حکومت نازک معاملات پر قوم کو الجھا رہی ہے۔ ایک بار پھر افہام و تفہیم کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔فائل فوٹو
حکومت نازک معاملات پر قوم کو الجھا رہی ہے۔ ایک بار پھر افہام و تفہیم کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔فائل فوٹو

ہیکنگ کا خدشہ، آئندہ انتخابات متنازع ہوسکتے ہیں۔ جسٹس (ر) وجیہ

کراچی ۔ عام لوگ اتحاد کے رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ایک مرتبہ پھر افہام و تفہیم کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ تقریباً 7 قوانین ایسے تھے کہ جو قومی اسمبلی سے پاس تو ہوگئے، مگر سینیٹ میں حزب اختلاف کی اکثریت نے ان کی مخالفت کی۔ اور سینیٹ نے ان قوانین کو رد کردیا۔ ان قوانین میں سمندر پار پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ کا حق دینا اور ملکی انتخاب میں الیکٹرونک ووٹنگ مشینز روشناس کرانا شامل تھا۔ علاوہ ازیں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق مہیا کرنا ان قوانین میں تھا، جو 10 جون کی نشست میں دھکیلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور حزب اختلاف کے تصادم کو روکنے کیلیے اسپیکر اسد قیصر نے ایک موقع پر ان متنازعہ قوانین کو دونوں ایوانوں کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کرنے کی بات کی تھی۔ مگر یوں نہ ہوا۔ اور اب یہ معاملات پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے سامنے رکھے جانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ وہاں احتمال یہ ہے کہ مشترکہ اجلاس میں سرکاری اکثریت ہونے کے ناطے ان قوانین کو بلڈوز کردیا جائے گا، جو جمہوری روایات کے قطعاً منافی ہے۔ عام لوگ اتحاد نہ سمندر پار پاکستانیوں کو حق رائے دہی دینے کے خلاف ہے اور نہ ہی ای وی ایمز کو اصولی طور پر رد کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ دور کی تکنیکی ترقیوں کے سبب الیکٹرونک مواصلاتی و دیگر مشینوں کو ہیک کیا جاسکتا ہے اور اس لحاظ سے آئندہ انتخابات متنازع ہوسکتے ہیں۔ جیسیا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے صدارتی انتخاب کے بارے میں ایک سوچ یہ ابھر کرآئی تھی کہ صدارتی انتخاب میں روسی حکومت نے دخل اندازی کی۔ یہ نازک معاملات ہیں اوران پرالیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس صورتحال میں کسی بھی ملک دوست حکومت سے توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ میانہ روی کا راستہ اختیار کرکے قوم کو ان اہم معاملات میں ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کر پائے گی۔ جو بصد افسوس نہ ہوسکا۔

ان کاکہنا تھا کہ یک نہ شد دو شد ان متنازع مسائل کے سبب جب حزب اختلاف نے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا تو حالات سے فائدہ اٹھاکر حکومت نے الیکشن قوانین تیسری ترمیم کی آرڈیننس کو ایوان سے پاس کرالیا۔ جس کے نتیجے میں اگر کوئی اسمبلیوں کا ممبر40 دن تک حلف نہ لے تو اس کی نشست خالی گردانی جائے گی۔ اب یہ 40 دن تو دراصل اسحاق ڈار کا چالیسواں ثابت ہوئے، کیونکہ ان کی نشست اب خالی ہوا ہی چاہتی ہے۔ اوران کی جگہ وزیراعظم کے وعدے کے مطابق موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین سینیٹ کے ممبر ہوسکیں گے۔ یہاں ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ کیا آئین سے ماورا اس طرح کی شقیں ماتحت قوانین کے ذریعے متعارف کرائی جاسکتی ہیں؟۔