دسویں تک والد نےگھر پرپڑھایا،نامورلکھاری احمداقبال

ملاقات۔سجاد عباسی

احمد اقبال: وہ جس کا قلم شرر بار بھی ہے اور شبنم فشاں بھی!
قیامِ پاکستان کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے، بے مثال مصنف کی یادوں کے توشہ خانے سے، امت کے قارئین کے لیے ایک تحفہِ خاص
تعارف
25 مارچ 1937ء کو، محمد علی ہائی اسکول، بیاور، اجمیر شریف کے ہیڈ ماسٹر چشتی احمد خان کے یہاں پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی تو باپ کی خوشی کا ٹھکانا نہیں تھا۔ باپ مشہور شاعر تھا جسے علامہ اقبال سے گہری عقیدت تھی۔ اسی عقیدت میں بیٹے کا نام اقبال احمد خان رکھا ۔ایک مشفق استاد ، علاقے کے واحد گریجویٹ اور اردو و فارسی کے شاعر کی حیثیت سے چشتی احمد خان کی عزت محض علاقے میں ہی نہیں بلکہ پورے غیر منقسم ہندوستان میں تھی جس کی اردو اور فارسی میں لکھی غزلیں اور نظمیں اپنے عہد کے معروف ادبی جریدوں نگار، ساقی، نیرنگِ خیال اور عالم گیر وغیرہ میں شائع ہورہی تھیں۔ وہ اپنے عہد کے معروف شعراء کے ساتھ مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا اور اس کا ذاتی کتب خانہ کئی ہزارکتابوں پر مشتمل تھا۔
جب پاکستان بنا تو اقبال احمد خان کی عمر دس برس تھی۔ہنستا کھیلتا اقبال تب جانتا ہی نہ تھا کہ آنے والے دنوں میں قدرت نے اس کے لیے کیسے کیسے امتحان رکھے ہوئے ہیں۔ہندوستان میں تقسیم کی آگ بھڑکی تو پلک جھپکتے میں برسوں کے رشتے ناتے اور اعتبار خاک ہوگئے۔ اپنا گھر یوں چھوڑنا پڑا کہ جیسے ایک لمحے کا اعتبار نہ ہو۔اس کے بعد ہجرت کی ناقابل یقین صعوبتوں سے گزر کر، آگ اور خون کا دریا عبور کرکے، یہ بچہ جب لاہور اسٹیشن پر باپ کی انگلی تھامے اترا تو اس کے پاس سر چھپانے کو، نہ آشیانہ تھا اور نہ یہ یقین کہ اگلے وقت کا کھانا کب ملے گا۔البتہ اس نے اتنا ضرور دیکھا تھا کہ جب ریل گاڑی رُکی تھی تو باپ نے پلیٹ فارم پر دوسرا قدم بعد میں دھرا تھا، پہلے سجدے میں گرِ کر خدا کا شکر ادا کیا تھا کہ اس نے پاکستان کی مٹی کو دیکھنے اور سجدہ شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی تھی اور پھر اٹھ کر تمام مسافروں اور پلیٹ فارم پر استقبال کے لیے آنے والے لاہور کے شہریوں کے ساتھ مل کر پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے تھے۔لاہور ریلوے اسٹیشن پر، ان نعرے لگانے والوں میں ننھا اقبال احمد خان بھی تھا۔
دس سال کی عمر میں پاکستان پہنچنے والا یہ بچہ اسی دورِ ابتلا و انتشار میں آہستہ آہستہ بڑا ہوتا گیا۔ اس کا بچپن سخت ترین حالات میں گزرا۔ روزگار اور پہچان کی کشمکش نے اس کو وقت سے پہلے زمانے کے نشیب و فراز سمجھا دئیے تھے۔
