:امت رپورٹ
تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس انتہائی اہم مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ اگر سابق حکمراں پارٹی پر ممنوعہ فنڈنگ کا الزام درست ثابت ہوجاتا ہے تو اس کے نتیجے میں نہ صرف پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ ہوسکتی ہے۔ بلکہ پارٹی چیئرمین عمران خان بھی اس فیصلے کی زد میں آسکتے ہیں۔ یہ اشارہ ہائیکورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں دیا ہے۔ یوں عمران خان پر نااہلی کے خطرے کی تلوار لٹکنے لگی ہے۔ واقفان حال کے بقول یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے دل کا چور بولنے لگا ہے۔ کراچی جلسے میں انہوں نے واضح طور پر اپنے اس خوف کا اظہار کیا کہ انہیں نااہل قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیونکہ انہیں علم ہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کے خلاف نہایت ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ جبکہ خود الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی بھی اپنی رپورٹ میں ایسے اکائونٹس کی نشاندہی کرچکی ہے۔ جن میں ملک و بیرون ملک سے بھاری رقوم آتی رہیں۔ لیکن ان اکائونٹس کو الیکشن کمیشن سے چھپایا گیا تھا۔
فارن فنڈنگ کیس کی تازہ سماعت کے موقع پر دلائل کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل کی بدحواسی بھی نمایاں تھی۔ کمرے میں موجود نمائندہ ’’امت‘‘ کے بقول ایک موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے کہا کہ اگر فارن فنڈنگ
ثابت ہوجاتی ہے تو زیادہ سے زیادہ فنڈنگ میں آنے والے پیسے ضبط کرنے کا حکم دیا جاسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن اس سے آگے نہیں جاسکتا۔ جس پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں کیس سننے والے تین رکنی بنچ کے ایک رکن نے چونکتے ہوئے کہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ اسے دوہرائیے۔ جس پر انور منصور نے پھر کہا کہ فارن فنڈنگ ثابت ہونے کی صورت میں بھی زیادہ سے زیادہ الیکشن کمیشن فنڈز ضبط کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ اس سے زیادہ اس کے اختیارات نہیں ہیں۔
نمائندہ ’’امت‘‘ کے مطابق اس موقع پر کمرے میں موجود قانونی ماہرین کی یہی آرا تھیں کہ یہ دلیل دے کر ایک طرح سے انور منصور اعتراف جرم کر رہے ہیں اور ساتھ ہی بین السطور میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ الزام ثابت ہونے پر الیکشن کمیشن فنڈز ضبط کرلے۔ لیکن عمران خان کو نااہل قرار نہ دے۔
چند روز پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ایک ماہ میں دینے کا جو حکم دیا تھا۔ اس میں یہ اشارہ تھا کہ الزام ثابت ہونے پر پارٹی چیئرمین زد میں آسکتے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب اس فیصلے کی کاپی کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ غلط دستاویزات جمع کرانے پر چیئرمین پی ٹی آئی بھی زد میں آسکتے ہیں اور انہیں پریشانی و مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
منگل کے روز سماعت کے موقع پر انور منصور نے الیکشن کمیشن پاکستان کے نامکمل ہونے پر بھی اعتراض اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا ’’الیکشن کمیشن مکمل طور پر فعال نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اپنے دو ارکان کے بغیر کام کر رہا ہے۔ جو دو ہزار انیس میں ریٹائر ہوئے تھے۔ لہٰذا نامکمل کمیشن کسی بھی کیس کا فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں‘‘۔ انور منصور نے آئین کے آرٹیکل دو سو اٹھارہ کا حوالہ بھی دیا۔ جس میں ایک مستقل الیکشن کمیشن کی تشکیل کی شرط رکھی گئی ہے۔ جس میں ہر صوبے سے چار اراکین ہوں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت قریباً پونے چار برس تک اقتدار میں رہی۔ الیکشن کمیشن کو مکمل کرنا اس کی ذمہ داری تھی۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت نے الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تقرری کا معاملہ لٹکائے رکھا۔ اسے اپوزیشن کی مشاورت سے ان ارکان کو مقرر کرنا تھا۔ اور اب فارن فنڈنگ کیس میں جب پی ٹی آئی کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا ہے تو ان کے وکیل کو نامکمل الیکشن کمیشن کا خیال آگیا ہے۔
