ملزم کو راولپنڈی سے گرفتار کرکے لاہور منتقل کردیا گیا۔فائل فوٹو
ملزم کو راولپنڈی سے گرفتار کرکے لاہور منتقل کردیا گیا۔فائل فوٹو

’’لاہور دھماکے کا ماسٹر مائنڈ دبئی سے بھیجا گیا تھا‘‘

نجم الحسن عارف:
لاہور میں جماعت الدعوہ کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید کی رہائش گاہ کے قریب بم دھماکہ کے ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری کے بعد مزید اہم گرفتاریوں کا جلد امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق ماضی میں بھی بھارت کی جانب سے ایسی کوششیں کی جاتی رہیں۔ لیکن ہر بار بھارتی ’’را‘‘ کو ناکام بنا دیا گیا۔

ذرائع کے مطابق جوہر ٹائون سے متصل آباد بورڈ آف ریونیو سوسائٹی میں بدھ کے روز ہونے والے خوفناک دھماکے میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے شواہد ہاتھ آچکے ہیں۔ ’’را‘‘ نے اس واقعہ کے ماسٹر مائنڈ کو دبئی سے پہلے کراچی روانہ کیا جہاں سے وہ پنجاب آگیا اورگوجرانوالہ میں بھی مقیم رہا۔ گزشتہ روز دھماکے کے بعد وہ لاہور سے کراچی روانہ ہونے کی تیاری کر رہا تھا کہ انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر کارروائی کرتے ہوئے اسے لاہور ایئر پورٹ سے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب گرفتاری کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کرکے تفتیش شروع کردی گئی ہے۔

سیکیورٹی ذرائع نے اس کا نام پیٹر پال ڈیوڈ بتایا ہے جو یقینا اس کے پاسپورٹ میں بھی درج ہے۔ تاہم ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ اصل نام اور شناخت ہے یا کلبھوشن یادیو نامی بھارتی دہشت گرد فوجی افسر کی طرح اس کا نام بھی جعلی ہے۔ جیسا کہ کلبھوشن یادیو کا نام حسین مبارک پٹیل پاسپورٹ پر ظاہر کیا گیا تھا۔ دوسری جانب ذرائع کے مطابق پروفیسر حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب بم دھماکے کیلیے جو گاڑی استعمال کی گئی۔ وہ بھی گوجرانوالہ ڈویژن سے تعلق رکھتی تھی اور گزشتہ روز ہی بابو صابو انٹرچینج کے راستے موٹروے سے لاہور میں داخل ہوئی تھی۔ سیکیورٹی حکام نے اس گاڑی کا تمام ریکارڈ گزشتہ روز ہی حاصل کر لیا تھا۔ جبکہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے اندر اس کا مالک کو بھی حافظ آباد سے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق سیکورٹی اور انٹیلی جنس سے متعلق اداروں کے لیے یہ سوال اہم ہے کہ ماسٹر مائنڈ نے لاہور میں دہشت گردی کے لیے گوجرانوالہ میں رہائش کیوں رکھی اور اس کے گوجرانوالہ یا اس کی آس پاس کی بستیوں میں کہاں کہاں رسائی ہوئی۔ یا یہ کن لوگوں کے ساتھ رابطوں میں رہا۔ نیز کیا گاڑی کا بھی گوجرانوالہ ڈویژن سے تعلق ہونا اتفاق ہے یا اس دہشت گرد نیٹ ورک نے گوجرانوالہ میں کسی خاص وجہ سے اپنی توجہ مبذول کر رکھی ہے۔

’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق بم دھماکے میں استعمال کی جانے والی گاڑی کے مالک کی حافظ آباد سے گرفتاری کے علاوہ بابو صابو انٹرچینج پر گاڑی کو چیک کرنے کے باوجود شہر میں داخل ہونے کی اجازت دینے والے پولیس اہلکار کو بھی سیکیورٹی اداروں نے شامل تفتیش کرلیا۔ واضح رہے دھماکے میں استعمال کی جانے والی کالے رنگ کی گاڑی موٹر وے سے لاہور میں بدھ کی صبح نو بج کر چالیس منٹ پر داخل ہوئی۔ یہ گاڑی بورڈ آف ریونیو سوسائٹی میں حافظ سعید کی رہائش گاہ سے متصل ایک گلی میں چیک پوسٹ کے پاس دس بج کر اڑتیس منٹ پر پہنچی اور گیارہ بجے کے چند منٹ بعد دھماکہ ہو گیا۔

ذرائع کے مطابق بابو صابو انٹرچینج پر پولیس اہلکار نے گاڑی کے کاغذات چیک کیے لیکن گاڑی کی تلاشی لینے کے باوجود یا تلاشی لیے بغیر ہی اسے جانے دیا جائے۔ اسی لیے اسے بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے۔ خیال رہے کالی گاڑی پر نیلے کپڑوں میں ملبوس شخص جس کا قد چھ فٹ کے لگ بھگ ہے، محض اپنی شناخت چھپانے کے لیے اس کے باوجود ماسک لگا رکھا تھا کہ وہ گاڑی میں اکیلا ہی تھا۔ نیز اس نے چہرے کی شناخت کو مزید چھپانے کے لیے سر پر’’پی کیپ‘‘ بھی پہن رکھی تھی۔ یہ دونوں چیزیں بابو صابو انٹرچینج پر بھی اس کے چہرے کو کافی حد تک چھائے رہیں۔ لیکن پولیس اہلکاروں نے اس کی شناخت کرنے کے لیے اس کا ماسک اتروایا نہ اس کو ٹوپی ہٹانے کے لیے کہا۔

