کراچی :کراچی میں جیل چورنگی کے قریب ڈپارٹمنٹل اسٹور کے وئیر ہاؤس میں لگی آگ پر چار روز بعد قابو پالیا گیا لیکن تاہم دھواں کی وجہ سے علاقہ مکینوں کوسانس لینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ای این ٹی کے ماہرین کے بقول ناک ، کان اور حلق کی بیماریوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آگ لگنے کے نتیجے میں شدید دھواں گھٹن اور سانس لینے میں دشواری کا سبب بنتا ہے ، دھوئیں میں زہریلی گیسز ہوتی ہیں کیوں کہ یہ نہیں معلوم اس وقت آگ میں کیا کیا جل رہا ہے۔ کاربن کی بہت بڑی مقدار انسان سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں لے جا رہا ہوتا ہے، ایسے افراد جن کی قوت مدافعت کم ہو، بچے اور بزرگوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتاہے۔
جناح اسپتال کراچی کے شعبہ ناک ، کان اور حلق کے سربراہ پروفیسر عبدالرزاق ڈوگر نے بتایا کہ دھوئیں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوتی ہے، جو ناک کے ذریعے جب ہم سانس لیتے ہیں تو پھیپھڑوں میں جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ناک میں ہمارے ایک حفاظتی نظام بنایا گیا ہے، اس کا کام سانس لینے کے دوران ہوا کو فلٹر کرنا ہے لیکن آتشزدگی یا دھوئیں سے یہ نظام متاثر ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے خطرناک گیسیں پھیپھڑوں تک پہنچ جاتی ہیں۔
عبدالرزاق ڈوگر کا کہنا تھا کہ اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار زیادہ ہوجائے تو پروٹیکٹو سسٹم متاثر ہوتا ہے اور اس کا نارمل سسٹم ڈیمیج ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے سانس لینے میں تکلیف، گلے میں خراش، بخار آنا اور سانس لینے میں دشواری ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ بچوں، بزرگوں اور کم قوت مدافعت والے افراد جیسے ہائپر ٹینشن، ذیابطیس اور ٹی بی کے مریضوں میں یہ مسائل زیادہ شدت سے ہوتے ہیں۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ جس علاقے میں آگ لگ جائے وہاں کے مکینوں کو چاہیے کہ وہ عمارت اور علاقے سے دور چلے جائیں لیکن لوگ وسائل کی کمی کی وجہ سے دور نہیں جا سکتے۔ عبدالرزاق ڈوگر کا کہنا تھا کہ ہمارا تعمیراتی ڈھانچہ اور گردوغبار شہریوں کے لیے مزید مشکلات کا سبب بنتا ہے، شہریوں کو اگر سانس لینے میں مشکلات ہوں تو انہیں چاہیے کہ فورا اپنے قریبی معالج سے رجوع کریں۔
ڈائو یونیورسٹی اسپتال اوجھا کیمپس کے سینیئر پروفیسر عاطف حفیظ صدیقی نے بتایا کہ جب آگ لگ جائے تو یہ نہیں معلوم ہوتا اس آگ میں کیا کیا جل رہا ہے، جب آگ لگ جائے تو دھوئیں میں کاربن مونو آکسائیڈ ہوتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تار کول جلتا ہے یا کچرا جل رہا ہوتا ہے تو اس سے زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں جس کی وجہ سے دم گھٹتا ہے اور سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے، کاربن کی بڑی مدار ہوتی ہے جو انسان سانس کے ذریعے جسم میں لے جا رہا ہوتا ہے۔
پروفیسر عاطف حفیظ صدیقی نے کہا کہ ایسے افراد جن میں قوت مدافعت کمزور ہو انہیں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بچے، بوڑھے اور ایمیونو کمپرومائزڈ افراد اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ آس پاس موجود لوگوں اور علاقہ مکینوں کو چاہیے کہ کھڑکیاں دروازے بند رکھیں، دھواں اندر نہ آنے دیں، ماسک پہن کر رکھیں اور روزانہ ناک کی صفائی کریں، اگر ممکن ہو تو گھر میں ہوا کے اخراج کے لiے مناسب انتظام کیا جائے۔
معروف ای این ٹی اسپیشلسٹ ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا کہ اگر کسی کو ناک یا گلے کی الرجی ، ناک کی نالی کی سوجن رہتی ہو، یا الرجی ہو جس کی وجہ سے کھانسی رہتی ہو ایسے افراد کے لیے دھواں بہت زیادہ مشکل کا سبب بنتا ہے۔ اگر کوئی دمے ، گلے، نرخرے یا پھیپھڑے کے کینسر کا مریض ہو تو ایسے افراد کے لیے بہت زیادہ مسائل ہو سکتے ہیں، چھوٹے بچوں کے لیے یہ دھواں بہت زیادہ مسئلہ پیداکر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک عام صحت مند فرد جو دھوئیں کے بہت قریب ہے اس کا دھواں بہت زیادہ اپنے جسم میں لے جا رہا تو ایسے فرد کے گلے، نرخرے، حلق اور پھیپھڑوں کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے، اس کی آواز کا مسئلہ ہو سکتا، اسے سائنوسائٹس، نیزل الرجی، برونکائٹس ہو سکتا ہے، سانس میں تکلیف ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ اگر کسی کے گھر میں اے سی ہے تو وہ بہت محفوظ فرد ہے گھر کا دروازہ اور کھڑکیاں بند کرکے گھر میں بیٹھے، بار بار منہ دھوتا اور پانی چہرے پر مارتا رہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ رہائشی عمارتوں میں ایسے ڈپارٹمنٹل اسٹورز نہیں ہونے چاہیے، کون انہیں این او سی دیتا ہے، رہائشی عمارتوں کے نیچے گودام یا گیس سیلنڈر والا کام نہیں ہونا چاہیے کوئی ریستوران نہیں ہونا چاہیے، این او سی دیتے وقت یہ تمام چیزیں دیکھنی چاہئیں، ہر چھ مہینے بعد بجلی اور پانی کی فٹنگ دیکھنی چاہیے۔