قاتل کا نفسیاتی معائنہ کرایا جا رہا ہے۔فائل فوٹو
قاتل کا نفسیاتی معائنہ کرایا جا رہا ہے۔فائل فوٹو

خون چوس کربچوں کو قتل کرنے والا ڈریکولا پکڑا گیا

احمد نجیب زادے:
کینیا پولیس اور وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ رگوں سے خون چوس کرکم و بیش 13 بچوں کو قتل کرنے والا ’’ڈریکولا‘‘ بالآخر پکڑا گیا ہے۔ پولیس نے ملزم میسٹن ملامو کو تین ماہ کی مسلسل محنت اور درجنوں مقامات کی اسکیننگ اور چھاپوں کے بعد گرفتار کیا ہے۔ اس کی اولین نشاندہی پر پانچ بچوں کی لاشیں بھی برآمد کرلی ہیں۔

تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں جانچ کر رہے ہیں کہ ملزم نے بچوں کو قتل کرنے کیلیے ان کا خون پینے کا طریقہ کیوں اپنایا؟ کیا اس کو کسی روحانی یا جسمانی قوت کیلیے یا ماورائی قوتوں کو قابو کرنے کیلیے ایسا عمل بتایا کہ اگر وہ بچوں کا خون پیے گا تو اس کو مطلوبہ آسیبی قوتیں حاصل ہوجائیں گی؟۔

واضح رہے کہ افریقی ممالک میں قبائلی عوام میں ایسی عجیب و غریب عادات پائی جاتی ہیں جن کے تحت وہ جانوروں کا خون پیتے ہیں اور کالا جادو سیکھنے کیلیے بچوں کو بھی قتل کرتے ہیں۔ لیکن اب تک ملزم سے کی جانے والی تفتیش میں ایسا کوئی ثبوت سامنے نہیں آسکا ۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ملزم میسٹن ملامو، ایک عجیب و غریب افسانوی کردار ہے، جو صرف بچوں کو اپنا شکار بناتا تھا اور اس کا طریقہ واردات انتہائی سفاکانہ رہا۔ قاتل نے دوران تفتیش اعتراف کرکے پولیس والوں پر جھرجھری طاری کردی کہ اس کو بچوں کی رگیں کاٹ کر خون پینے میں ایسی لذت ملتی ہے جس کا وہ الفاظ میں اظہار نہیں کرسکتا۔ ملزم کو اعتراف جرم کے بعد ہائی سیکیورٹی سیل میں منتقل کردیا گیا ہے۔ کیونکہ نیروبی کے عوام اس کو ہجومی تشدد میں ہلاک کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالنا چاہتے ہیں۔ پولیس کے مطابق سفاک ملزم بچوں کو بہلا پھسلا کران کو ویران مقامات پر لے جاکر چھری کی مدد سے ان کے گردن کی شہ رگ کو کاٹ دیتا تھا اور اس سے نکلنے والے خون سے پیٹ بھرتا تھا۔ اس دوران بچوں کو باندھ دیتا تھا تاکہ وہ خون نکلنے یا جسم کی رگ کاٹے جانے کے سبب مزاحمت نہ کرسکیں۔

کینیا کے الیکٹرونک میڈیا سمیت اخبارات و جرائد نے اس ’’ڈریکول‘‘ا کی گرفتاری کی خبر کو خصوصی توجہ دی، جس کے بعد مشتعل عوام نے قاتل کو پکڑ کر مار دینے کیلیے متعدد پولیس اسٹیشنوں پر حملے کیے۔ لیکن پولیس نے عوامی حملوں کو ناکام بنا دیا۔ پولیس نے میسٹن ملامو کوخون کا پیاسا ’’ویمپائر‘‘ قرار دیا ہے اور اس کو اگلے ہفتے تفتیش کے بعد عدالتی فورم پر پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پراسکیوٹر آفس کا کہنا ہے کہ اگر اس پر انسانیت سوز جرائم ثابت ہوگئے تو اسے سرِ عام سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔

سفاک قاتل کے بارے میں میڈیا اور پولیس تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اس پر 13 اطفال کو بھیانک طریقہ سے ہلاک کرنے کا الزام ہے۔ ملزم کے بارے میں ابھی نفسیاتی ماہرین اور فارنسک ایکسپرٹس کی رپورٹس کا انتظار کیا جارہا ہے۔ کینیائی جریدے ’’دی نیشن کینیا‘‘ کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ ملک بھر کو ہلا دینے والے اس سنگین وارداتوں کے سلسلہ نے سبھی کو حیران و ششدر کر دیا ہے۔ ’’اے ایف پی‘‘ کا کہنا ہے کہ ملزم میسٹن ملامو کی عمر محض بیس برس ہے اور اسے چند روز قبل دو بچوں کو قتل کرنے پر گرفتار کیا گیا جن کی لاشیں نیروبی کے قریب جنگل سے برآمد ہوئی تھیں۔ بعد ازاں پولیس تفتیش میں انکشاف ہوا کہ 20 سالہ قاتل نے درجن بھر سے زائد بچوں کو اپنی خوں آشامی کا نشانہ بنایا اور ان کا خون پی کر لاشوں کو جنگل میں دفن کر ڈالا۔ اب تک کی پولیس تفتیش میں کہا جا رہا ہے کہ خوں آشام قاتل نے دس بچوں کو خون چوس کر قتل کرنے کا اعتراف کرلیا ہے، لیکن کُل مقتول بچوں کی تعداد 13بتائی ہے، جن کی لاشوں کی تلاش کیلیے پولیس کی خصوصی ٹیموں کو جنگلات میں مختلف مقامات پر تعینات کردیا گیا ہے۔

کینیا کے دارالحکومت نیروبی کی پولیس نے بتایا ہے کہ ان کے پاس گزشتہ مہینوں میں کئی بچوں کے لاپتا ہو جانے کے کیسوں میں اضافے کی خبریں آچکی تھیں۔ جس پر حکام کافی پریشان تھے کہ بچوں کو کون ہلاک یا غائب کر رہا ہے؟ نیروبی میں کارگزار کرمنل انوسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹس نے اپنے ٹویٹر پیغام میں اس 20 سالہ نوجوان کو انسانی خون کا پیاسا ’’ویمپائر‘‘ لکھتے ہوئے بتایا کہ اس سفاک قاتل کا نفسیاتی چیک اپ کروایا جارہا ہے جو بچوں کا خون پینے کا شوقین بن چکا تھا۔ اب تک سامنے آنے والی خبروں کے مطابق پانچ بچوں کی لاشیں برآمد کی جاچکی ہیں جن کا پوسٹ مارٹم مکمل ہوچکا ہے۔ جنگل میں دبائی جانے والی ان بچوں کی لاشوں کے پوسٹ مارٹم سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے ان کی وجہ اموات شہ رگ کا کاٹا جانا ہے۔

پولیس کی جانچ رپورٹ کے مطابق ملزم نے سب سے پہلے ایک بارہ سالہ لڑکی کو پانچ برس قبل قتل کیا، جسے اس نے نیروبی کے نواحی ضلع ’’ماچاکوس‘‘ سے اغوا کیا تھا۔ نیروبی پولیس کے کرمنل انوسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹس کے افسران نے بتایا ہے کہ ان سے گزشتہ پانچ برس میں گمشدہ درجنوں بچوں کے لواحقین اور والدین نے رابطہ کیا ہے۔ تاکہ اپنے بچوں کی بابت معلومات حاصل کی جائیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں یا ان کو بھی قاتل نے ہلاک کردیا ہے؟۔