طالبان حکومت نے روس کے ساتھ پہلا بین الاقوامی تجارتی معاہدہ کر لیا

افغانستان: طالبان حکومت نے روس سے تیل، گیس اور گندم خریدنے کے معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے میں طے پایا کہ روس افغانستان کو سالانہ 10 لاکھ ٹن پیٹرول اور 10 لاکھ ٹن ڈیزل فراہم کرے گا۔

افغان وزیر تجارت نے کہا کہ معاہدہ غیرمتعین مدت تک ٹھیک چلنے کے بعد طویل مدتی معاہدے میں بدل دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کا یہ پہلا بین الاقوامی تجارتی معاہدہ ہے۔

افغانستان کے وزیر صنعت و تجارت حاجی نورالدین عزیزی نے بتایا کہ طالبان حکومت اور روس کے درمیان رعایتی قیمت پر تیل، گیس، ڈیزل اور گندم خریدنے کا عارضی معاہدہ ہو گیا ہے۔ اور غیر متعین مدت تک ٹھیک چلنے کے بعد اسے طویل مدتی معاہدے میں تبدیل کردیا جائے گا۔

 

روس کے ساتھ اس تجارتی معاہدے سے طالبان کو تنہائی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جو عالمی بینکنگ نظام سے اسے الگ تھلگ کرکے رکھ دینے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

 

معاہدے کے تحت روس افغانستان کو سالانہ 10 لاکھ ٹن پیٹرول، 10 لاکھ ٹن ڈیزل، 5 لاکھ ٹن ایل پی جی اور 20 لاکھ ٹن گندم فراہم کرے گا۔

 

واشنگٹن نے حال ہی میں افغانستان کے مرکزی بینک کے منجمد اثاثوں کے ایک حصے پر مشتمل ایک سوئس ٹرسٹ فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ طالبان نے امریکہ میں منجمد تقریبا ًسات ارب ڈالر کی پوری رقم کو جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ افغانستان کو ایران اور ترکمانستان سے بھی کچھ تیل اور گیس ملے ہیں اور پاکستان کے ساتھ بھی ہمارے مضبوط تجارتی تعلقات تھے جسے ہم وسعت دینا چاہتے ہیں۔

 

طالبان حکومت کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک کی خراب معاشی صورت حال، غربت اور بنیادی اشیائے ضرورت کی مہنگائی کے باعث امارت اسلامیہ کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ معیاری اور سستی اشیائے ضرورت کے در آمد کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

اس سلسلے میں وزیر صنعت و تجارت کی سربراہی میں تشکیل شدہ وفد نے چند ماہ قبل روس کا دورہ کیا۔ روسی فریق کے ساتھ مذاکرات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ روس افغانستان کو آئندہ ایک سال کے لیے بنیادی اشیائے ضرورت گندم اور تیل فراہم کرے گا۔ ان معاہدوں کی بنیاد پر آئندہ چند ہفتوں میں درآمدی سامان کی پہلی آزمائشی کھیپ پہنچے گی۔

امارت اسلامیہ توقع رکھتی ہے کہ مذکورہ اشیاء کے پہنچنے سے عوام کے اقتصادی مسائل اور بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں کی سطح میں کمی، امارت اسلامیہ کی تجارتی تعلقات میں بہتری اور پرائیویٹ تجارتی سیکٹر سے تعاون میں مدد ملے گی۔