جو رزلٹ ہمارے پاس موجود ہیں انہیں جاری ہونا چاہیے۔فائل فوٹو
جو رزلٹ ہمارے پاس موجود ہیں انہیں جاری ہونا چاہیے۔فائل فوٹو

جماعت اسلامی کا آج حسن اسکوائر پر خواتین دھرنے کا اعلان

کراچی: کالے بلدیاتی قانون کے خلاف جماعت اسلامی کے تحت سندھ اسمبلی کے باہر دھرنے کے بیس دن مکمل ہوگئے،امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ کراچی کو پرویز مشرف دور کے اختیارات نہیں دیتے نہ سہی ذوالفقارعلی بھٹو دور کے بلدیاتی اختیارات دے دو ۔آج حسن اسکوائر پر خواتین کا عظیم الشان مارچ و دھرنا ہوگا،اگلے مرحلے میں کراچی کے اہم اور اسٹریٹجکٹ پوائنٹس پر دھرنے دیے جائیں گے، ایک ہفتے میں پورے شہر میں دوہزارکارنر میٹنگز ہوں گی۔

تفصیلات کے مطابق،امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے سندھ اسمبلی کے باہر دھرنے کے بیسویں روز شرکاء، میڈیا،وفود اور بیرون ملک مقیم آن لائن دھرنے میں شرکت کرنے والے پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے کہتے ہیں کہ کراچی کو پرویز مشرف دور کے اختیارات نہیں دیتے نہ سہی ذوالفقار علی بھٹو دور کے بلدیاتی اختیارات دے دو، ہم کراچی کے تین کروڑ سے زائد عوام کے جائز اور قانونی حقوق اور شہر کے گھمبیر مسائل کے حل کے لئے،بااختیار شہری حکومت کے قیام،اور میئر اوربلدیاتی اداروں کے اختیارات اور وسائل کا مطالبہ کررہے ہیں،ہمارے تمام مطالبات آئینی اور قانونی ہیں،ان مطالبات کوکسی آمر کے نظام کا نام دے کر رد نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی،صوبائی ترجمان اور وزیر اطلاعات عوام کو دھوکہ دینے کے بجائے شہری ادارے بلدیہ کے حوالے کریں،ان کے اختیارات اور وسائل واپس کریں۔ اپنی پارٹی کے بانی چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس1972کا ہی مطالعہ کرلیں،1972کے اس بلدیاتی نظام میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کوجواختیارات اور محکمے اس کے پاس تھے وہی دے دیں،ہم سعید غنی خاصخیلی کو بتانا چاہتے ہیں کہ 1972 کے بلدیاتی قانون میں بھی فنکشن آف پلاننگ،ڈیولپمنٹ اینڈ ٹاؤن ایمپروومنٹ،ماسٹر پلان ٹاؤن پلاننگ کنٹرول،ڈیولپمنٹ کنٹرول،بلڈنگ ریگولیشن،لائسنس آف آرکیٹیکٹ اینڈ ٹاؤ ن پلانرز،لینڈ ڈیولپمنٹ تمام تر قیاتی اسکیمیں اور پبلک ہاؤسنگ کے محکمے سب کے ایم سی کے پاس تھے۔1972کے قانون میں تمام پبلک ہیلتھ سروسزاوراس کی منصوبہ بندی و ترقی،مینٹیننس،سیوریج سسٹم اور بلک واٹر سپلائی،تمام اسپیشل و جنرل ہسپتالوں و میٹرنٹی ہومز کا کنٹرول،تمام قبرستانوں کا انتظام،فائر فائٹرزسروسز،ہائی ویز و اہم پل،پبلک روڈو برساتی نالوں کی منصوبہ بندی،تعمیر و ترقی میٹروپولیٹن ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کنٹرول سب کا انتظام کے ایم سی کے ماتحت ہوتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سعید غنی خاصخیلی خود فیصلہ کریں کہ یہ سارے اختیارات اور محکمے کسی فوجی یا سیاسی آمر نے کے ایم سی کو دیئے تھے؟،ہم بھی آج کراچی کے لیے یہی اختیارات مانگ رہے ہیں۔1987میں عبدالستار افغانی نے بھی موٹر وہیکل ٹیکس سندھ حکومت سے کے ایم سی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھاجس پر ان کی بلدیہ کو توڑ دیا گیا اور میئر افغانی سمیت بڑی تعداد میں کونسلرزکو گرفتار کرلیاگیا ہمارا آج بھی مطالبہ ہے کہ موٹر وہیکل ٹیکس کے ایم سی کے حوالے کیا جائے اور یہ ٹیکس کراچی پر بھی خرچ کیا جائے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی کو میگا سٹی کا درجہ دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ دیہی و شہری آبادی میں یکساں تناسب سے نئی حلقہ بندیاں کی جائیں،بین الاقوامی طرزکا ٹرانسپورٹ کا نظام دیا جائے،شہر میں میئر،ڈپٹی میئر،کونسل کے ممبران کا براہ راست انتخاب کیا جائے،کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا نگراں بااختیار میئر کو بنایا جائے،بااختیار شہری حکومت کے ماتحت صحت،تعلیم، اسپورٹس، سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ کا مربوط نظام بنایا جائے، کے ڈی اے،ایس بی سی اے،واٹر اینڈ سیوریج بورڈ،سٹی پولیس وٹریفک پولیس سمیت بلدیاتی اداروں میگاسٹی گورنمنٹ کے تحت کیے جائیں،کوٹہ سسٹم ختم اورنئی مردم شماری ڈی فیکٹو کی بجائے ڈیجور طریقے سے کی جائے۔