ملک ریاض کے پاس 28 جولائی 2011 سے 28 جولائی 2021 تک کا برطانوی ویزا موجود تھا لیکن برٹش ہوم آفس نے یہ ویزا 10 دسمبر 2019 کو منسوخ کردیا
ملک ریاض کے پاس 28 جولائی 2011 سے 28 جولائی 2021 تک کا برطانوی ویزا موجود تھا لیکن برٹش ہوم آفس نے یہ ویزا 10 دسمبر 2019 کو منسوخ کردیا

کرپشن چارجزپربرطانوی عدالت نےملک ریاض کی ویزااپیل مسترد کردی

ملک ریاض اور ان کے صاحبزادے علی ریاض کی جانب سے برطانوی ویزےکی منسوخی کے خلاف دائر کردہ اپیل برطانوی عدالت نے مسترد کر دی۔

با وثوق ذرائع کےمطابق برطانوی ہوم آفس نے ملک ریاض کو دیا گیا دس سالہ ملٹی پل ویزا منسوخ کر دیا تھا۔ ہوم آفس کا الزام تھا کہ ملک ریاض اور ان کے صاحبزادے احمد علی ریاض مبینہ طور پر کرپشن کے معاملات میں ملوث ہیں۔

ملک ریاض کے پاس 28 جولائی 2011 سے 28 جولائی 2021 تک کا برطانوی ویزا موجود تھا لیکن برٹش ہوم آفس نے یہ ویزا 10 دسمبر 2019 کو منسوخ کردیا۔ اس فیصلے کے خلاف ملک ریاض نے برطانوی عدالت میں اپیل دائر کی تھی۔

تاہم ہفتے کوسامنے آنے والے حکم نامے میں عدالت نے ہوم آفس کے فیصلے کو برقرار رکھا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گو کہ ملک ریاض پر کوئی جرم ثابت نہیں ہے، تاہم عدالت سمجھتی ہے کہ ملک ریاض ممکنہ طور پر مالیاتی اور تجارتی بے ضابطگیوں اور کرپشن میں ملوث رہے ہیں۔

اس حوالے سے عدالتی حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ برطانیہ سے ملک ریاض کا اخراج عوامی مفاد میں ہے۔ذرائع کےمطابق اس فیصلے کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک طرف تو زبردست بحث شروع ہوگئی ہے اور عدالتی فیصلے کی تعریف کی جا رہی ہے، تاہم ساتھ ہی یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا اس معاملے میں بالکل خاموش کیوں ہے؟ادھر برطانیہ میں مقیم معروف پاکستانی تجزیہ کار اور مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے اپنی ایک ٹوئٹ میں عدالتی فیصلے کے دو صفحات کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ برطانوی ہائی کورٹ نے ہوم آفس کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے ملک ریاض اور ان کے بیٹے کی صوبہ سندھ میں کرپشن کے معاملے پر ان کے دس سالہ ویزے کی منسوخی کا حکم دیا ہے۔