’’گولیوں کی بوچھاڑ میں شادی ۔ہڑتال کےباعث ولیمہ منسوخ ہوگیا‘ مظہرعباس

مظہر عباس پاکستانی صحافت کا ایک معتبر حوالہ ہیں ، اپنے مدلل، بے لاگ اور غیر جانبدارانہ تجزیوں کی بنا پر ناظرین اور قارئین کے ایک وسیع حلقے کے پسندیدہ صحافی اور تجزیہ کار ہیں ۔۔نامور صحافتی شخصیات کے انٹرویوز کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے ان کے ساتھ ایک طویل نشست رکھی جس میں ہونے والی گفتگو قسط وار پیش کی جارہی ہے ۔ پہلے حصے میں بطور خاص ان کی شادی، ازدواجی زندگی اور اہلیہ کی بیماری اور انتقال پر گفتگو کی گئی ہے، امید ہے کہ امت ڈیجیٹل کے قارئین اس سلسلے کو پسند کریں گے، آپ کی آرا اور مشوروں کا انتظار رہے گا۔ ادارہ

 

س : کچھ اپنی شادی کے بارے میں بتائیے۔ سنا ہے بڑا دلچسپ اور ’’تاریخی‘‘ واقعہ ہے۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں شادی ہوئی اور ہڑتال کی وجہ سے ولیمہ منسوخ کرنا پڑا؟
ج : جی۔ شادی کی کہانی واقعی بہت دلچسپ ہے۔ بنیادی طور پر یہ ارینجڈ میرج تھی جو رشتہ داروں کی وساطت سے طے ہوئی۔ میں کبھی پہلے ارم (اہلیہ) سے ملا نہیں تھا۔ بس مجھے تصویر دکھائی گئی اور نسبت طے ہوگئی۔ ان کی فیملی بڑی قدامت پسند (Conservative) تھی۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ کالج سے گھر اور گھر سے کالج ہی جاتی تھیں، وہ بھی بھائی لاتے لے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اسے شہر کے راستوں کا کچھ پتا نہیں تھا۔ یہ بات مجھے شادی کے بعد معلوم ہوئی تو خیر جب نسبت طے پاگئی تو باہمی رابطے میں یہ طے پایا کہ شادی سے پہلے ایک ملاقات تو ہونی چاہیئے۔ تو وہ جہاں عائشہ منزل پر رہتی تھیں، وہاں ایک کرکٹ گرائونڈ تھا۔ تو ہماری پہلی ملاقات کیلئے اس نے بڑا رسک لیا وہ ملاقات اسی کرکٹ رائونڈ کی پچ (Pitch) پر ہوئی۔
س : اس ملاقات کی کچھ تفصیل۔ کتنی دیر جاری رہی؟
ج : یہ شام کا وقت تھا۔ بس جس طرح ہوتا ہے پہلی ملاقات میں ہیلو ہائے ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسے میں نے بتایا یہ ارم کا اور میرا فیصلہ تھا جس کا علم اس کے گھر والوں کو بھی نہیں ہوا اور میرا خیال ہے اس انٹرویو کے ذریعے پہلی بار انہیں معلوم ہوگا کہ میں نے کوشش کرکے ملاقات تو کرلی تھی۔ پھر بعد میں ہماری شادی جب ہوئی تو کراچی کے حالات بہت خراب تھے۔ یہ 6 فروری 1990ء کی بات ہے۔ 5 فروری کو کشمیر ڈے پر ہڑتال تھی۔ اچھا اکثر یہ ہوتا تھا کہ مجھے شادی کی سالگرہ کا دن یاد نہیں رہتا تھا۔ میں 5 اور 6 فروری کے درمیان اکثر کنفیوژ ہوجاتا تھا تو اس پر ناراضی بھی ہوجاتی تھی۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ پہلے شادی کے لئے 5 فروری کی تاریخ رکھی گئی تھی لیکن کشمیر ڈے کی وجہ سے بعد میں 6 فروری کردی گئی۔ تو اس سے ابہام پیدا ہوجاتا تھا۔ تو یہ نوک جھونک ہماری ساری زندگی رہی کہ کبھی مجھے 5 فروری یاد رہتا تھا تو کبھی 6 فروری۔ لیکن اس میں اہم بات یہ ہے کہ جیسا میں نے بتایا اسے شہر کے راستوں کا بالکل بھی پتا نہیں ہوتا تھا۔ مگر شادی کے بعد جو سال ہمارے ساتھ گزرے ان میں مجھے کراچی کے ان علاقوں کا پتا نہیں تھا جن کا اسے پتا چل چکا تھا۔ تو اس نے اتنی زیادہ Effortsکی ہیں میرے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے۔ ظاہر ہے جس وقت شادی ہوئی تو میں اسٹار اخبار میں کام کرتا تھا۔ بہت معمولی سی تنخواہ تھی۔ منی بس اور کوچز میں آنا جانا ہوتا تھا۔ کبھی کبھار رکشے ٹیکسی میں سفر کرلیا۔

مظہر عباس ، ظفر عباس اور جنرل اطہر عباس اپنی بیگمات کے ساتھ
مظہر عباس ، ظفر عباس اور جنرل اطہر عباس اپنی بیگمات کے ساتھ

س : رہائش کہاں تھی؟
ج : رہائش گلشن اقبال میں تھی۔ اس سے پہلے ہم گلشن معمار میں رہتے تھے۔ شادی کے بعد بھایانی ہائٹس میں شفٹ ہوگئے۔ لیکن ارم نے ہر حال میں خود کو ایڈجسٹ کیا۔ وہ کبھی بھی demanding نہیں رہی۔ غیر ضروری فرمائش کبھی نہیں کی کیونکہ اسے معاشی حالات کا علم تھا۔ اس حوالے سے میں واقعی اس کو بہت کریڈٹ دیتا ہوں۔ پھر جب شادی ہوئی تو میں کراچی پریس کلب کا سیکریٹری تھا۔ میرے سسر ایکسائز ڈپارٹمنٹ میں تھے۔ یہ بھی دلچسپ واقعہ ہے کہ جب رشتہ ہوتا ہے تو لڑکی کے والدین لڑکے کے بارے میں چھان بین کرتے ہیں۔ تو مجھے بعد میں پتا چلا کہ انہوں نے سب سے پہلے میری انکوائری واجد شمس الحسن (سابق ہائی کمشنر اور سینئر صحافی) سے کی تھی جو اس زمانے میں انگریزی اخبار ڈیلی نیوز (Daily News) کے ایڈیٹر تھے۔ تو واجد صاحب نے مجھے فون کرکے بتایا کہ بھائی تمہارے خلاف کوئی انکوائری آئی ہوئی ہے۔ اب میں سمجھا جانے کس قسم کی انکوائری ہے۔ استفسار پر کہنے لگے ’’میاں۔ اب یہ بتائو کہ لڑکی سے ہاں کرانی ہے یا ناں کرانی ہے‘‘۔ خیر پھر زندگی کی تین دہائیاں ہماری ساتھ گزریں۔ جس طریقے سے اس نے ایڈجسٹ کیا اس کی مثال بہت کم کم ملتی ہے۔ ہماری دو بیٹیاں ہی تھیں تو اس نے اپنے آپ کو بالکل میری اور اولاد کی زندگی کے مطابق ڈھال لیا تھا۔ کراچی پریس کلب کا تو میں سیکریٹری تھا، لیکن بعد میں پھر یونین سے میرا تعلق رہا۔ تو انہی یونین اور کلب کے لوگوں سے اس نے بھی اپنا تعلق بنایا۔ یہی وجہ تھا کہ جب اس کا انتقال ہوا تو نہ صرف میرے جرنلسٹ کولیگ بہت بڑی تعداد میں پرسہ دینے آئے بلکہ کلب کا پورا اسٹاف بھی اس طرح آکر رو رہا تھا کہ جیسے ان کے اپنے گھر کا کوئی فرد چلا گیا ہو اور پھر بعد میں بھی وہ بہت یاد کرتے رہے۔ ہماری ایک ملازمہ جو کرسچین تھی تو ارم کا انتقال بھی کرسمس کے دن ہوا، لیکن وہ اپنی سروسز چھوڑ کر آگئی اور اس نے کہا کہ جس طرح باجی ہمیں Look after کیا کرتی تھیں، اسے ہم بھلا نہیں سکتے۔ اسی طرح ہمارے ڈرائیور کے بھی تاثرات تھے۔ پھر گھر کی مرمت وغیرہ کا کام کرنے والے لوگ جو وقتاً فوقتاً آتے تھے جس کو بھی ارم کی موت کا پتا چلا وہ دوڑا دوڑا آیا۔ اس طرح بے شمار لوگ اس کے جنازے میں آئے۔
س : شادی والے دن کے حالات اور ولیمے کی منسوخی والی بات بیچ میں رہ گئی؟
ج : 6 فروری کو جس دن شادی ہوئی اس کے اگلے روز 7 فروری کو ایم کیو ایم نے ہڑتال کی کال دے دی۔ اب جس طرح اس زمانے میں ایم کیو ایم کی ہڑتال پر ایک دن پہلے ہی فائرنگ اور جلائو گھیرائو شروع ہوجاتا تھا تو ہماری شادی گلشن اقبال میں ہی علیگڑھ لان میں ہوئی۔ میں نے شاید ذکر کیا تھا کہ احمد شاہ (صدر کراچی آرٹس کونسل) وسعت اللہ خان (بی بی سی سے منسلک ممتاز صحافی) اور میری کوئی چالیس سال پرانی دوستی ہے، یونیورسٹی کے زمانے سے۔ تو احمد شاہ ہی گاڑی لے کر آئے تھے۔ جب رخصتی ہوئی تو گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔ بعد میں احمد شاہ نے بتایا کہ جب میں تم لوگوں کو ہوٹل چھوڑ کر گیا تو اس کے بعد گھر پہنچتے پہنچتے میری جو حالت ہوئی وہ بہت بری تھی۔ خوف اور سناٹے کا راج تھا۔ تو اس حالت میں ہماری شادی ہوئی اور ہڑتال کی وجہ سے ظاہر ہے ولیمہ بھی منسوخ ہوگیا۔ سات فروری کے دن کوئی 70 کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔
س : وہ جو کہتے ہیں کہ ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے تو آپ کی اہلیہ کا کتنا کنٹری بیوشن تھا۔ یا آپ انہیں کتنا کریڈٹ دیتے ہیں؟
ج : وہ اکثر مذاق میں مجھ سے کہتی بھی تھی کہ میں تمہاری زندگی میں آئی تو اس کے بعد معاشی حالات بہتر ہونے لگے۔ واقعی پھر میں پرنٹ سے الیکٹرانک میڈیا کی طرف آیا۔ اس سے پہلے غیر ملکی خبر رساں اداروں میں جاب ملی۔ اسٹار کے بعد اے ایف پی میں چلا گیا۔ میں اس کو اس حوالے سے خوش قسمت تصور کرتا ہوں بلکہ خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں ۔ پھر اس کی دعائیں بھی میرا سہارا تھیں۔ وہ ان چیزوں کا بہت خیال رکھتی تھی۔ دعائوں کا خاص اہتمام کرتی۔
س : اہلیہ کی بیماری اور انتقال کے بارے میں کچھ بتائیں۔ ان کی موت تو صحافی حلقوں کے لئے بڑی شاکنگ تھی؟
