ہماری قسمت کے فیصلے اور قانون سازی پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی و سینیٹ میں ہوتی ہے۔ یہاں نمائیندے ہمارے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ووٹ بہت بڑی امانت ہوتی ہے۔ اور ملک و ملت کے فیصلوں کے لئے کسی غیر سنجیدہ اور کھلنڈرے اور جنونی کیفیت کی گنجائش نہیں۔
اس اسمبلی میں، جنہیں آپ قانون سازی کے لئے بھیجتے ہیں۔ انہیں قانون کے لئے پیش کئے گئے بل پڑھنا، سمجھنا، اس پر غور و خوض کرنا، اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں اور اس کے ممکنہ اثرات کو گہرائی سے دیکھنا۔ قانونی ماہرین سے مشاورت کرنا۔ کسی تکنیکی شعبے مثلاً طب ، انجینئرنگ ، خلائی سائینس، زراعت، تعلیم، آئی ٹی، فقہ وغیرہ سے متعلق ہو تو اس سے متعلق مستند اور ثقہ افراد و اداروں سے مؤثر مشاورت کرنا، مفاد عامہ کے کاموں میں متعلقہ عوام و خواص سے ربط ضبط و رائے لینا اور ان سب کے ساتھ ایمانداری کے ساتھ خدا کو حاضر و ناظر جان کر بلا تعصب اسمبلی میں رائے کا اظہار کرنا اور بل کے حق میں یا مخالفت میں دلائل دینا اور بل کے لئے ووٹ کا استعمال کرنا ۔یہ سب ان کے فرائض میں شامل ہے۔ یہی ان افراد کا مقصد وجود بحیثیت رکن پارلیمنٹ ہے اور اسی لئے ان کو ایوان میں آپ بھیجتے ہیں اور وہ اس عظیم ذمہ داری کے حوالہ سے عوام اور اللہ کو جواب دہ ہیں۔قومی سطح پر ملت پاکستان کو اس قدر ذمہ دار ملت قرار دیا گیا ہے کہ اس جواب دہی کا ذکر آئین پاکستان کی ابتداء میں ہی کیا گیا ہے۔
لیکن اگر کوئی رکن پارلیمان اجلاس میں شرکت کو ہی ایک کارِ عبث سمجھتا ہو۔سوائے کسی اظہارِ طاقت و گروہی برتری اور "اشتہاری شور و غوغا” کے خاص مواقع کے۔ اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہوسکتی ہے؟ کیا آپ اسے ایوان میں بھیجنے کی زمہ داری اٹھا کر اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوسکتے ہیں؟ اور ایسے اسمبلی سے مفروری پر کاربند فرد کو اسمبلی میں "بھیج” کر کیا آپ ایک ایمان دار انسان کہلا سکتے ہیں؟ پلڈاٹ نے پارلیمنٹ اجلاسوں میں شرکت اور عملی طور پر گفتگو میں حصہ لینے اور قانون سازی میں اپنا کردار ادا کرنے سے گریز کرنے والے افراد کی فہرست جاری کی۔ اس میں بیشتر پارٹیوں کے لئے اعزازات اور تفاخر (بالالقاب) کے مواقع ہے۔ یعنی پڑھتا جا اور مزید شرم سے عاری ہوتا جا۔
پلڈاٹ کے مطابق 2018 کے بعد کے دور میں 342 رکنی قومی اسمبلی کے ایوان میں 174 ارکان مکمل گونگے بنے رہے۔ ایک منٹ بھی نہیں بولے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کی کارروائی سے قطعی لا تعلقی ظاہر کی ان میں پی ٹی آئی کے 84 ،مسلم لیگ (ن) کے 48 اور پیپلزپارٹی کے 23 ارکان شامل ہیں۔ ظاہر ہے یہاں گونگوں کو نہیں اپنے مسائل کے لئے آواز اٹھانے والوں کو منتخب کر کے بھیجنے کی ضرورت تھی۔ "اسٹیج کے فنکار نہیں قانون ساز” منتخب کرنے کی ضرورت تھی۔
امید ہے ہم سب اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں گے اور کسی غائب الوجود، غائب الدماغ، اجلاس گریز اور اسمبلی بیزار فرد کو اسمبلی نہیں بھیجیں گے۔ تا کہ پارلیمنٹ کے وجود کا مقصد پورا ہو سکے اور ہم ایک ذمہ دار معاشرے کی تشکیل کی جانب سفر کا آغاز کر سکیں۔
۔۔۔۔۔
پس نوشت: پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں دو سب سے زیادہ غائب افراد کے نام درج ذیل ہیں۔
1۔ عمران خان
2. نواز شریف
باقی یہ ہے کہ
سنا تھا : "ہم سب آزاد پیدا ہوئے تھے”