بحرین میں ’’را‘‘کا مضبوط نیٹ ورک تین برس سے قائم

آصف سعود:
بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے تین برس قبل بحرین میں اپنا مضبوط نیٹ ورک قائم کیا۔ بھارتی وزیراعظم کے دورہ بحرین میں مودی نے بحرین حکام کو اعتماد میں لے لیا تھا۔ جوہر ٹائون لاہور میں سربراہ جماعت الدعوۃ حافظ سعید احمد کی رہائش گاہ کے قریب کار بم دھماکہ بھی بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے کرایا۔ جس کے لیے کراچی کے علاقے محمود آباد سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد پیٹرپال ڈیوڈ (PETER PAUL DAVID) کو استعمال کیا گیا۔ بحرین میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے اپنا مضبوط نیٹ ورک قائم کرکے پاکستانی نوجوانوں کی بھرتیاں شروع کر رکھی ہیں۔ جنہیں بحرین میں اچھی ملازمتیں دے کر دہشت گردی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

جوہر ٹائون لاہور میں ہونے والے بم دھماکے کی ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ بم دھماکہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیا گیا تھا اور دھماکے کا اصل ہدف جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی رہائش گاہ تھی۔ ’’امت‘‘ کو سیکورٹی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق جوہر ٹائون بم دھماکے کے بعد لاہور سی ٹی ڈی نے جائے وقوعہ کے اطراف لگے خفیہ کیمروں کی جانچ کی۔ جس میں دھماکہ میں استعمال ہونے والی کار کو اطراف کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے مانیٹر کیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ جوہر ٹائون کے اطراف کے 21 خفیہ کیمروں میں مذکورہ کار LEB-9928 نظر آئی۔ جس میں سوار شخص کے چہرے کو فارنسک کے ٹیکنیکل اسٹاف کے ذریعے شناخت کے قابل بنایا گیا۔ فوری طور پر اس تصویر کو نادرا کے ڈیٹا بیس سے چیک کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ تصویر91 فیصد کراچی کے علاقے محمود آباد کے رہائشی پیٹرپال ڈیوڈ سے مشابہت رکھتی ہے جس پراس کی تصویر ہوائی اڈوں، ریلوے اسٹیشنز اور بس اڈوں کو فراہم کی گئی۔

اسی دوران لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے سی ٹی ڈی کو پتہ چلا کہ پیٹرپال ڈیوڈ نامی کراچی کا نوجوان ایئر بلیو کی پرواز نمبر PA-407 سے کراچی کے لیے سفر کر رہا ہے اور اس نے اپنا بورڈنگ پاس بھی بنالیا ہے۔ اس پر سی ٹی ڈی کی ایک ٹیم فوری طور پر لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی اور وہاں سے پیٹرپال ڈیوڈ کو حراست میں لیا۔

سی ٹی ڈی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جس وقت پیٹرپال ڈیوڈ کو حراست میں لیا گیا۔ اس کے پاس صرف اس کا شناختی کارڈ، دو موبائل فون اور چند روپے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکورٹی اداروں نے فوری طور پر پیٹرپال ڈیوڈ کو نامعلوم مقام پر منتقل کرکے اس سے تفتیش شروع کر دی۔

ابتدائی طور پر ملزم نے بتایا کہ وہ لاہور گھومنے آیا تھا۔ بعد ازاں اس نے اپنا بیان تبدیل کیا کہ وہ لاہور میں اپنے عزیز کی تیمارداری کے لئے آیا تھا۔ سیکیورٹی اداروں نے جب اس سے مزید سوالات کئے تو وہ ان کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ جب اس کے ساتھ سختی سے تفتیش کی گئی تو ملزم نے بتایا کہ وہ بحرین میں پہلے ہوٹل پرکام کرتا تھا اور بعد ازاں اسے بحرین میں ایک انویسٹر ملا اور اس نے مذکورہ انویسٹر کے ساتھ مل کر بحرین میں اسکریپ کا کاروبار شروع کیا۔ جس کے بعد اس نے اپنی اہلیہ اور بیٹے کو بھی بحرین بلالیا تھا۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بحرین میں پیٹرپال ڈیوڈ ہندو انویسٹر کے ساتھ کام کرتا تھا۔ جس کا نام سیکورٹی ادارے ابھی خفیہ رکھ رہے ہیں۔ ملزم نے بتایا کہ اس نے 2010ء میں اپنی فیملی کو بحرین سے کراچی منتقل کیا۔ جس کے بعد وہ ڈیڑھ ماہ قبل بحرین سے کراچی آیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بحرین سے کراچی آنے کے بعد اس نے تین مرتبہ لاہورکا سفر کیا اور اس دوران وہ 27 دن تک لاہور میں رہا۔ ملزم نے لاہور میں جن 9 افراد کے نام بتائے ان میں سے 6 افراد کو سیکیورٹی اداروں نے حراست میں لے لیا ہے اور ان سے الگ الگ مقامات پر تفتیش کی جارہی ہے۔ جبکہ سیکیورٹی اداروں نے کراچی میں بھی پیٹرپال ڈیوڈ کی محمود آباد نمبر 5 گلی نمبر 21-D پر چھاپہ مارکراس کے گھر سے اہم ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ جب سیکیورٹی اداروں نے چھاپہ مارا تو محمود آباد میں پیٹرپال ڈیوڈ کے گھر پر تالا لگا تھا۔ جس پر علاقہ مکینوں سے معلومات حاصل کرکے اس کی اہلیہ اور بیٹے سے پوچھ گچھ کی گئی ۔ ایسی اطلاعات ہیںکہ کراچی میں سیکیورٹی اداروں نے پیٹرپال ڈیوڈ کی اہلیہ، بیٹے اور 4 رشتہ داروں کو حراست میں لے لیا ہے۔ تاہم ذمے دار ذرائع نے اس کی تصدیق نہیں کی۔