کون جانتا تھا کہ راہ کی مشکلیں، اس کو کُندن بنارہی تھیں۔زندگی کی سختیوں سے نبردآزما ہونے کے لیےقدرت نے اُسے ایک غیر معمولی ذہن سے نوازا تھا۔ اس کی قوتِ مشاہدہ اور یادداشت بچپن سے ہی حیرت انگیز تھی۔ اسی یادداشت اور مشاہدے کے ذریعے اس نے چھوٹی عمر سے ہی کہانیاں لکھنی شروع کردی تھیں۔ چھوٹا ہی تھا جب مسدسِ حالی، شکوہ ،جواب شکوہ اور شعر العجم حفظ کرلیے تھے اور محفلوں میں سناتا تھا۔
وہ پیدائشی کہانی کار تھا۔ اس کا ذہن ہر روز نئی کہانیاں بُنتا تھا۔ جوں جوں وہ عمر کے مراحل طے کرتا گیا، ویسے ہی اس کا ذہن زندگی کی کہانیوں کی تلاش میں لاہور، راولپنڈی، پشاور اور پھر کراچی کے گلی کوچوں، تعلیمی اداروں، دفتروں اور کتب خانوں میں دیوانہ وار پھرا۔ اس نے زندگی کو ہر رنگ میں دیکھا ۔ محسوس کیا۔اور ان تصویروں کو اپنے ذہن میں محفوظ کرتا گیا۔اس دوران اس کا کہانی کار ذہن اپنی غیر معمولی استعداد کی جھلکیاں بھی زمانے کو دکھاتا رہا۔ آنے والے دور کے راز فاش کرتا رہا۔ابھی وہ کالج میں ہی پڑھتا تھا جب ریڈیو پاکستان سے کُل پاکستان مقابلہ ڈراما نویسی کا اعلان ہوا۔ اس نے دو مختلف ناموں سے دو ڈرامے لکھے۔ ایک انتہائی شگفتہ اور پُرمزاح۔ دوسرا انتہائی الم ناک ۔ اس نے بھائی کے ساتھ مل کر دونوں کی کاپیاں بنائیں اور ڈاک سے بھجوادیں۔ تب ریڈیو پاکستان کے منتظمین کو اس مقابلے کے لیے، سارے پاکستان سے چھپن ڈرامے موصول ہوئے تھے جن میں نامی گرامی مصنفین اور ریڈیو کے سینئیر ڈراما نگار بھی شامل تھے۔ ماہرین کی ایک ٹیم نے تمام ڈراموں کا جائزہ لیا اور پھر نتائج کا اعلان کردیا گیا۔ اس کے لکھے ہوئے دونوں ڈرامے پہلے اور تیسرے انعام کے لیے منتخب کرلیے گئے تھے۔ نوجوان اقبال احمد خان کو یہ خبر ملی تو اس کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ پھر دونوں بھائیوں نے انعامی تقریب کی تیاری کی اور پہلا انعام اقبال احمد خان نے اور تیسرا انعام، چھوٹے بھائی انوار احمد خان نے وصول کیا۔ منتظمین کے لیے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ دو مختلف ڈراما تیکنیکوں سےمرتب، انعام یافتہ ڈرامے ایک ہی لڑکے نے لکھے تھے، جو ابھی کالج میں پڑھ رہا تھا۔ اس کی تحریر کے آگے کُہنہ مشق مصنف ہار گئے تھے۔
لیکن صرف یہی نہیں تھا۔ اقبال احمد خان کا ذہن جس سمت میں چلتا تھا، کامیابی اس کے قدم چُومتی تھی۔وہ سرکاری ملازم ہوا تو ترقی کے لیے مقابلے کے امتحان میں بیٹھا اور پھر پورے متحدہ پاکستان میں پہلی پوزیشن پائی۔ اس دوران اُس کا قلم سے رشتہ قائم رہا۔ جلد ہی اُس کی تحریر کا طلسم پھیلا تو ایک عالم مسُحور ہوگیا۔ اسے مشورہ دیا گیا کہ وہ سرکاری نوکری چھوڑ کر، ادب کو اپنا ذریعہ معاش بنالے۔
70ء کی دہائی میں اُس نے سرکاری نوکری چھوڑ کر، قلم سے مستقل ناطہ جوڑنے کا فیصلہ کیا اور تب احمد اقبال کے نام سے، اردو ادب کی نئی راہوں کا شاہ سوار ہوا۔چند ہی مہینوں میں اس کا نام ڈائجسٹ فکشن کی دنیا میں پسندیدگی اور معیار کی سند بن گیا۔ یک سوئی سے اظہار کا موقع ملا تو اس کے قلم سے کہانیوں کا ایسا سیلِ رواں پھوٹا جس نے ہر پڑھنے والے کو اسیر کرلیا۔ عوام و خواص نے اس کی ہر تحریر کو خوب سراہا۔