فارن فنڈنگ کیس میں نامکمل الیکشن کمیشن سے متعلق پی ٹی آئی کے اعتراض پر آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک تاخیری حربہ ہے۔ جو سابق حکمراں پارٹی اس کیس میں پچھلے ساڑھے سات برس سے استعمال کرتی آرہی ہے۔ لہٰذا اس اعتراض کی کوئی اہمیت نہیں۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا بھی یہی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے وکیل کا موقف درست نہیں۔ انہوں نے انور منصور کو مشورہ دیا کہ انہیں الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ کی شق 2 پڑھ لینی چاہئے۔ جس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان تین ارکان پر بھی مشتمل ہو تو فعال رہے گا اور مکمل کہلائے گا۔ حتیٰ کہ الیکشن کمیشن پاکستان کے محض دو ارکان بھی ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کنور دلشاد کا مزید کہنا تھا کہ ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی والے ملک بھارت میں نوے کروڑ ووٹرز ہیں۔ لیکن وہاں پھر بھی الیکشن کمیشن کا ایک ممبر ہے۔ وہ حیران ہیں کہ اتنے سینئر وکیل ہونے کے باوجود انور منصور اس طرح کے دلائل کیوں دے رہے ہیں۔ انیس سو اکیانوے تک پاکستان میں الیکشن کمیشن کا ایک ہی ممبر تھا۔ بعد میں دو ہوگئے۔ البتہ مشرف کے دور میں چوہدری شجاعت کی تجویز پر الیکشن کمیشن کے چار ارکان مقرر کئے گئے تھے۔ تاہم جیسا کہ انہوں نے بتایا الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ کی شق 2 میں یہ واضح کردیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کے تین ممبر بھی ہوں تو اسے مکمل تصور کیا جائے گا۔ یوں موجودہ الیکشن کمیشن پوری طرح فعال اور مکمل ہے۔ اور فارن فنڈنگ سمیت ہر قسم کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ تیس دن میں کرنے کے حکم کے حوالے سے کنور دلشاد کا کہنا تھا ’’وہ برملا یہ کہتے ہیں کہ اسد عمر نے عمران خان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ جب انور منصور بہتر طریقے سے الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس لڑ رہے تھے تو ایسے میں اسد عمر کو ہائی کورٹ میں درخواست دینے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔ واضح رہے کہ اسد عمر نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ فارن فنڈنگ کیس کے درخواست گزار اکبر ایس بابر کو پی ٹی آئی کے اکائونٹس کے ریکارڈ تک رسائی نہ دی جائے۔ اور انہیں اس کیس سے بھی لاتعلق کیا جائے۔ تاہم ہائی کورٹ نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے الٹا تیس دن میں اس کیس کا فیصلہ کرنے کا حکم سنادیا۔ کنور دلشاد کہتے ہیں کہ اگر اسد عمر ہائی کورٹ میں یہ درخواست نہ لے کر جاتے تو نہ تیس دن میں کیس کا فیصلہ کرنے کا حکم آتا۔ اور نہ ہی ہائی کورٹ کے تحریری فیصلے میں پارٹی چیئرمین کے زد میں آنے کی بات ہوتی۔ ان کے نزدیک اسد عمر نے فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ ہائی کورٹ لے جاکر درخواست گزار اکبر ایس بابر کے لئے آسانی پیدا کردی ہے۔ اب چاہے پی ٹی آئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو کسی بھی فورم پر چیلنج کرے۔ کوئی فائدہ نہیں ہونا ہے۔ جبکہ الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا پابند ہے۔
فارن فنڈنگ کیس کے ممکنہ فیصلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ اگر ممنوعہ فنڈنگ کا الزام ثابت ہوجاتا ہے تو پھر پی ٹی آئی کی رجسٹریشن منسوخ ہوسکتی ہے۔ اس صورت میں الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کا انتخابی نشان واپس لے لے گا۔ چونکہ کل کی اپوزیشن آج اقتدار میں ہے۔ لہٰذا نئی حکومت کے وزیر داخلہ کے پاس یہ اختیارات ہیں کہ وہ آرٹیکل سترہ کے تحت پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دیدے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن میں جھوٹی دستاویزات جمع کرانے کا الزام ثابت ہونے پر پارٹی چیئرمین عمران خان بھی زد میں آجائیں گے۔