کیس کا فیصلہ ملک کی سیاسی تاریخ کا نقشہ بدل سکتا ہے-فائل فوٹو
کیس کا فیصلہ ملک کی سیاسی تاریخ کا نقشہ بدل سکتا ہے-فائل فوٹو

ممنوعہ فنڈنگ کیس میں نیا پنڈورا باکس کھل گیا

امت رپورٹ:

پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایک نیا پینڈورا باکس کھل گیا ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے جاری تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ تحریک انصاف کے جعلی یا خفیہ بینک اکائونٹس میں پاکستان کے معروف کاروباری گروپس نے بھی کروڑوں روپے چندہ دیا۔ پاکستان پولیٹیکل پارٹیز آرڈر دو ہزار دو اور الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ کے مطابق کوئی بھی سیاسی پارٹی کسی ملکی و غیر ملکی کمپنی سے فنڈنگ نہیں لے سکتی۔

یہ انکشاف ایک ایسے موقع پر آیا ہے۔ جب ایف آئی اے نے پی ٹی آئی کے متعدد صف اول کے رہنمائوں کو تفتیش کے لئے ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا ہے۔ ان میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری، سابق گورنر خیبرپختونخوا شاہ فرمان، سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل اور سیما ضیا سمیت دیگر شامل ہیں۔ یہ تمام رہنما ان گیارہ خفیہ بینک اکائونٹس کو چلاتے رہے۔ جن سے بعد ازاں الیکشن کمیشن میں دوران سماعت پی ٹی آئی نے اظہار لا تعلقی کر دیا تھا۔ اسٹیٹ بینک پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق پی ٹی آئی کے ان گیارہ اکائونٹس میں کروڑوں روپے آئے۔

پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تحقیقات کے دوران ایف آئی اے کو معلوم ہوا ہے کہ ان اکائونٹس میں ملک کے معروف کاروباری گروپ یونس برادرز المعروف ٹبا گروپ (لکی سیمنٹ) اور سیف فارما سیوٹیکل گروپ کے محمد علی چاندنا سمیت پندرہ کاروباری اداروں نے بطور چندہ بھاری رقوم جمع کرائیں۔ جو کہ پاکستان پولیٹیکل آرڈر دو ہزار دو اور الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایف آئی اے نے ان تمام کاروباری گروپس کے ذمہ داران کو طلبی کے نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن میں ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی نے ان گیارہ اکائونٹس سے اظہار لا تعلقی کر دیا تھا۔ جو اس کی ٹاپ لیڈر شپ چلاتی رہی۔ یوں یہ بینک اکائونٹس بے نامی یا غیر قانونی کہلائے۔ جبکہ پی ٹی آئی نے یہ سارا ملبہ اپنے اہم پارٹی رہنمائوں پر ڈال دیا۔ جنہیں اب ایف آئی اے کی تفتیش کا سامنا ہے۔

سابق گورنر خیبرپختونخوا شاہ فرمان کے سوا دیگر تمام پارٹی رہنمائوں نے ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے کے بجائے اپنے صوبے کے متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اٹھارہ اگست کو ایف آئی اے میں پیش ہونے کے بعد شاہ فرمان کا کہنا تھا کہ وہ ملک کے اداروں کا احترام کرتے ہیں اور انہیں کسی بھی فورم پر تفتیش کے لئے بلایا گیا تو وہ پیش ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ایف آئی اے کے نوٹس کے جواب میں پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اور استدعا کی تھی کہ ان کے خلاف ایف آئی اے کو انوسٹی گیشن سے روکا جائے۔ جس پر ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو کہا تھا کہ وہ نوٹس کو درست طریقے سے ڈرافٹ کریں۔ اگلی سماعت پر ایف آئی اے ہائی کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں درست طریقے سے نوٹس تیار کرکے پیش ہوگی۔ غالب امکان یہی ہے کہ اسد قیصر کی درخواست مسترد کر دی جائے گی۔

اسی طرح سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل اور رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر سیما ضیا نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ دونوں نے عدالت عالیہ سے درخواست کی تھی کہ ایف آئی اے کو کارروائی سے روکا جائے۔ درخواست گزاروں کے وکیل کا کہنا تھا کہ جن بینک اکائونٹس کی بنیاد پر ان کے موکلوں کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے۔ انہیں بند کر دیا گیا ہے۔ درخواست گزاروں کے وکیل کی یہ استدعا بھی تھی کہ ایف آئی اے کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کو کالعدم قرار دیا جائے۔ تاہم سندھ ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو تحقیقات جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ جبکہ عمران اسماعیل اور سیما ضیا کے خلاف کارروائی سے فی الحال روکتے ہوئے عدالت نے ایف آئی اے اور دیگر اداروں کو چوبیس ستمبر تک جواب داخل کرنے کا کہا تھا۔

ایف آئی اے کی جانب سے غیر قانونی اکائونٹس کی تفتیش سے متعلق ایک اہم پیش رفت بدھ کے روز ہوئی۔ جب بلوچستان ہائی کورٹ نے قاسم سوری کی درخواست خارج کر دی۔ قاسم سوری بھی اپنی پارٹی کے دیگر رہنمائوں کی طرح ایف آئی اے کے نوٹس کے خلاف عدالت گئے تھے۔ تاہم چیف جسٹس بلوچستان کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ نے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی یہ استدعا مسترد کردی۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تفتیش کے معاملات سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں خود لکھ کر دیا ہے کہ یہ گیارہ بینک اکائونٹس بے نامی یا غیر قانونی ہیں۔ اور یہ کہ یہ پارٹی کی مرضی سے نہیں کھولے گئے تھے۔ اس تحریری اعتراف کے بعد ان بینک اکائونٹس کو آپریٹ کرنے والے پی ٹی آئی رہنما پھنس گئے ہیں۔ اول یہ کہ وہ غیر قانونی اکائونٹس چلاتے رہے۔ دوم، کوئی غیر ملکی یا ملکی کمپنی کسی سیاسی پارٹی کو فنڈنگ نہیں کر سکتی۔ یوں ایک طرح سے یہ کیس ممنوعہ فنڈنگ کے ساتھ منی لانڈرنگ کا بھی بنتا ہے۔ ساتھ ہی ان رہنمائوں کو جعلی اکائونٹس کھولنے کے مقدمے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ پی ٹی آئی تحریری طور پر ان بینک اکائونٹس کو ڈس اون کر چکی ہے۔ ایف آئی اے اپنی کارروائی عمران خان کی ایما پر پی ٹی آئی کی جانب سے دیے جانے والے شواہد کی بنا پر کر رہی ہے۔ جس میں ان بینک اکائونٹس سے اظہارلاتعلقی کیا گیا ہے۔