یو این ایچ سی آر اور پاکستان کا متعلقہ کمشنریٹ پچھلے کئی ماہ سے باہم رابطے میں ہے-فائل فوٹو
یو این ایچ سی آر اور پاکستان کا متعلقہ کمشنریٹ پچھلے کئی ماہ سے باہم رابطے میں ہے-فائل فوٹو

امریکی انخلا کے بعد پاکستان پر نئی مصیبت منڈلانے لگی

نجم الحسن عارف:
امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے فوری بعد پانچ لاکھ افغان مہاجرین پاکستان آسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں عالمی سطح پر مہاجرین کے لیے کام کرنے والے ادارے یواین ایچ سی آراور پاکستان کا مہاجرین سے متعلق کمشنریٹ پچھلے کئی ماہ سے باہم رابطے میں ہے۔ جبکہ افغان مہاجرین کی پہلی متوقع کھیپ کے لیے ہری پورکے نزدیک خیمہ بستی قائم کرنے کے لیے زمینی سروے بھی کرلیا گیا ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق پاکستان کے متعلقہ کمشنریٹ کے مطابق 5 لاکھ کے بجائے ان کی توقع 3 لاکھ مہاجرین کی فوری آمد کی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے تمام تر بیانات کے باوجود اس امر کا امکان غالب ہے کہ پاکستان، امریکہ کو افغانستان کے لیے فضائی رسائی کی سہولت دیئے رکھے گا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ 20 سال قبل پاکستان کی سرزمین کو امریکہ کے استعمال کے لیے اڈے دینے اور فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت کے حوالے سے دو معاہدے ہوئے تھے۔ آج بھی امریکہ اور اس کی افواج ان معاہدوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ستمبر میں یہ معاہدے ختم ہونے جارہے ہیں۔

ذرائع کے بقول پاکستان کا معاملہ طالبان سے مختلف ہے۔ طالبان ستمبر کے بعد کابل میں امریکی سفارتخانے کی حفاظت کے لیے 6 ساڑھے 6 سو فوجیوں کی موجودگی بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ لیکن اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں ایسے امریکی اہلکاروں کی موجودگی آج بھی ناخوشگوار یا ناقابل برداشت نہیں۔ ان ذرائع کے مطابق امریکہ کے لیے کام کرنے والے، اس کے ہر شعبہ زندگی میں سہولت کار کے طور پر موجود ہزاروں افراد کو نہ صرف آزادانہ کام کا حق موجود ہے۔ بلکہ ان میں سے کافی بڑی تعداد امریکہ سے باضابطہ طور پر فنڈز بھی حاصل کرتی ہے۔ ادھر ایسے افغان جو امریکی فوج کیلیے مترجم سمیت دیگر خدمات فراہم کرتے رہے، کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ وہ بھی امریکی فوج کے انخلا کے بعد خود کو افغانستان میں غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ امریکہ نے ان میں سے کچھ کو آسٹریلیا منتقل کیا ہے۔ جبکہ مرحلہ وار بنیادوں پر انہیں پہلے اپنے جزیروں پر رکھے گا اور بعد ازاں امریکہ میں سیٹل کرے گا۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں ممتاز ماہر بین الاقوامی امور سید محمد مہدی سے بات کی تو انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ایسی ہی صورتحال ہے۔ اس لیے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ تعاون نہ کرنے کی بات اپنی جگہ۔ مگر عملی صورت حال ان بیانات سے مختلف ہے۔ سید محمد مہدی نے کہا کہ وزیراعظم جو باتیں کر رہے ہیں۔ وہ بظاہر عام پاکستانی کے لیے خوشگوار ہیں۔ لیکن ان باتوں کی اصل سیاسی ہے۔ ایک طرف طالبان افغانستان میں ایک قوت کے طور پر ابھر رہے ہیں اور دوسری جانب وزیراعظم عمران خان ان کے کابل پہنچنے کی صورت میں اپنی سرحدیں بند کرنے کی بات کر کے امریکی افواج کے انخلا کے بعد ہر طرح کی خوراک کی رسد بھی روک دینا چاہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکی انخلا کے بعد کی صورت حال کے بارے میں حکومت پاکستان تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز اور اپنے خطے میں دوستوں کے ساتھ مشاورت کرتی اور سوچ سمجھ کر آگے بڑھتی۔ لیکن محض سیاسی اسکورنگ کے لیے بیانات پر زور ہے۔

ایک سوال کے جواب میں سید محمد مہدی نے کہا ’’وزیراعظم عمران خان کو چاہیے تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کے استعمال سے متعلق معاہدوں کا جائزہ لیتے۔ کیونکہ 20 برس پہلے ہونے والے دو معاہدوں پر آج بھی عمل جاری ہے۔ آج بھی کراچی بندرگاہ، کراچی ایئرپورٹ وغیرہ پر امریکی اہلکاروں کے لیے جگہیں موجود ہیں۔ گویا آج بھی امریکہ پاکستان کی سرزمین اور فضائی حدود افغانستان کے پس منظر میں استعمال کر رہا ہے۔ اب امریکہ ستمبر میں ان دونوں معاہدوں میں توسیع کے لیے کوشاں ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق پاکستان فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دینے کو تیار ہو سکتا ہے۔ البتہ زمین کے استعمال کے معاہدے میں توسیع سے گریز کی پالیسی ہے۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی حفاظت کے لیے سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں‘‘۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’ایک لاکھ افغانی وہ ہیں جنہیں امریکہ اپنے ہاں تحفظ دینے کے لیے لے جارہا ہے۔ جنہوں نے امریکہ اور امریکی افواج کے لیے افغانستان میں بہت کچھ کیا ہے۔ ان ایک لاکھ افغانوں میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اب ان کو طالبان کی موجودگی میں اپنی زندگی اور کاروبار سب کچھ غیر محفوظ نظر آتا ہے۔ ان میں گائیڈ بھی ہیں۔ این جی اوز سے وابستہ لوگ بھی ہیں۔ میڈیا اور تعلیم سے لے کر صحت کے شعبے تک میں امریکہ کے سہولت کار موجود ہیں۔ اسی طرح کی درجہ بندی کو دیکھا جائے تو امریکہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں پاکستانی بھی یہاں موجود ہیں۔ یہ لوگ یا ان کی بڑی تعداد اپنی ان خدمات کے لیے امریکہ سے رقم بھی بصورت گرانٹ لیتے ہیں۔ ان میں بیوروکریٹ، یونیورسٹی کے پروفیسرز، سیاستدان، تاجر، این جی اوز کے اہلکار سمیت ہر شعبہ زندگی کے لوگ شامل ہیں‘‘۔

ایک اور سوال کے جواب میں سید محمد مہدی نے کہا ’’بلاشبہ پاکستان کے سرکاری افسران کے سینکڑوں بچے آج بھی امریکی مہربانی اور سرمائے سے امریکہ میں زیر تعلیم ہیں۔ امریکی دعوت پر وہاںسے پڑھ کر آنے والے، ورکشاپس میں شرکت کرنے والے یا وزٹ کرنے والوں پر مشتمل امریکی ایلومیناتی بہت منظم ہے۔ امریکہ اس ایلومیناتی کے تقریباً ہر رکن کو گرانٹ دینے کو تیار ہوتا ہے۔