وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی فورسزکے انخلا کے بعد طالبان پر ہمارا اثرو رسوخ ختم ہو گیا ہے، اگر طالبان نے طاقت کے زور پرافغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو ہم اپنا بارڈر سیل کر دیں گے ۔
وزیر اعظم عمران خان نےنیو یارک ٹائمزکو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی بہت کوشش کی مگرکوئی نتیجہ نہیں نکلا، ریاستوں کے تعلقات ہمیشہ مشترکہ مفادات پر مبنی ہوتے ہیں ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ ہمیشہ قریبی تعلقات رہے، ہم امریکا کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں,، نائن الیون کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کا حصہ بنا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان بائیس کروڑ آبادی والا ملک ہے ، بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات معمول پرآنے سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا، امید ہے مستقبل میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری آئے گی ۔
انھوں نے کہا ہم امریکا سے مہذب اور برابری کی سطح کے تعلقات کے خواہاں ہیں، ایسے تعلقات جو 2 ملکوں کے درمیان ہونے چاہئیں، ایسے تعلقات جیسے امریکا کے برطانیہ اور بھارت کے ساتھ ہیں۔
انھوں نے کہا امریکا سے تجارتی تعلقات میں بھی بہتری چاہتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعلقات متاثر ہوئے، امریکا سمجھتا تھا کہ امداد کے بدلے پاکستان اس کے ایما پر کام کرے گا، لیکن امریکا کی جنگ میں پاکستان کو بھاری قیمت چکانی پڑی، 70 ہزار جانیں گئیں، 150 ارب ڈالر کا معیشت کو نقصان ہوا، پاکستان بھر میں دھماکے اور خود کش حملے ہوئے۔
وزیر اعظم نے کہا بد قسمتی سے پاکستان میں حکومتوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر امریکا کی مدد کی، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد پیدا ہوا، پاک امریکا تعلقات میں عوام نے بھاری قیمت چکائی، دوسری طرف امریکا نے ہمیشہ پاکستان کا تعاون ناکافی سمجھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ہم امریکا سے تعلقات اعتماد اور مشترکہ مقاصد پر مبنی چاہتے ہیں، افغانستان سے متعلق پاکستان اور امریکا ایک سوچ رکھتے ہیں، تاہم افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد دونوں ممالک کے عسکری تعلقات پر کچھ کہہ نہیں سکتا، ہم چاہتے ہیں انخلا سے قبل افغانستان میں سیاسی مفاہمت کا عمل پورا ہو، امریکی فوج کی واپسی کے اعلان کو طالبان نے اپنی جیت تصو کیا، اور پاکستان کا طالبان پراثرورسوخ کم کرنے کا بھی سبب بنا۔
عمران خان نے کہا امریکا، طالبان کے مذاکرات کے لیے پاکستان نے اثرورسوخ استعمال کیا، طالبان امریکا سے بات چیت کے لیے تیار نہیں تھے، پاکستان نے طالبان کو مذاکرات پر راضی کیا، اور وہ افغان حکومت سے بات پر راضی ہوئے۔
وزیر اعظم نے کہا ہم نے طالبان سے کہہ دیا ہے کہ طاقت کا استعمال طویل خانہ جنگی پر دھکیل دے گا، افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی تو پاکستان بھی لپیٹ میں آئے گا، اور افغانستان سے زیادہ پاکستان میں پشتون آباد ہیں، خانہ جنگی ہوئی تو مزید افغان مہاجرین پاکستان کا رخ کریں گے، جب کہ پاکستان پہلے ہی 30 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا پاکستان افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیا کے ملکوں سے جڑے گا، پاکستان وسطی ایشیا کے ملکوں سے تجارت چاہتا ہے، کئی ملکوں سے تجارتی معاہدے بھی ہو چکے ہیں، لیکن افغانستان میں امن ہی سے یہ ممکن ہوگا، خانہ جنگی کی صورت میں یہ مواقع ضائع ہوں گے۔