ج : اب سے کوئی 14 برس پہلے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ ابتدائی طور پر ہم اسے کوئی اسکن پرابلم سمجھتے رہے۔ کیونکہ وہ اسکن کی دوائیں لیتی تھی تو کبھی کبھار Itching ہوجاتی تھی تو یہ خیال تھا کہ شاید دوائوں کا اثر ہو ۔ پھر جنرل فزیشن کو دکھایا تو اس نے کہا کہ احتیاطاً لیور ٹیسٹ کرالیں۔ وہ ٹیسٹ کرایا اور پھر ڈاکٹر ادیب رضوی کو دکھایا تو انہوں نے پہلے مرتبہ مجھے بتایا کہ اس کا لیور Damage ہوگیا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ دوا سے کسی طرح کنٹرول میں رہے۔ تو 14 سال اس نے بیماری سے جنگ کی۔ دوا سے کنٹرول تو رہا لیکن ظاہر ہے کہ اسٹرائیڈ مسلسل رہے اور خوراک بھی اسی حساب سے وہ لیتی رہیں۔ مگر اس کے باوجود یہ سارا عرصہ اس نے بھرپور زندگی ہمت کے ساتھ جینے کی کوشش کی۔ وہ کسی نہ کسی بہانے خود کو مصروف رکھتی۔ مجھے یاد ہے کہ ادریس بختیار صاحب کو اس کے ہاتھ کی کڑھی بہت پسند تھی تو وہ اکثر خود بھی فرمائش کرتے اور کبھی وہ بناکر پریس کلب لے آتی۔ کبھی وہ گھر آجاتے۔ تو وہ بہت مختلف اور با ہمت خاتون تھی۔ ہماری فیملی میں اس نے خود کو بہت اچھی طرح ایڈجسٹ کرلیا تھا اور ہر طرح سے میرا ساتھ دیا۔
س : آپ کی پیشہ ورانہ زندگی کے فیصلوں کے حوالے سے بھی بھابھی مشورے وغیرہ دیتی تھیں۔ جیسا آپ نے بتایا کہ ان کا پریس کلب آنا جانا اور صحافیوں سے ملاقاتیں بھی ہوا کرتی تھیں؟
ج : ایک بار ایسا ہوا کہ بیچ میں کوئی دو ڈھائی سال تک بیروزگاری کا پیریڈ رہا، جب میں نے ایکسپریس چھوڑا تھا۔ تو اس دوران محمد مالک پی ٹی وی کے ایم ڈی تھے تو مالک نے مجھے کہا کہ پی ٹی وی جوائن کرلو۔ میں تیار بھی تھا۔ ظاہر ہے بے روزگاری تھی۔ کوئی اور ذریعہ آمدن نہیں تھا، سوائے اس کے کہ کہیں آرٹیکل وغیرہ لکھ کر کچھ کمالیں۔ کیونکہ ساری زندگی اپنی جاب کی سیلری پر ہی گزارا کیا۔ اب نسبتاً بہت اچھی سیلری ہے۔ اس سے پہلے کبھی بہت بری سیلری بھی تھی۔ مگر کبھی بھی صحافت کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ آمدن نہیں رہا۔ تو میں بتارہا تھا کہ محمد مالک نے پی ٹی وی کے لئے بلایا۔ میں نے بادل ناخواستہ ہاں کردی۔ ایگریمنٹ بھی ہوگیا۔ پھر جب میں نے ڈولی (اہلیہ ارم عباس) سے ذکر کیا تو اس نے کہا کہ میرا خیال ہے تم پی ٹی وی پر نوکری نہیں کرپائو گے۔ کیونکہ تمہارا مزاج سرکاری ٹی وی کی نوکری والا نہیں ہے ۔ پھر واقعی میں نے معذرت کرلی۔ وہ جاب نہیں کی۔

مظہر عباس
مظہر عباس

س : تو اہلیہ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ آپ اتنے بڑے صحافی بن گئے ہیں مگر چھوٹا سا گھر بھی نہیں بناسکے۔ جبکہ آپ سے عمر اور تجربے میں بہت چھوٹے چھوٹے صحافی بڑے بڑے گھر بناکر بیٹھے ہوئے ہیں؟
