فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسٹیٹ بینک ایکٹ ترمیمی بل صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور

اسلام آباد: سینیٹ میں اسٹیٹ بینک کا ترمیمی بل منظورکر لیا گیا،بل کے حق میں 43 جبکہ مخالفت میں   42  ووٹ ڈالے گئے ۔

چیئرمین صادق سنجرانی کی صدارت میں سینیٹ کا اجلاس ہوا، جس میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پیش کیا۔ چیئرمین سینیٹ نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا۔ اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں لہرا دیں۔

اپوزیشن نے کائونٹنگ کو مسترد کرتے ہوئے ایوان میں شور شرابا کیا اورآئی ایم ایف کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کےنعرے لگائے۔ انہوں نے بل کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیں اورری کاؤنٹ کا مطالبہ کیا۔ لیکن چیئرمین سینیٹ نے اجلاس ملتوی کردیا،اب سینیٹ کا اجلاس پیرکی سہ پہر3 بجے ہو گا۔

قبل ازیں اجلاس کے ابتدا میں حکومتی سینیٹر ز کی تعداد کم تھی جس کے باعث بل کو ایجنڈے میں شامل ہونے کے باوجود پیش نہیں کیا گیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا تھا ۔ اجلاس میں کچھ وقفہ لیا گیا ، وقفے کے بعد  بل کو منظوری کیلیے پیش کیا گیا ، بل کے حق میں  43 جبکہ مخالفت میں 42 ووٹ آئے ۔

سینیٹ میں  اپوزیشن لیڈر سید یوسف رضا گیلانی  نہیں آئے جبکہ اپوزیشن کے دلاور خان نے بل پر حکومت کے حق میں ووٹ دیا ، اے این پی کے  سینیٹر عمر فاروق کانسی بل کی منظوری کے وقت ایوان سے نکل گئے جس کا واضح فائدہ حکومت کو ہوا اور بل پاس کرا لیا گیا۔

نائب صدر پیپلز پارٹی و سینیٹر شیری رحمان نے اسٹیٹ بینک بل کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ سینیٹ اجلاس کے لیے آدھی رات کو جاری شدہ ایجنڈا حکومت کے چھپے مقاصد کو بیان کرتا ہے، حکومت آئی ایم ایف کو بتانا چاہتی ہے پارلیمنٹ نے اسٹیٹ بینک سے متعلق بل پاس کیا ہے، حکومت قومی بحران کے وقت پاکستان کے خود مختار فیصلے کرنے کی صلاحیت کو بھی چھیننا چاہتی ہے، حکومت اسٹیٹ بینک کی  خودمختاری متعلق بل کو بلڈوز کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

شیری رحمان کا کہنا تھا کہ بڑے منصوبوں میں خود مختار ضمانتیں دینے کی حکومتی صلاحیت کا کیا ہوگا ؟ یہ ہنگامی واجبات کے طور پر درج ہیں، لہذا آئی ایم ایف اب ان پر بھی کنٹرول کر سکتا ہے، اپوزیشن حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ہے، آئی ایم ایف نے یہ شرط رکھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی بینک پاکستان کو کسی بھی بحران میں پیسے نہیں دے گا، یہ قومی ہنگامی حالتوں، یہاں تک کہ جنگ میں بھی مرکزی بینک سے پیسے لینے کی ہماری خود مختار صلاحیت کو متاثر کرے گا، مرکزی بینک سے قرضہ لینے ہر ملک میں بحران کو نمٹنے کے لیے آخری حل ہوتا ہے۔