فائل فوٹو
فائل فوٹو

لاہور ہائیکورٹ کا حمزہ شہباز سے حلف لینے کیلیے نمائندہ مقررکرنے کا حکم

لاہور ہائیکورٹ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے صدر مملکت کو نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز سے 24گھنٹے میں حلف لینے کیلیےکوئی اور نمائندہ مقررکرنے کا حکم دیدیا۔عدالت نے کہا کہ گورنر پنجاب حلف لینے سے انکار نہیں کرسکتے، صدر پاکسان کسی اورکو حلف لینے کے لیے نامزد کریں، صدر پاکستان کوعدالتی فیصلے کی کاپی بھجوائی جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گورنر نے وزیر اعلیٰ کا حلف لینے سے معذوری ظاہر کی ہے، سوال یہ ہے کہ اب عدالت کیا حکم جاری کرے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ گورنر پنجاب کے حلف نہ لینے پر اسپیکر حلف لے سکتا ہے، درخواست میں اسپیکر کو فریق نہیں بنایا گیا، گورنر سمجھتے ہیں کہ وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب آئین کے تحت نہیں ہوا۔

اشتر اوصاف علی نے کہا کہ گورنر یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ دستیاب نہیں ہیں، گورنر انکار کر رہے ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 104 کے تحت گورنر کو مکمل اختیار حاصل ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر انکار نہیں کر سکتا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ ابھی مختصر حکم لکھوا رہا ہوں جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے صدر پاکستان کو وزیر اعلیٰ کے حلف کے لیے کسی اور کو نمائندہ مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔

اس سے قبل حمزہ شہباز سے حلف نہ لینے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست پرسماعت ہوئی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ گورنر پنجاب کے ساتھ میٹنگ کی، دو، تین وجوہات عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، گورنرکے ساتھ اسپیکراسمبلی حلف لینے کا پابند ہوتا ہے، حمزہ شہبازکی درخواست میں اسپیکرکوفریق نہیں بنایا گیا، گورنرکوئی ربڑ اسٹیمپ نہیں۔

چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ گورنر پنجاب کی جانب سے حلف نہ لینے کا کوئی جواز ہے ؟ صدر نے کہا کہ میں وزیر اعظم سے حلف نہیں لے سکتا، بیمار ہوں۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ گورنر پنجاب سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب قانون اورآئین کے مطابق نہیں ہوا، ایک خاتون ایم پی اے تشدد کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے سب کچھ روک دیا جائے۔