’’امت‘‘ کو سیکیورٹی اداروں نے بتایا کہ پیٹرپال ڈیوڈ 25 سال سے بحرین میں مقیم تھا۔ اس کے شناختی کارڈ پر اس کی تاریخ پیدائش 1964ء درج ہے۔ ملزم نے 22 اپریل 2029ء تک اپنے شناختی کارڈ کی تجدید کرا رکھی ہے۔ اس کے شناختی کارڈ پر عارضی اور مستقل پتہ محمود آباد کا درج ہے۔ پیٹرپال ڈیوڈ نے کراچی میں ڈرائیونگ لائسنس کلفٹن برانچ سے بنوایا اور وہ لائسنس بنوانے کے لیے 4 مرتبہ ڈرائیونگ لائسنس برانچ گیا۔ پہلی مرتبہ اس نے بک والی لائسنس کو کارڈ میں تبدیل کرایا۔ اس نے پہلا ڈرائیونگ لائسنس موٹر سائیکل کا بنوایا تھا۔ جبکہ 1984ء میں بنائے گئے اس کے ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید 17 مئی 2026ء تک کی تھی۔

معلوم ہوا ہے کہ پیٹرپال ڈیوڈ کے نام پر دو موبائل فون سمیں رجسٹرڈ ہیں۔ جن میں ایک 2014ء اور دوسری 2015ء کی 31 مئی کو کھلوائی گئی تھیں۔ ’’امت‘‘ کو لاہور سی ٹی ڈی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جوہر ٹائون لاہور کے دھماکے میں استعمال ہونے والی کار 2010ء میں گوجرانوالہ کے تھانہ کینٹ کی حدود سے چھینی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ جوہر ٹائون میں ہونے والا دھماکہ ریموٹ کنٹرول سے کیا گیا تھا۔ جس کے اہم شواہد مل گئے ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حراست میں لیا جانے والا کراچی کا پیٹر پال ڈیوڈ ہی ساری کارروائی کا ماسٹر مائنڈ ہے۔

’’امت‘‘ کو ذمہ دار سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ اس وقت بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ بحرین میں اپنے مضبوط قدم جما چکی ہے۔ تین سے ساڑھے تین سال قبل بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے بحرین میں اپنا سیٹ اپ مضبوط کیا۔ اس سے قبل دبئی میں ’’را‘‘ کا مضبوط نیٹ ورک تھا۔ لیکن یہ نیٹ ورک بے نقاب ہونے کے بعد ’’را‘‘ نے بحرین کو اپنا ٹارگٹ بنایا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگست 2019ء میں جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بحرین کا دورہ کیا تو اس کے بعد بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ بحرین میں کھل کر کام کرنے لگی۔ اس دوران بحرین حکومت بھی غیر محسوس طریقے سے ان کی مدد کرنے لگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بحرین میں بڑی تعداد میں انڈین کمیونٹی مقیم ہے۔ جن میں 70 فیصد کمیونٹی کنسٹرکشن کے کام سے وابستہ ہے۔ جبکہ دیگر انڈین نائی، کارپینٹر اور دیگر کاموں سے وابستہ ہیں۔ بحرین میں انڈین خواتین زیادہ تر پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھاتی ہیں۔ جبکہ بحرین میں انڈیا کی 32 رجسٹرڈ انڈین کلچرل آرگنائزیشن ہیں۔ اور 68 غیر رجسٹرڈ نائٹ کلب ہیں۔ بحرین میں شری ناتھ جی کا مندر، 5 چرچ اور 6 گردوارے ہیں۔

معلوم ہوا ہے کہ بحرین میں بڑی تعداد میں پاکستانی انڈین کے ملازم ہیں۔ جس کا فائدہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اٹھاکر انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انڈین پاکستانیوں کو پُرکشش تنخواہوں پر ملازم رکھ کر انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ ذریعے کاکہنا ہے کہ جب D کمپنی کو انڈیا نے عالمی دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں ڈلوایا تو دبئی سے D کمپنی کا کنٹرول ختم ہوگیا۔ جس کے بعد بھارتی خفیہ ایجنسی نے دبئی میں D کمپنی کے بعض افراد کو ٹارگٹ کیا۔

تحقیقاتی ادارے کا دعویٰ ہے کہ تین ماہ قبل کراچی میں D کمپنی کے ایک نوجوان کو پٹیل پاڑہ میں ٹارگٹ کرکے ہلاک کیا گیا۔ مذکورہ کام بھی بحرین سے آپریٹ کرنے کے شواہد ملے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دبئی کے بعد اب بحرین بھی بھارتی خفیہ ایجنسی کا مرکز بن گیا ہے۔ جہاں ’’را‘‘ آسانی سے پاکستانیوں کو اپنا ایجنٹ بنارہی ہے۔ سانحہ جوہر ٹائون میں بحرین سے آئے ہوئے پاکستانی کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد کے بعد تحقیقاتی اداروں نے ملک بھر سے بحرین جانے والوں کے کوائف جمع کرنے کی حکمت عملی بنالی ہے۔