکمل تصدیق کے بعد اس میں سرمایہ کاری کریں۔
’’امت‘‘ کی تحقیقات کے مطابق معمار کے اطراف میں ایک درجن سے زائد ایسی مارکیٹنگ ایجنسیاں قائم ہیں۔ جو فراڈ ہائوسنگ منصوبے کے پلاٹ فروخت کر رہی ہیں۔ ان فراڈ مارکیٹنگ ایجنسیوں پر ہفتہ اور اتوار کو عوام کا رش لگایا جاتا ہے۔ ہفتہ کے دیگر دنوں میں یہ مارکیٹنگ ایجنسیاں سوشل میڈیا پر اپنی تشہیر کرتی ہیں۔ کم قیمت پر بکنگ پر پلاٹ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد مارکیٹنگ ایجنسی کی جانب سے دیئے گئے نمبروں پر کال کرتے ہیں۔ جہاں انہیں غیر قانونی ہائوسنگ ایجنسی کی مکمل تفصیلات بتانے کے بعد انہیں کہا جاتا ہے کہ آپ مارکیٹنگ ایجنسی کے دفتر ہفتہ یا اتوار کر تشریف لائیں۔ ہم آپ کو اپنی گاڑیوں میں زمین دکھانے لے کر جائیں گے۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ ان مارکیٹنگ ایجنسیوں نے منصوبہ بندی کے تحت ہفتہ اور اتوار کے روز زمین کا وزٹ کرانے کے لیے رکھے ہیں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ انہی دنوں میں آئیں اور وہ لوگوں کا رش دیکھ کر غیر قانونی ہائوسنگ اسکیم میں سرمایہ کاری کریں۔ ان جعلی مارکیٹنگ ایجنسیوں نے ہفتہ اور اتوار کے لیے رینٹ اے کار والوں سے نئے ماڈل کی گاڑیاں کرائے پر حاصل کی ہوئی ہوتی ہیں۔ جس کا ماہانہ بجٹ یہ مارکیٹنگ ایجنسیاں 5 لاکھ روپے تک رکھتی ہیں۔ جب پلاٹ خریدنے کا خواہش مند مارکیٹنگ ایجنسی کے دفتر آتا ہے تو اس کی خوب خاطر مدارت کی جاتی ہے۔ جس کے بعد اسے مارکیٹنگ ایجنسی کا نمائندہ اپنے ساتھ رینٹ اے کار کی کار میں زمین کا سروے کرانے لے جاتا ہے۔ دوران سفر وہ اپنی باتوں سے خریدار کو گھیرنے کی کوششیں کرتا ہے اور زمین وزٹ کرا کے آنے تک وہ خریدار کو سرمایہ کاری کے لیے راضی کر لیتا ہے۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ ان جعلی مارکیٹنگ ایجنسیوں نے اپنے پاس پلاٹ فروخت کرنے والے بڑے کمیشن پر رکھے ہیں اور انہیں ایک پلاٹ فروخت کرنے پر 25 سے 30 ہزار روپے کا کمیشن دیا جاتا ہے۔ مارکیٹنگ کمپنی کا ہیڈ ہر منگل کو کمیشن پر کام کرنے والے لڑکوں کی ایک کلاس لیتا ہے۔ جس میں انہیں عوام کو گھیرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ مارکیٹنگ کمپنی ہر لڑکے کے نام اور نمبر سے ایس ایم ایس اور فیس بک پر اپنا اشتہار چلواتی ہے اور پھر وہ فون کرنے والے کو گھیر کر انہیں مارکیٹنگ آفس بلاتا ہے۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق نیشنل ہائی وے پر بھی ایسی لاتعداد غیر قانونی ہائوسنگ اسکیمیں چل رہی ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ ملیر میں شارمین گارڈن کے نام سے ایک غیر قانونی ہائوسنگ اسکیم چلائی جارہی ہے۔ شارمین گارڈن کا بکنگ آفس ملیر بکرا پیڑی پر بنایا گیا ہے۔ جہاں پر 80 گز کے پلاٹ کی بکنگ 50 ہزار روپے اور ماہانہ قسط 2500 روپے کے نام پر عوام کو لوٹا جارہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ بلڈر نے شارمین فیز I میں 540 پلاٹ کی بکنگ کرنے کے بعد اب شارمین گارڈن فیز II میں 100 گز کے 750 پلاٹ بکنگ پر دینے کی تیاریاں کر لی ہیں اور جلد ہی شارمین گارڈن فیز II کی بکنگ شروع کر دی جائے گی۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے 2019ء کے آخر میں اخبارات میں اشتہار دے کر ایسی 26 فراڈ ہائوسنگ اسکیموں کی نشاندہی کی تھی۔ جن میں سوہیرا ہومز، علی ٹائون، سی پیک سٹی کراچی، الرحیم رضا سٹی، شیراز ٹائون، القائم سٹی، الصفا گارڈن، انابیہ انکلیو، گریم ہائوسنگ اسکیم، گلشن سمیر، عثمانی ٹائون، مکہ سٹی، مدینہ سٹی، آئیڈیل سٹی، بھوپال ٹائون، الخطیب سٹی، راجی سٹی، سائم سٹی، انارہ سٹی، گلشن نور، سدرہ سٹی، گلستان فیصل، ماریہ سٹی، پروکس سٹی، سحر کاٹیجز اور اجوا سٹی شامل تھے۔ ایس بی سی اے نے واضح کیا تھا کہ ان کی جانب سے ان رہائشی منصوبوں کو کسی بھی قسم کی کوئی این او سی جاری نہیں کی گئی ہے۔ لہٰذا عوام ان غیر قانونی رہائشی پراجیکٹس میں سرمایہ کاری نہ کریں۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ ایس بی سی اے کی جانب سے مذکورہ پبلک نوٹس کے بعد غیر قانونی رہائشی اسکیمیں چلانے والوں نے ایس بی سی اے کے بعض افسران سے رابطے کیے اور ان غیر قانونی ہائوسنگ پراجیکٹس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کرنے پر انہیں بھاری رقوم دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام غیر قانونی ہائوسنگ اسکیموں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ غیر قانونی ہائوسنگ اسکیمیں چلانے والی مافیا کو ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (MDA) کے بعض افسران کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ یہ افسران غیر قانونی ہائوسنگ پراجیکٹ مافیا کو جعلی لے آئوٹ پلان بنا کر دیتے ہیں۔ جس کے عوض لاکھوں روپے کی رشوت وصول کی جاتی ہے۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق 2021ء میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے مزید 22 ہائوسنگ پراجیکٹس کو غیر قانونی قرار دیا۔ جن میں صدف ڈریم اپارٹمنٹ ایم کامل بلڈر، احسن سٹی، گلشن بلال دیہہ بند مراد، غریب آباد گوٹھ، گوٹھ حضرت آباد، انیس گوٹھ، الصفا گارڈن دیہہ بند مراد، سلمان ٹائون نیشنل ہائی وے، ایرج ریذیڈنشیا، عبداللہ مراد ڈریم سٹی گڈاپ ٹائون، عثمانی ٹائون سپر ہائی وے، علی حسن بروہی ٹائون دیہہ حب، حاجی حاکم علی زرداری ٹائون دیہہ ہلکانی، ملیحہ ٹاور سرجانی ٹائون، حاجی جاڑو گرینڈ ٹائون دیہہ مٹھان، گلستان فاطمہ دیہہ گنڈپاس، ہمدرد سٹی، عریشہ سٹی، پاک چائنا ٹائون ناردرن بائی پاس، صحت سٹی دیہہ ناگن، مراد بروہی گوٹھ دیہہ بند مراد شامل ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ ان غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیز میں اب بھی کھلے عام پلاٹوں کی فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