اس کے بعد احمد اقبال نے بے تحاشا لکھا اور بے مثال مقبولیت پائی۔سب رنگ، داستان، ست رنگ، ابن صفی میگزین، نئے افق، عمران ڈائجسٹ، عالمی ڈائجسٹ، جاسوسی، سسپنس، نفسیات، پاکیزہ، سرگزشت، داستان، الف لیلہ، اخبار جہاں، رابطہ اور ان جیسے درجنوں رسالوں اور اشاعتوں میں احمد اقبال کے قلم کا فسوُں پھیلا اور پڑھنے والوں کو مبہوت کرگیا۔
اس کے قلم کا جادوسر چڑھ کر بول رہا تھا جب جاسوسی ڈائجسٹ میں اس کی لکھی ہوئی ایک سلسلے وار کہانی ‘شکاری’ چودہ برس تک لگاتار، بنا کسی وقفے کے، ہر ماہ شائع ہوتی رہی۔ یہ کہانی قسط وارجاسوسی ادب کا شاہکار ثابت ہوئی۔باسٹھ لاکھ الفاظ ہر مشتمل اِس کہانی کو اردو زبان کی دوسری طویل ترین اور مقبول ترین قسط وار کہانیوں میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس کے پرستار، کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود، آج بھی ساری دنیا میں موجود ہیں۔ آج بھی لوگ سکندر بخت، رابعہ قاری اور محسن کی دوستی اور دلاور کی مکاری و ملک دشمنی کے سحر سے باہر نہیں آئے ہیں اور انہیں یاد کرتے ہیں۔ لیکن صرف یہی نہیں، احمد اقبال نے اس کے علاوہ بھی بہت سے کہانیاں لکھیں۔ ترجمے کیے اور افسانے تخلیق کیے جو لوگوں کو دیوانہ بنا گئے۔
قلم کاری اور تخلیق کی نصف صدی گزارنے کے باوجود ، احمد اقبال کا قلم آج بھی اتنا ہی شرربار اور شبنم فشاں ہے جتنا کہ روزِ اول میں تھا۔ وہ بچہ جو لاہور ریلوے اسٹیشن پر بے سروسامانی کے عالم میں اترا تھا، آج اردو ادب کی پہچان بن چکا ہے جس کے پاس اب بھی اپنا گھر تو نہیں مگر پھر بھی وہ لاکھوں دلوں میں بستا ہے۔احمد اقبال کی عمر 86 برس ہوچکی ہے ۔ بڑھاپے کے اثرات جسم پر نمودار ہورہے ہیں۔ گھٹنوں کی تکلیف کے باعث اب چلنے میں دشواری ہوتی ہے۔ چند ماہ پہلے ڈاکٹروں نے دونوں آنکھوں میں موتیا اترنے کی بھی خبر دی تھی، جس کا آپریشن ہوچکا ہے۔ مگر اس عالم میں بھی اس کا ذہن اتنا ہی توانا اور زرخیز ہے، جتنا کہ آغازِ سفر میں تھا۔ ادب کی نئی منزلوں کوتسخیرکرنے کے لیے احمد اقبال کا عزم بدستور جوان ہے۔تمام عمروہ لکھنے کے لیے کاغذ قلم استعمال کرتا رہا۔ اب اُس نے، 82برس کی عمر میں شروع کرکے، اردو میں کمپوزنگ بھی سیکھ لی ہے۔جس عمر کے لوگوں کو اپنی زندگی بے مقصد اور بے معنی نظر آنے لگتی ہے، اُسی عمر میں احمد اقبال کی جھّریوں بھری انگلیاں، تیزی سے لفظوں کو کمپیوٹر اسکرین پر اتار رہی ہیں۔ اردو زبان کی سلطنت کو ادائیگی کی نئی وسعتیں عطا کررہی ہیں۔ صرف اِس لیے کہ اردو پڑھنے والوں کی نئی اور پرانی نسل بدستور تخیل و اظہار کی جادو نگری سے جُڑی رہے۔ پڑھتی رہے۔خواب بُنتی رہے۔
