وفاقی حکومت کی جانب سے ایک ہزار سی سی تک گاڑیوں پر ٹیکس کی چھوٹ کا اعلان کردیا گیا ۔ حکومت نے اس سے قبل بجٹ میں 800سی سی تک کی گاڑیوں پر ٹیکس کی رعایت کی تجویز پیش کی تھی ۔
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے دلیری کےساتھ سخت فیصلے کیے،وزیراعظم نے ہاوسنگ سیکٹرمیں اضافے کا بڑافیصلہ کیا، حکومت سنبھالی تو سب سے بڑا چیلنج کرنٹ اکائونٹ خسارہ تھا، اس صورتحال میں انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ( آئی ایم ایف) کے پاس جانے کے سوا کوئی حل نہیں تھا،آئی ایم ایف کے نئے ٹیکس لگانے کے مطالبے کی مخالفت کی اورمستردکیا، ماضی میں جوگروتھ دکھائی گئی وہ قرض لےکرہوئی۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران کے دوران کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے 800سی سی تک کی گاڑیوں پر ٹیکس چھوٹ کی تجویز دی گئی تھی مگر اپوزیشن اور بزنس کمیونٹی کی جانب سے دی جانے والی تجاویز پر ہم نے غور کیا اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک ہزار سی سی تک گاڑیوں پر ٹیکس میں رعایت دی جائے گی۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ بجٹ میں 12 ودہولڈنگ ٹیکس ختم کررہے ہیں، میڈیکل اور پراوٹنڈ فنڈ پر لگائے ٹیکس کو واپس لے لیا ہے، دودھ، انڈے اور آٹے سمیت کھانے پینے کی کئی چیزوں پر ٹیکس ختم کردیے ہیں، فیصلہ کیا گیا کہ صنعتوں کو فروغ دینا ہے، بہت سے صنعتی شعبوں کو ٹیکس چھوٹ دی گئی، صنعتی شعبے کو 45 ارب کی مراعات دے رہے ہیں، اسمال اور میڈیم انٹرپرائزز کو 100ارب کے قرض دیں گے، پولٹری پر ٹیکس 10 فیصد پر لارہے ہیں، احساس پروگرام کے لیے 260 ارب روپے رکھے گئے ہیں، توانائی کے شعبے میں کیپسٹی پیمنٹ 900 ارب روپے ہے، عمران خان نے بجلی کی قیمت بڑھانے سے منع کیا ہے۔ وزیراعظم ملک میں ای ووٹنگ سسٹم متعارف کروانا چاہتے ہیں، ای ووٹنگ سسٹم کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جون 2022 تک 10 کروڑ افراد کو کورونا ویکسین لگانے کا ہدف ہے۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ اس بار غریب کو مدنظر رکھا گیا ہے، غریبوں کو کاروبار کیلئے پانچ لاکھ روپے کا بلاسود قرض دیا جائے گا، کاروبار کے لئے بھی قرضے دیئے جائیں گے، صحت کارڈ بھی شہریوں کو دیے جائیں گے، کسان کی مصنوعات پر ملک بھر میں ایگری مالز بنانے جارہے ہیں، زرعی شعبے کیلئے 25 ارب اضافی رکھے ہیں، اس بار محصولات کا ہدف 5800 ارب روپے رکھا گیا ہے، آٹو سیکٹر کے لیے بھی پالیسی تیار کی گئی ہے، آئی ٹی کے شعبے پر بھی توجہ دے رہے ہیں، اب ہم نے اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہے، چینی سرمایہ کاروں کو مزید شعبوں میں لے کر آئیں گے، چین کے علاوہ بھی دیگر ممالک سے سرمایہ کاروں کو بلائیں گے، اس وقت سی پیک کے تمام مسائل حل کر رہے ہیں۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ 700 ارب کے مزید نئے ٹیکس لگائیں، اور انکم ٹیکس ڈیڑھ سو ارب مزید بڑھانے کا کہا، میں آئی ایم ایف کی اس بات کے سامنے کھڑا ہوگیا، ہماری کوشش ہے ٹیکس لگانے کی بجائے ٹیکس دہندگان کو بڑھایا جائے، ٹیکس نادہندگان سے ٹیکس جمع کرنے کیلئے اقدامات کررہے ہیں، ڈیڑھ کروڑ ٹیکس نادہندگان کا ڈیٹا آگیا ہے، ایف بی آر کی حراسگی سب کا مسئلہ ہے، ٹیکس دہندگان کو کچھ نہیں کہا جائے گا، ایف بی آر کو شہریوں کو ہراساں نہیں کرنے دیں گے، اس بار معاملہ میں ایف بی آر کو نہیں بھیجیں گے، ٹیکس نادہندگان سے تھرڈ پارٹی کے ذریعے بات کریں گے، اگر پھر بھی وہ بات نہیں مانتے تو پھر دیکھیں گے، اگر کوئی بہت بڑا ڈیفالٹر ہے اور وہ بات نہیں مانتا تو ہمارے پاس کوئی اتھارٹی ہونی چاہیے، دنیا بھر میں اس معاملے پر گرفتاریاں ہوتی ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف ) کے پاس جانا مجبوری تھی، آئی ایم ایف کی جانب سے سخت شرائط رکھی گئی تھیں اوربجلی کی قیمت میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا تھا مگرعمرا ن خان نے آئی ایم ایف کو کہہ دیا کہ بجلی کی قیمت نہیں بڑھائیں گے۔ وزیر اعظم کا ماننا ہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافے کا اثر ملک کے غریب طبقے پر پڑے گا۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت نے پی ایس ڈی پی میں 40فیصد اضافہ کیا ہے،کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر پیسہ خرچ ہوگا،حکومتی اقدامات سے معاشی ترقی ہوگی،اگلے سال ہمار ا سرکلر ڈیٹ مزید کم ہوجائے گا۔
وزیر خزانہ نے بتا یا کہ آئندہ د و سال میں آئی ٹی صنعت آٹھ ارب ڈالرکی برآمدات کرے گی، چین کچھ صنعتیں ویت نام لے جارہا تھا مگر ہم نے چین کو منالیا ہے وہ صنعتیں یہاں لائیں گے،ود ہولڈنگ ٹیکس کے طریقہ کار کو ختم کررہے ہیں۔