امت رپورٹ:
نون لیگی قیادت کی بزدلی نے عمران خان کو سپر مین بنا دیا۔ وفاقی حکومت نے پچھلے تین ماہ کے دوران کم از کم چھ بار معزول وزیر اعظم کی گرفتاری کا پلان بنایا۔ لیکن اس پر عمل نہ کر سکی۔ حتیٰ کہ اتوار کے روز تو جان بوجھ کر عمران خان کو بچ نکلنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ بعد ازاں حسب توقع خان نے اپنی تین روز کی راہداری ضمانت منظور کرا لی۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس حکومتی بزدلی یا کمزوری کے پیچھے کارفرما مختلف عوامل میں پی ٹی آئی سپورٹرز کے ردعمل کا خوف سرفہرست ہے۔ اس صورتحال میں پی ٹی آئی کے ووٹرزاور سپورٹرز کو یہ پیغام جا رہا ہے کہ ’’خان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں۔ ناممکن ہے‘‘۔ نتیجتاً پارٹی ورکرز کا مورال بڑھ رہا ہے اور وہ حد درجہ چارج ہو چکے ہیں۔ جس سے کپتان کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں نے عمران خان کو باور کرایا ہے کہ موجودہ صورتحال میں شہباز شریف جیسے ’’مصلحت پسند‘‘ وزیر اعظم کی زیر قیادت حکومت ان پر ہاتھ ڈالنے کا رسک نہیں لے گی۔ اس کے باوجود کپتان اپنی ممکنہ گرفتاری کے خوف سے باہر نہیں نکل پا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پارٹی ووٹرز و سپورٹر اور ان کی فیملیز کو جن میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔ اپنے لئے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اتوار کی رات سے پیر کی صبح تک بنی گالہ پر کارکنان اور ان کی فیملیوں کا اجتماع اس کا بین ثبوت تھا۔
اتوار کو سارا دن اور پیر کی صبح، فجر تک معزول وزیر اعظم عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کا ڈرامہ چلتا رہا۔ تاہم پی ٹی آئی چیئرمین کو نہ گرفتار ہونا تھا اور نہ کیا گیا۔ عمران خان کی گرفتاری کو لے کر وزارت خارجہ میں ہونے والا طویل مشاورتی اجلاس بھی کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگیا تھا۔ کیونکہ اس سلسلے میں حتمی گرین سگنل وزیر اعظم شہباز شریف نے دینا تھا۔ جو وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو نہیں مل سکا۔ اگرچہ رانا ثناء اللہ نے اپنے طور پر عمران خان کی گرفتاری کا پورا بندوبست کرلیا تھا۔ اس حوالے سے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت بھی جاری کر دی گئی تھیں۔ لیکن جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی منظوری نہ ملنا اس کارروائی میں رکاوٹ بن گئی۔ معروف صحافی اعزاز سید کے بقول اتوار کے روز عمران خان کی گرفتاری کا پلان اس لئے بھی موخر کرنا پڑا کہ اتحادی حکومت میں شامل دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اس کے حق میں نہیں تھے۔ انہوں نے اس موقع پر عمران خان کی گرفتاری کو سیاسی نقصان سے تعبیر کیا۔
چنانچہ معزول وزیر اعظم کی گرفتاری کی تمام تیاریاں دھری رہ گئیں۔ جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف کو جواز مل گیا کہ اس اہم گرفتاری سے پہلے اتحادیوں میں اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ عمران خان کی گرفتاری سے متعلق تازہ پلان پر عملدرآمد میں سابق صدر آصف زرداری رکاوٹ بنے۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت پی ڈی ایم میں شامل تقریباً تمام پارٹیوں کو اس گرفتاری پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ پی ڈی ایم ذرائع کے مطابق بالخصوص مولانا فضل الرحمن تو شروع سے عمران خان کی گرفتاری کے حق میں ہیں۔ اور ایک سے زائد بار وفاقی حکومت کو کہہ چکے ہیں کہ وہ قانون کے مطابق عمران خان سے نمٹنے میں کمزوری نہ دکھائے۔ حتیٰ کہ اس معاملے پر وزیر اعظم شہباز شریف کی غیر ضروری مصلحت پر انہوں نے اظہارِ ناراضگی بھی کیا۔ ذرائع نے اس حوالے سے جولائی کے اواخر میں مولانا فضل الرحمن کی بنوں میں پریس کانفرنس کا حوالہ بھی دیا۔ جس میں انہوں نے برملا کہا تھا کہ ’’وزیر اعظم شہباز شریف غیر ضروری طور پر نرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ میں نے حکومت سے کہا ہے کہ عمران خان کو جیل میں ڈالا جائے اور اس سلسلے میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ فوری کارروائی کریں‘‘۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں چلنے والی وفاقی حکومت نے عمران خان کی گرفتاری کا پہلا پلان ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے فوری بعد اپریل میں بنایا تھا۔ اس کا اندازہ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے سے پہلے ہی ہوگیا تھا کہ انہیں نیب کیسز میں گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہ رمضان میں جب سپریم کورٹ کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے لئے قومی اسمبلی کا سیشن چل رہا تھا تو بعض پی ٹی آئی وزرا، اس وقت کی اپوزیشن کے بعض رہنمائوں سے پس پردہ یہ سودے بازی کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اگر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے (جس کا انہیں پورا یقین تھا) تو نئی حکومت، پی ٹی آئی چیئرمین کو گرفتار نہیں کرے گی۔ اس مدعے کو لے کر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے عمل میں تاخیر کی جا رہی تھی۔ تاہم اپوزیشن نے اس سودے بازی سے صاف انکار کر دیا تھا۔ بعد ازاں حسب توقع تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی اور شہباز شریف نے نئے وزیر اعظم کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ تاہم عمران خان اور ان کی پارٹی کے بعض رہنمائوں کی گرفتاری کے پلان کو موخر کر دیا گیا۔ اس کا بنیادی سبب پی ٹی آئی ورکرز کے رد عمل کا خوف تھا۔ ذرائع کے مطابق بعض اتحادی پارٹیوں کے اصرار کے باوجود وزیر اعظم شہباز شریف کا اصرار تھا کہ فی الوقت نئی حکومت کو معیشت، گورننس اور دیگر اہم حکومتی امور پر توجہ دینی چاہئے۔ عمران خان کی گرفتاری سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگا اور سیاسی عدم استحکام بڑھ جائے گا۔ یوں عمران خان کی گرفتاری کا پلان دھرا رہ گیا تھا۔
عمران خان کی گرفتاری کا ایک اور پلان مئی کے اواخر میں ترتیب دیا گیا تھا۔ جب انہوں نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ اس لانگ مارچ کو روکنے کے لئے چوبیس مئی کی رات پی ٹی آئی کے خلاف ملک بھر میںکریک ڈائون کر کے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ تب عمران خان کی گرفتاری کا فیصلہ بھی ہوا تھا۔ لیکن اس پر بھی عمل نہیں کیا جا سکا۔
ناکام لانگ مارچ کے بعد گرفتاری سے بچنے کے لئے عمران خان نے خیبر پختونخوا میں پناہ لے لی تھی۔ جہاں ان کی حکومت ہے۔ اگرچہ وفاقی حکومت نے عمران خان کی گرفتاری کا پلان موخر کر دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود کپتان کو خوف تھا کہ انہیں جیل میں ڈالا جا سکتا ہے۔ خان نے تقریباً ایک ہفتہ صوبہ خیبر پختونخوا میں گزارا اور پشاور ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت کرانے کے بعد ہی بنی گالہ کا رخ کیا۔
اس موقع پر حکومت نے پلان بنایا تھا کہ عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی مدت پوری ہوتے ہی انہیں دھر لیا جائے گا۔ اور انہیں دوبارہ ضمانت کے لئے عدالت کا رخ نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اس دوران وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے اس بیان نے عمران خان کو خوفزدہ کر دیا تھا کہ ان کی حفاظت پر مامور اسلام آباد پولیس ہی انہیں تحویل میں لے سکتی ہے۔ خان کا یہ خوف اس وقت مزید بڑھ گیا۔ جب ان کی رہائش گاہ بنی گالہ کے اردگرد سیکورٹی بڑھادی گئی اور پولیس کو ہائی الرٹ کر دیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود عمران خان کی گرفتاری کے پلان پر عمل نہیں کیا جا سکا۔
اس عرصے کے درمیان پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے چھوٹے موٹے دیگر پلان بھی غیر موثر رہے۔ جبکہ سب سے سنجیدہ پلان اتوار کے روز ترتیب دیا گیا تھا۔ جس کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ کیسے پہلے آصف زرداری اس پلان میں رکاوٹ بنے اور پھر وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے گرین سگنل نہیں دیا گیا۔ حالانکہ ذرائع کے بقول اس بار وزیر داخلہ نے کپتان کو گرفتار کرنے کی تمام تیاریاں مکمل کرلی تھیں۔ جبکہ آئی جی سندھ کو بھی ہدایت دے دی گئی تھی۔
اس ساری صورتحال پر ایک ولاگر نے نون لیگی قیادت کو طعنہ دیا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے لئے اتحادیوں میں اتفاق رائے کا بہانہ کرنے والی وفاقی حکومت سے کوئی یہ پوچھے کہ اپنے دور حکومت میں جب پی ٹی آئی اس وقت کے اپوزیشن رہنمائوں کو بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بن ارہی تھی۔ خاص طور پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی ٹاپ ٹو باٹم قیادت کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا تو کیا وزیر اعظم عمران خان ان گرفتاریوں سے قبل اپنے اتحادیوں سے مشورہ کرتے تھے؟۔