ادارہ امت کو فخر ہے کہ اردو فکشن کا یہ بے مثال لکھاری آج  اپنی ان یادوں کو تازہ کررہا ہے، جو قیامِ پاکستان کے دنوں میں اس پر گزری تھیں۔دس سال کا وہ بچہ اب 86 سال کا بوڑھا ہے۔تب بھی وہ گھر سے چلتے ہوئے پاکستان کے لیے نعرے لگارہا تھا اور آج بھی اس کا قلم پاکستان کی عظمت کی کہانیاں لکھ رہا ہے۔ آئیے دیکھیں کہ احمد اقبال آپ کے لیے کیا خاص تحفہ لے کر آئے ہیں۔ (پہلا حصہ)

س: قیام پاکستان آپ کے لڑکپن کا واقعہ ہے۔ پہلی بار کس عمر میں لفظ ’’پاکستان آپ کے کان میں پڑا؟ ہندوستان میں کس علاقے سے تعلق تھا۔ اس وقت حالات کیا تھے؟
ج: ہمارا تعلق اجمیر شریف سے تھا۔ میرے والد شمیم نعمانی محمد علی میموریل ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور اس وقت بھی یعنی 1930ء اور 40ء کی دہائی میں اردو اور فارسی کے خاصے معروف شاعر تھے۔ بعد میں انہوں نے اسکول کی ملازمت ترک کر دی۔ یہ بنیادی طور پر ایک انجمن کا اسکول تھا تو انہیں ملٹری اکائونٹس میں سرکاری ملازمت مل گئی تھی جہاں ظاہر ہے تنخواہ، رہائش اور دیگر مراعات مل رہی تھیں۔ ان کی پہلی تعیناتی جبل پور میں ہوئی۔ پھر دہلی اور میرٹھ کے درمیان ایک قصبہ تھا مراد نگر۔ وہاں ایک اسلحہ ساز فیکٹری میں ملازمت ہوئی جہاں سرکاری کوارٹر بھی مل گیا تو ہم وہاں چلے گئے۔ بڑی محفوظ جگہ تھی۔ کوئی غیر متعلقہ شخص اندر نہیں آسکتا تھا۔ مگر مضافات کی آبادیوں اور دیہات میں غالب آبادی ہندوئوں کی تھی۔ میری عمر اس وقت 10 برس تھی جب میں نے لفظ ’’پاکستان‘‘ سنا وہ یوں کہ والد صاحب اور ان کے کچھ دوست ایک جگہ جمع ہو کر پاکستان کے بارے میں باتیں کیا کرتے تھے اور جب تقسیم کا عمل شروع ہوا تو اسی گھر میں انہوں نے دیوار پر ایک نقشہ خاصا بڑا لٹکا دیا تھا اور اس میں پاکستان کی حدود کو آئوٹ لائن کرتے رہتے تھے۔
س: آپ کو کچھ سمجھ آرہی تھی کہ یہ کیا ہورہا ہے؟
ج: مجھے قطعی علم نہیں تھا کہ اس کا سیاسی پس منظر کیا ہے اور ایسا کیوں ہورہا ہے۔ میری عمر اتنی تھی کہ سیاسی حالات کا فہم نہیں تھا۔ دوسرے ابتدائی تعلیم مجھے والد نے خود دی۔ میں باقاعدہ کسی اسکول میں نہیں گیا۔ والد چونکہ ہیڈ ماسٹر رہ چکے تھے۔ پڑھانا جانتے تھے تو انہوں نے کافی وقت ضائع ہونے سے بچا لیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جب ہم پاکستان (راولپنڈی) آئے تو میں نے براہ راست دسویں جماعت میں داخلہ لیا اور میٹرک کر لیا۔ ہم اگر دہلی یا لاہور جیسے کسی شہر میں ہوتے تو شاید سیاسی ہلچل کا زیادہ نوٹس لیتے اور جلسے جلوسوں سے اندازہ ہو جاتا کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ سیاسی تحریک کیسے چل رہی ہے۔ کون قیادت کررہا ہے۔ کیا مطالبات اور مقاصد ہیں۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہمارے گھر میں اخبار باقاعدگی سے آتا تھا۔ دہلی سے شائع ہونے والا ’’اسٹیٹس مین‘‘ States man۔