ج : ہاں۔ ہر بیوی کی طرح اس کی بھی خواہش تھی کہ گھر اپنا ہو۔ چاہے چھوٹا سا ہی ہو۔ شاید میں کسی نہ کسی طرح محنت کی کمائی سے گھر بنا بھی لیتا کیونکہ تنخواہ کافی اچھی ہوگئی تھی۔ لیکن ٹریڈ یونین کی مصروفیات نے بھی اس طرح توجہ دینے کے لئے وقت نہیں چھوڑا۔ پھر بھی خدا کا شکر ہے ساری زندگی جو ایک صحافی کی بنیادی تعریف ہوتی ہے کہ اس کی مکمل آمدنی صرف اپنے پروفیشن سے ہو، میں پورے فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میری ساری زندگی، ساری آمدنی صحافت سے رہی۔ یہی میرا واحد ذریعہ معاش ہے۔
س : جس طرح آپ کی والدہ ایک ناگہانی حادثے میں موت کا شکار ہوگئیں اور آپ کے والد کو اپنی اولاد کے لئے ماں کا کردار بھی ادا کرنا پڑا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال آپ کو بھی درپیش ہے۔ جوانی میں اہلیہ کا انتقال اور اس کے بعد بچوں کا خیال رکھنا۔ ساتھ ساتھ بھرپور پیشہ ورانہ مصروفیات بھی۔ اس تجربے کے بارے میں کیا کہیں گے؟
ج : ارم کے انتقال کو 2 برس ہوگئے ہیں۔ میں آج بھی اسے مس کرتا ہوں اور بہت بری طرح مس کرتا ہوں۔ مجھے یاد ہے جب 2020ء میں بارشیں ہوئیں تو ہمارے گھر میں پانی آگیا تو اس نے کس طرح ہتھوڑا لے کر باہر جاکر توڑ پھوڑ کرکے پانی کا راستہ بنایا۔ عام طور پر خواتین یہ کام نہیں کرتیں، مگر اس نے گھر کو پوری طرح سنبھالا ہوا تھا۔ شدید بیماری کی حالت میں بھی۔ تو یہ ساری چیزیں ایک ایک لمحہ یاد آتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے دوستوں اور عزیز و اقارب نے اس کے بعد کہا کہ آپ شادی کے حوالے سے کچھ سوچیں۔ دو سال ہوگئے ہیں۔ تو میں نے یہی کہا کہ میرے خیال میں اب میرے لئے اس حوالے سے سوچنے کو کچھ ہے نہیں۔ جو زندگی اس کے ساتھ گزری ہے۔ اس کی یادیں کافی ہیں۔ جس طرح آپ نے کہا کہ ہماری والدہ کا انتقال ہوا تو والد نے ہمارا بہت خیال رکھا اور واقعی ماں بن کر پالا تھا۔ تو اب میری ذمہ داری میری دو بیٹیاں ہیں۔ اور اس سے آگے کچھ نہیں۔
س : ایک بیٹی کی شادی آپ کی اہلیہ کی زندگی میں ہوگئی تھی؟
ج : انتقال سے کوئی دو ماہ پہلے ارم کو کوویڈ ہوگیا تھا۔ اس کے بعد نیگیٹو بھی ہوگیا۔ ٹھیک ہوکر گھر بھی آگئی۔ اس وقت ہماری بڑی بیٹی کا نکاح ہوچکا تھا۔ تو اس نے کہا کہ میں چاہتی ہوں اس کی رخصتی کردیں۔ ہم سب نے کہا کہ پہلے آپ پوری طرح ریکور کرلیں کیونکہ کمزوری بہت تھی۔ مگر پتا نہیں کیا بات تھی کہ اس نے کہا میں چاہتی ہوں کہ بڑی والی کی رخصتی فوری ہوجائے۔ تو مجھے یاد ہے کہ جلدی جلدی میں ہم نے سب کیا۔ صرف فیملی کے لوگوں کو بلایا تھا۔ وہ آخر وقت میں تقریب میں شریک ہوئی۔ مگر جب رخصتی ہوگئی تو اسے اگلے دن پھر اٹیک ہوا۔ بہت بری صورتحال پیدا ہوگئی۔ اسپتال لے کر گئے تو پھر بدقسمتی سے واپسی نہ ہوسکی۔ مجھے یہ افسوس ہے کہ اس نے اصرار کرکے بیٹی کی رخصتی تو کردی مگر وہ اس کے گھر نہیں جاسکی اپنی زندگی میں۔ اللہ اس کی مغفرت کرے۔ اس کے ساتھ گزرے ہوئے زندگی کے تمام لمحات میرے لئے اثاثہ ہیں۔
٭٭٭٭