ذرائع کے مطابق لاہور سے باہر جانے والے ان مسافروں کی تصاویر اور ویڈیو فلم اسی پوائنٹ پر بطور خاص بنائی جاتی ہے، جو پبلک ٹرانسپورٹ پر لاہور سے باہر کسی دوسرے شہر جارہے ہوتے ہیں۔ لیکن حیران کن بات ہے کہ دہشت گردی کے خطرات کے باوجود شہر میں داخل ہونے والوں کی ایسی کوئی ویڈیو انٹری پوائنٹس پر نہیں بنائی جاتی۔ اس میں خصوصاً اچھی اور بڑی گاڑیوں کے مالکان یا سوار بطور خاص پولیس کی رعایت کے مستحق سمجھے جاتے ہیں۔ اسی کوتاہی کے باعث دہشت گرد پورے اطمینان کے ساتھ لاہور میں داخل ہوا اور ڈیڑھ گھنٹے کے اندر اندر دھماکہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

ذرائع کے مطابق ماسٹر مائنڈ پیٹر پال کی گرفتاری کے بعد دہشت گردی میں ملوث تمام عناصر کی جلد گرفتاری کا امکان روشن ہو گیا ہے۔ تمام متعلقہ سیکورٹی ادارے بدھ کے روز سے ہی لاہور سمیت مختلف جگہوں پر چھاپے مار رہے ہیں اور کئی مشکوک افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔ تاہم یہ سوال اہم ہے کہ گاڑی میں پندرہ سے بیس کلو گرام تک کا بارود دہشت گرد نے کہاں سے لیا۔ وہ یہ بارود بیرون شہر سے لے کر شہر میں داخل ہوا یا لاہور میں داخل ہونے کے بعد کسی سہولت کار سے لیا۔ چونکہ یہ واضح ہے کہ لاہور میں داخل ہونے کے تقریباً ایک گھنٹے کے بعد وہ جوہر ٹائون دھماکے والی جگہ پر پنہچا۔ لازماً اس نے کسی جگہ رکنے کا یا کسی سے ملنے کا اہتمام کیا۔ بصورت دیگر یہ فاصلہ ایک گھنٹے سے کم وقت کا فاصلہ ہے۔ تفتیش سے متعلق ادارے، دہشت گرد اور دہشت گردی میں استعمال ہونے والی گاڑی کے حوالے سے تمام تر سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لے رہے ہیں۔ تفتیشی اداروں نے جائے دھماکہ سے ملنے والے تمام تر شواہد بھی محفوظ کر لیے ہیں۔ دھماکے سے متاثرہ مکانات، گاڑیوں وغیرہ سے متعلق اجزا بھی کیمیائی تجزیے کے لیے اکٹھے کر لیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق 24 گھنٹے سے پہلے تفتیشی ادارے اور ذمہ دار اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ دھماکہ ’’را‘‘ نے کرایا ہے۔ جو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے مسلسل متحرک ہے۔

دوسری جانب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جماعت الدعوہ کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید جنہیں جیل میں کئی ماہ گزر چکے ہیں اور کئی مقدمات میں انہیں سزائے قید ہو چکی ہے، کی رہائش گاہ چونکہ ایک عرصے سے بھارتی ’’را‘‘ کے نشانے پر رہی ہے، تو کیا وجہ ہے کہ اس علاقے میں انٹیلی جنس نیٹ ورکس اپنے کام کو بہتر انداز سے نہ کر سکے۔

’’امت‘‘ کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے الرٹس تو گاہے گاہے آتے رہتے ہیں۔ غالباً ایسے ہی کسی الرٹ کے سبب اس علاقے کی سیکیورٹی چند دن پہلے نسبتاً بہتر تھی۔ مگر الرٹ کے حوالے سے بتایا گیا کہ ممکنہ ٹائم جیسے ہی ختم ہوتا ہے۔ سیکورٹی اہلکار نرم اور ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ یہ دھماکہ بھی اسی وجہ سے ممکن ہوا۔ اس ذریعے نے کہا کہ سیف سٹی پراجیکٹ کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ شہر میں داخل ہونے والے ہر فرد کی فوٹیج انٹری پوائنٹ سے براہ راست کنٹرول روم کو منتقل ہو اور وہاں مشکوک افراد کے ڈیٹا کے ساتھ اسے چیک کر لیا جائے۔ تاکہ اسی انٹری پوانٹ یا اگلے ناکے تک پہنچنے سے پہلے اس کی شناخت واضح ہو چکی ہو۔

ادھر صوبائی حکومت نے دھماکے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین اور زخمیوں کے لیے زر تلافی کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اسپتال میں جاکر زخمیوں کی عیادت کی اور پولیس کے ساتھ ساتھ اسپتال کے طبی عملے کی جانفشانی کی تعریف کی۔ ادھر جوہر ٹائون کے علاقے میں قائم چیک پوسٹوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے اور سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد بڑھادی گئی ہے۔ متعلقہ حکام نے دھماکے کے بعد ابتدائی رپورٹ اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کو ارسال کردی ہے۔