س: آپ کو انگریزی پڑھنا آتی تھی؟
ج: انگریزی ہمیں تو کوئی خاص نہیں آتی تھی لیکن والد صاحب نے ہمیں اس کام پر لگا دیا تھا کہ میں شام کو آئوں گا تو سرخیاں (Head lines) سنوں گا۔ تو آہستہ آہستہ میرا اخبار بینی کا شوق اس طرح فروغ پانے لگا کہ پاکستان آنے کے بعد بھی ہمارے گھر میں اخبار اسی طرح باقاعدگی اور ’’تواتر‘‘ سے آتا رہا۔ پہلے سول اینڈ ملٹری گزٹ آتا تھا۔ وہ بند ہو گیا تو پاکستان ٹائمز آنے لگا۔ پھر ایوب خان کی حکومت نے پاکستان ٹائمز کو بھی ضبط کر لیا تو ڈان آنے لگا جو زیادہ عرصہ آتا رہا۔ ساتھ ساتھ اردو اخبار بھی آتے رہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اردو اور انگریزی اخبارات کی صحافت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اردو میں سنسنی خیزی تھوڑی زیادہ ہوتی ہے۔ دوسرے حقائق کی رپورٹنگ ذرا کم ہوتی ہے۔ انگریزی اخبار چونکہ خود حاکم بھی پڑھتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے مشیروں سے تو درست خبریں ملتی نہیں ہیں تو وہ حقیقی صورت حال جاننے کے لیے خود بھی اخبار پڑھتے ہیں۔ ماضی میں یہ رجحان زیادہ تھا اب ذرا کم ہو گیا ہے۔ دوسرا ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ انگریزی اخبار پڑھنے والے احتجاج اور ہنگامہ آرائی سے دور رہتے ہیں۔ بس خبریں پڑھ کر ڈرائنگ روم میں باتیں کرتے رہیں گے۔ خیر ہم تو وہی سرخیاں پڑھ کر ابا کو سنا دیا کرتے تھے۔ تفصیل سے اخبار نہیں پڑھتے تھے۔ تو ہوا یہ کہ آخری دنوں میں جب تقسیم کا عمل قریب آیا تو تھوڑی سی سیاسی کشیدگی ہماری سرکاری کالونی کے اندر بھی محسوس ہونے لگی۔ وہاں ہندو، عیسائی، سکھ، مسلمان سب ملے جلے تھے اور بڑا بھائی چارے کا ماحول تھا مگر اس میں کچھ لوگوں نے اپنے رویے سے مذہبی منافرت کا اظہار کیا۔ جیسے ہی پاکستان کا نام عام ہوا یہ بھائی چارہ نفرت میں بدل گیا۔ حالانکہ اس میں سب ملوث نہیں تھے۔
س: مثلاً کس انداز سے نفرت انگیز کی جارہی تھی؟
ج: مثال کے طور پر ایک ہندو تھا سکسینہ نام کا۔ ہمارے گھروں کی قطار میں صرف اس کے گھر پر ریڈیو تھا۔ جسے سننے کے لیے ہم ان کے دروازے کے ساتھ دیوار سے لگ کر ریڈیو سنا کرتے۔ یہ ریڈیو بیٹری سے چلتا تھا۔ نوے وولٹ کی بیٹری ہوتی تھی تو میں اور بھائی اگر باہر کھڑے ہوتے تو وہ اندر بلا لیتا اور ہم کچھ دیر بیٹھ کر گانے وانے سن کر آجایا کرتے تھے۔ مطلب اچھے مراسم تھے۔ اب پاکستان بننے کا ماحول تھا۔ ایک دن میں اپنی دھن میں چلا جارہا تھا اور ساتھ پاکستان زندہ باد گنگناتا ہوا۔ تو وہ گھر سے نکلا اور مجھے دو جھانپڑ رسید کرتے ہوئے کہا۔ ’’کتے… یہاں بھونکنا منع ہے‘‘ اب یہ بات جب میں نے روتے روتے آکر ابا کو بتائی تو انہوں نے گرما گرم دو جھانپڑ اور رسید کیے کہ تمہیں عقل نہیں ہے کہ تم کہاں کیا بول رہے تھے اور سچی بات یہ ہے کہ عقل نہیں تھی۔ لیکن اس کے بعد کشیدگی یوں بڑھی کہ اندر تو کوئی خطرہ نہیں تھا کہ آبادی سرکاری ملازمین کی تھی جو پرامن لوگ تھے لیکن مضافات کے دیہات سے رات کو ہندو اکٹھے ہو جاتے تھے اور ہر طرف سے نفرت انگیز نعروں کی آوازیں آتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کالونی میں حملہ کر دیں گے۔ میں، میرا بھائی اور والدہ ہر وقت تیار بیٹھے رہتے تھے کہ اگر حملہ ہو تو ہم نکل بھاگیں۔ تو والدہ مجھے اور بھائی کو دو دو تین تین جوڑے پہنا دیتی تھیں کہ پتہ نہیں بھاگیں تو کدھر بھاگیں اور کب تک وہاں رہنا پڑے۔ لیکن حملہ تو خیر نہیں ہوا۔ چونکہ آرڈیننس فیکٹری تھی۔ تو ملٹری مزید منگوا لی گئی تھی مگر رات کو نعرے بازی اتنی قریب آجاتی کہ لگتا تھا کہ اب حملہ ہو جائے گا۔ والدہ بہت دہشت زدہ تھیں کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ ایک دن والد صاحب دفتر سے آئے تو ساتھ گاڑی لے کر آئے اور کہا کہ چلو ہم وقتی طور پر دہلی چلے جاتے ہیں۔ یہ جگہ کچھ غیر محفوظ ہو گئی ہے۔ میں روزانہ دہلی سے یہاں اپنی جاب پر آتا رہوں گا۔ آپ لوگ وہاں میرے ایک دوست کے گھر پر آرام سے رہیں گے۔ والدہ نے صرف پانچ منٹ کے نوٹس پر ایک سوٹ کیس کے اندر ہمارے کپڑے اور ضرورت کی کچھ چیزیں رکھیں۔ زیور ان کے پاس تھا ہی نہیں۔ شاید نقدی جو ہو گی رکھ لی ہو گی۔ بینک وغیرہ کا سسٹم تو تھا نہیں۔ یوں ہم دہلی چلے گئے۔ ایک گھنٹے کا راستہ تھا۔ دہلی میں ہم لوگ قرول باغ میں ٹھہرے۔ یہ مسلمانوں کی آبادی کا علاقہ تھا جس کے چاروں طرف ہندو اکثریت تھی۔ جس گھر میں ہم نے قیام کیا وہ صاحب ابا کے دوست تو تھے ہی۔ ساتھ ساتھ مقامی مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری بھی تھے۔ انہوں نے اپنے گھر کے اوپر سبز رنگ کا پرچم لگا رکھا تھا جو مسلم لیگ کا پرچم تھا چاند تارے والا۔ تب تک ظاہر ہے پاکستان کا پرچم نہیں بنا تھا۔ اب آس پاس کے ہندو اس گھر کو ٹارگٹ کرتے تھے۔ اس پر فائر کرتے یا اسے گرانے کے منصوبے بناتے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ شاید اس جھنڈے کی وجہ سے حملہ ہورہا ہے۔ تو ان صاحب کو سب نے سمجھایا کہ بھائی گھر میں عورتیں، بچے ہیں۔ تم گھر پر جھنڈا نہ لہرائو۔ ٹھیک ہے تم مسلمان بھی ہو۔ مسلم لیگی بھی سب کو پتہ ہے مگر اس کا اشتہار دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کی وجہ سے ہندوئوں نے گھر کو ٹارگٹ بنا رکھا ہے۔ کبھی جب حملے کی خبر ملتی تو مرد حضرات جن میں میرے والد بھی شامل تھے۔ لالٹین لے کر گلی میں پھرا کرتے۔ اس لالٹین پر اگر سبز کاغذ لگا ہو تو مطلب ہوتا تھا کہ سب خیریت ہے اور اگر سرخ کاغذ ہو تو سمجھا جائے کہ حملے کا خطرہ ہے۔
س: پھر یہ گھر حملے سے محفوظ رہا؟
