شوگر ملز کسانوں کے پانچ ارب روپے دبائے بیٹھی ہیں- خالد حسین باٹھ،فائل فوٹو
شوگر ملز کسانوں کے پانچ ارب روپے دبائے بیٹھی ہیں- خالد حسین باٹھ،فائل فوٹو

’’مطالبات منوائے بغیر اسلام آباد سے نہیں جائیں گے‘‘

نواز طاہر:
کاشت کاروں کو درپیش مسائل حل نہ ہونے پر مطالبات منوانے کے لیے کسانوں کا اسلام آباد میں دھرنا چھٹے روز بھی جاری رہا۔ اس دوران مطالبات کے حق میں نعرہ بازی ہوتی رہی۔ جبکہ حکومت کی طرف سے کسان نمائندوں سے مذاکرات بھی جاری رہے۔ پاکستان کسان اتحاد کے قائد چودھری خالد حسین باٹھ نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالا کے سامنے پہنچنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ جس پر کسی وقت بھی عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کسانوں کے مطالبات نہ صرف وفاقی حکومت بلکہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون کی حکومتوں سے متعلق بھی ہیں۔ پاکستان کسان اتحاد پارٹی، الیکشن کمیشن میں بھی رجسٹرڈ ہے اور اس کے سربراہ خالد حسین باٹھ، سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے صاحب زادے اور مسلم لیگ (ضیا) کے سربراہ اعجازالحق کے خلاف الیکشن بھی لڑ چکے ہیں۔ جس میں انہوں نے چالیس ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس وقت بھی کابینہ کمیٹی نے تمام کسان تنظیموں کے رہنمائوں کو میٹنگ کے لیے اسلام آباد میں مدعو کیا ہے اور ان کا اجلاس جاری ہے۔ تاہم پاکستان کسان اتحاد کے خالد حسین باٹھ نے بتایا ہے کہ انہوں نے اس میٹنگ کا بائیکاٹ کیا ہے جو تاحال جاری ہے۔ لیکن اس میٹنگ میں شریک ہونا خارج از امکان بھی نہیں ہے۔
دھرنے کے دوران ٹیلی فون پر ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے خالد حسین باٹھ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے داخلہ امور کے وزیر رانا ثنااللہ خان سے مذاکرات ہوئے۔ یہ مذاکرات کم اور دھرنا ختم کروانے کی کوشش زیادہ تھی۔ ایک سوال کے جواب میں خالد حسین باٹھ نے بتایا کہ رانا ثنااللہ کا خیال تھا کہ ماضی کی طرح ہم ان کے ساتھ تصاویر بنوائیں گے اور مطالبات منظور ہونے کے وعدے کا لالی پاپ لے کر چلے جائیں گے۔ لیکن ہم نے کسانوں کے مسائل پر کسی سیاسی حمایت یا مخالفت کو آڑے نہیں آنے دینا۔ جب ہم نے رانا ثنااللہ کی میٹھی باتیں قبول نہیں کیں تو انہوں نے اپنے خاص انداز سے دھمکانے کی بات بھی کی۔ مگر ہم دھمکی میں نہیں آئے ہیں اور دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

علاقائی سیاست اور کسانوں کی نمائندگی کے حوالے سے سوال پر خالد حسین باٹھ کا کہنا تھا کہ، حکومت سے کچھ مطالبات تسلیم کروانے میں کچھ پیش رفت ہو بھی سکتی تھی۔ لیکن اصل پرابلم وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے پیدا کیا ہے جو ہمارے مسائل کے حل میں رکاوٹ ہیں۔ وہ کسانوں کے معاملے اپنی سیاسی دکانداری چمکانا چاہتے تھے۔ طارق بشیر چیمہ ہم سے اس لیے نالاں اور ناراض ہیں کہ ہم نے دھرنے سے قبل ان کی مشاورت نہیں لی اور انہیں اپنا لیڈر کیوں نہیں بنایا اور کاشت کاروں کے مسائل پر سیاست کر کے ان کو فائدہ نہیں پہنچا۔ ہم نے اپنے مطالبات پر کسی کی سیاسی دکانداری نہیں چمکانی۔ کاشت کاروں کے مسائل کے حل میں ایک اہم رکاوٹ طارق بشیر چیمہ ہی ہیں۔

چوہدری خالد حسین باٹھ نے بتایا کہ، ہمارے صوبائی حکومتوں سے ایسے جائز مسائل اور مطالبات ہیں، جنہیں حل کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اصل مسئلہ تو اشرافیہ اور مافیا کی کرپشن ہے۔ نہروں کی بھل صفائی نہیں ہونے دی جاتی جس کی وجہ سے کسان کو آبپاشی کے لیے پانی نہیں ملتا۔ جب بھل صفائی کی بات کی جاتی ہے تو اس کے لیے ٹینڈر جاری کر دیے جاتے ہیں اور ٹینڈرنگ میں کرپشن کی جاتی ہے۔ فنڈز خردبرد ہو جاتے ہیں اور نہروں میں بھل صفائی نہیں ہوتی۔ اسی طرح کھاد کی سپلائی کا مسئلہ ہے۔ کھاد فراہم کی جاتی ہے تو ڈیلرز اسے اسٹاک کر لیتے ہیں اور کھاد بلیک مارکیٹنگ کی نذر ہو جاتی ہے۔ یہ کھاد کسان کو طے شدہ نرخ پر نہیں ملتی اور وہ مجبوراً اضافی نرخ پر بلیک میں کھاد خریدتے ہیں۔ اسی طرح شوگر ملوں کے مسائل ہیں، کریشنگ تاخیر سے شروع کی جاتی ہے اور گنے کا کاشت کار ان کے ہاتھوں بھی بلیک میل ہوتا ہے۔ شوگر مل مالک کم قیمت پر گنا خریدتا ہے جس کی ادائیگی بھی اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ جبکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ گنے کا کرشنگ سیزن نومبر کے آغاز میں شروع کیا جائے تاکہ نومبر میں کاشت کار گندم یا دوسری فصل کاشت کر سکے۔ اب بھی شوگر ملوں کے ذمے کسانوں کے پانچ ارب روپے واجب الادا ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ کسانوں کو فوری طور پر یہ ادائیگی کروائی جائے اور سندھ کی طرز پر گنے کے نرخ چار ہزار روپے فی من اور سندھ ہی کی طرز پر دوسرے صوبوں میں گندم کی پرائس بھی مقرر کی جائے۔ مگر صوبائی حکومتیں کسانوں کے مسائل حل نہیں کرتیں۔ ہم نے طے کیا ہے کہ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے تب تک ہم اسلام آباد سے نہیں جائیں گے اور دھرنا جاری رکھیں گے۔