ج: ویسے تو حملہ نہین ہوا مگر ایک دن ایسا ہوا کہ کسی نے اس جھنڈے پر دستی بم پھینک دیا مگر اللہ کا شکر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ جب رات کو فائرنگ ہوتی تو مسلسل ہوتی رہتی۔ گرمیوں کے دن تھے۔ ہم لوگ چھت پر سو رہے ہوتے تھے۔ تو ہم فائرنگ سے بچنے کے لیے سر جھکا کر سیڑھیوں سے آتے جاتے تھے۔ چھت پر تاکہ محفوظ رہیں۔ مگر جب دستی بم پھینکا گیا تو جھنڈے کے ساتھ مکان کا ایک کونا بھی منہدم ہو گیا۔ یہ غنیمت ہے کہ اس کونے کے نیچے والے کمرے میں اس وقت کوئی موجود نہیں تھا۔ تو ان حالات میں ہم نے وہاں شاید کوئی پندرہ سولہ دن یا اس سے کچھ زیادہ گزارے۔ والد صاحب روزانہ ٹرین سے ڈیوٹی پر جاتے اور شام کو واپس آجاتے تھے۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ وہ جب ڈیوٹی سے واپس آئے تو دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر بم دھماکہ ہو گیا۔ سننے میں آیا کہ گورنر جنرل کی ٹرین اس وقت آنے والی تھی یا گزرنے والی تھی۔ اب بم دھماکے کے بعد جب پکڑ دھکڑ ہوئی تو اس میں والد صاحب کو بھی دھر لیا گیا۔ جانے کیا ہوتا مگر انہوں نے آرڈیننس فیکٹری کا شناختی کارڈ دکھایا تو بچت ہو گئی۔ مگر پھر وہ پلٹ کر وہاں نہیں گئے۔ مراد نگر میں ہمارا کوارٹر خالی پڑا رہا۔ ہمیں صرف یہ خبر ملی کہ ہمارے کوارٹر کو جلا کر خاک کر دیا گیا ہے۔ خیر اب ہمارے پاس دنیاوی مال و متاع تو تھا نہیں۔ والد صاحب کے پاس کتابیں تھیں اور ادبی رسائل کی جلدیں۔ ’’عالمگیر‘‘ لاہور سے شائع ہوتا تھا۔ آگرہ سے شاعر۔ ساقی۔ نیرنگ خیال یہ رسائل ابا کے پاس ہر مہینے باقاعدگی سے آتے تھے اور ان میں وہ لکھتے (Contribute) بھی تھے۔ ان رسائل کی ایک ایک سال کی کئی جلدیں تھیں جو جل کر راکھ میں تبدیل ہو گئیں۔
س: آپ بھی اس زمانے میں کچھ پڑھتے تھے؟
ج: میرے اور بھائی کے لیے امتیاز علی تاج کا رسالہ ’’پھول‘‘ آیا کرتا تھا۔ وہ اخباری سائز کا ہفتہ وار رسالہ تھا۔ میرے پاس اس کے سال کے باون شماروں پر مشتمل فائلیں تھیں۔ کئی جلدیں تھیں۔ یہ سب کچھ جل گیا اور اس خزانے کے تباہ ہونے کا والد صاح کو بڑا قلق تھا۔ دہلی کے اس مکان میں جو ایک کمپائونڈ تھا جس میں کوئی آٹھ دس مکان تھے چھوٹے بڑے۔ آبادی مسلمانوں کی تھی ساری۔ وہاں پر ہمارے رہتے ہوئے یہ ہوا کہ مکئی کے بھٹے بیچنے والا ایک شخص آیا۔ یہ بھٹے زہرآلود تھے تو مسلمان بچوں نے خریدے اور کھا لیے۔ تو تین بچے جان سے چلے گئے۔اب سمجھ لیجیے کہ ہماری زندگی باقی تھی کہ ہم نے نہیں کھائے۔ اس کے بعد ہمیں سختی سے منع کر دیا گیا کہ باہر سے کچھ نہیں لینا ہے اور کسی کے ہاتھ سے کوئی چیز نہیں لینی۔ اس کیفیت میں کوئی دو ہفتے گزرے۔ کرفیو لگ جاتا تھا۔ شہر کے ہنگاموں کا تو ہمیں علم نہیں ہوتا تھا کیونکہ ہمارا شہر آنا جانا تھا نہیں۔(جاری ہے)