تدوین ۔سجاد عباسی
ہمارے خاندان نے 1952ء میں چک جمال سے منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور کئی ماہ کی پیدل مسافت کے بعدآزاد کشمیر میں موجودہ ضلع کوٹلی کے اہم شہر کھوئی رٹہ پہچنے۔ اور اس کے ایک قریبی گاؤں ڈھیری صاحبزادیاں میں مستقل قیام کر لیا۔ اس موقع پر مقامی باشندوں نے انصار مدینہ کی اخوت کی یادیں تازہ کر دیں اور ان مہاجرین کو رضاکارانہ طور پر اپنے مکانات میں رہنے کی پیشکش کی۔ یہ لٹے پٹے خاندان اس وقت تک ان کے مکانوں ہی میں قیام پذیر رہے۔ جب تک ان کو متروکہ اراضی الاٹ نہیں ہوگئی اور انہوں نے اپنی الاٹ شدہ اراضی پر مکانات تعمیر نہیں کر لئے۔ ہمیں ابھی تک یاد ہے کہ ہمارا گھرانا چار سال تک مقامی میزبانوں کے گھروں ہی میں مقیم رہا اور اس کے بعد ہمیں زمیں الاٹ ہوئی اور مکان تعمیر ہوا تو ہم اس میں منتقل ہوگئے۔ ہمارے ذہن میں اس زمانے کی یادوں کے انمٹ نقوش اب بھی موجود ہیں۔ یہاں آمد کے بعد کا واقعہ ہے۔ میری چھوٹی بہن جن کی شادی ہو چکی تھی۔ ہم والد صاحب کے ساتھ جنہیں ہم ’’پہاپا‘‘ کہتے تھے، بہن سے ملنے ان کی سسرال دوسرے گاؤں کٹہڑا گئے۔ ہم اپنے گاؤں واپس آرہے تھے کہ ان کو راستے میں ایک دنبہ پسند آگیا۔ انہوں نے انیس روپے کا دنبہ خرید لیا اور اسے پیدل چلاتے ہوئے اپنے ساتھ گاؤں ڈھیری صاحبزادیاں لے آئے۔ قریبی دیہات چکھڑانڈے کے گوشت فروش حاجی صدیق نے دیکھا تو اسے دنبہ کافی معقول لگا اور خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ والد نے یہ سودا بائیس روپے میں طے کر لیا۔ اس طرح تین روپے منافع حاصل ہوا۔ جو اس وقت کے لحاظ سے معقول منافع تھا۔ اس طرح کے چھوٹے موٹے کاروبار کرنا والد صاحب کا معمول تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ سستا زمانہ تھا۔ مہنگائی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ لیکن کسی کے پاس روپے پیسے نہیں تھے۔ گائے کا گوشت آٹھ آنے سیر۔ بکرے کا گوشت ایک روپے سیر۔ چالیس من پیاز کی بوری دو روپے کی اور دیسی گھی تین روپے سیر ملتا تھا۔ لیکن ہر کسی میں خریدنے کی سکت نہیں تھی۔ مگر لوگوں میں اللہ پر توکل اور قناعت بہت تھی۔ ان کے پاس روپے پیسے کی بڑی قلت تھی اور اتنی ارزانی کے باوجود وہ ہر چیز خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔
چک جمال سے واپس آنے کے بعد ہمیں کھوئی رٹہ کے گورنمنٹ پرائمری اسکول کی دوسری جماعت میں داخل کرایا گیا۔ اس وقت اسکول کی اپنی عمارت نہیں تھی۔ بچے کھلے میدان میں ٹاٹ پر بیٹھتے تھے۔ اس اسکول سے پانچویں جماعت اس حالت میں پاس کی کہ پہننے کے لئے کپڑوں کا صرف ایک جوڑا تھا اور پاؤں میں جوتا تک نہیں تھا۔ سردی گرمی میں ننگے پاؤں ہی چلنا پڑتا تھا۔ پرائمری کا امتحان 1954ء میں نمایاں نمبروں کے ساتھ پاس کیا اور حکومتِ آزاد کشمیر سے پوزیشن لینے پر تین روپے ایک سال کیلئے وظیفہ وصول کیا۔ یہ وظیفہ آزاد کشمیر کے سابق صدر اور وزیراعظم سردار عبدالقیوم نے ایک نوجوان وزیر کی حیثیت سے دیا۔ جو ان دنوں دورے پر کھوئی رٹہ آئے ہوئے تھے۔ ہم نے انہیں پہلی بار اسی اسکول میں دیکھا تھا۔ ہم نے اسی اسکول سے جو بعد میں گورنمنٹ ہائی اسکول اور اب حاجی الف دین گورنمنٹ ہائی اسکول کھوئی رٹہ کے نام سے مشہور ہے۔ میٹرک کا امتحان دیا اور لاہور ایجوکیشن بورڈ سے نوے فیصد نمبر لئے۔ آزاد کشمیر میں اس وقت کوئی تعلیمی بورڈ نہیں تھا۔ اس زمانے میں 73 اور 74 فیصد نمبر لینے والے پہلی تین پوزیشنیں حاصل کرتے تھے۔ ضلع بھر کے اسکولوں میں ہماری پوزیشن ٹاپ ٹین میں اور اپنے اسکول میں تیسری تھی۔
آزاد کشمیر کے جس خوبصورت اور سرسبز علاقے میں ہم نے بچپن کا زیادہ وقت گزارا۔ وہ ضلع کوٹلی کی مشہور وادی ’’بناہ‘‘ ہے۔ جو خوبصورت سبزہ زار، زرخیزی اور بہتے ہوئے دریا، ندی نالوں، قدرتی چشموں اور مساجد کی وجہ سے پورے آزاد کشمیر میں اپنی مثال آپ ہے۔ کھوئی رٹہ اسی وادی بناہ کا مرکزی شہر ہے۔ جو ضلع کوٹلی میں آج کل سب سے بڑا تجارتی مرکز بن چکا ہے۔ اس کی اسی تجارتی اہمیت کی وجہ سے یہاں زمین کی قیمتیں ناقابل یقین حد تک بڑھ چکی ہیں۔ شہر کے قرب و جوار میں ایک کنال زمین کی قیمت اب دو کروڑ روپے سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ وادی بناہ دو پہاڑوں کے درمیان نہایت حسین منظر پیش کرتی ہے۔ اس کا مشہور شہر تو کھوئی رٹہ ہے۔ مگر اس کے اہم دیہات میں چتر، ججوٹ، سیری، پلانا، دھنہ، بری، بٹل، چڑی گھوڑا، اندھا، بل، گہیائیں، کھوڑ، بھیڑا، دھڑا، بھروٹ گالا، کٹہڑا، بنڈلی، کرجائی، سیدپور، بائیں تھلا، فتح پور دیہاڑی باغ، ڈھوک، ڈھیری صاحبزادیاں، منجوال، بنڈیاں، بھیال، سملہار، ہل مغلاں، بنی بناہ، سیہور، ڈمانڈا اور کٹیسری شامل ہیں۔ یہ وادی سربفلک پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے۔ جہاں چیڑ اور دیگر قیمتی درختوں کے گھنے جنگلات ہیں۔ وادی کے درمیان ایک سرے سے دوسرے سرے تک بہتا دریا ہے۔ جو ’’بان‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ اس وادی بناہ میں وہی درجہ رکھتا ہے جو انسانی جسم کی رگوں میں خون کا ہوتا ہے۔ موسم برسات میں بہتے سینکڑوں چھوٹے بڑے ندی نالے بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں تو یہ اپنے جوبن پر آجاتا ہے۔ اس منظر کو دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ اس کے کناروں پر جمع ہوتے ہیں۔ یہ دریا کوٹلی کے مقام پر دریائے پونچھ میں شامل ہوجاتا ہے۔ ڈیرہ ڈمانڈا وادی بناہ کا سب سے اونچا گاؤں ہے۔ جہاں کی خوبصورت مسجد کے پاس کھڑے ہوکر پوری وادی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
کھوئی رٹہ اسلام آباد سے 160 کلو میٹر اور ضلع کوٹلی سے شمال مشرق میں واقع ہے اور لائن آف کنٹرول سے صرف آٹھ کلومیٹر دور ہے۔ جو مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان عارضی سرحد ہے۔ اس کے شمال میں بلند و بالا کرجائی کا پہاڑ ہے۔ جس کی اونچی چوٹی پر کرجائی کا تاریخی قلعہ ہے۔ جس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کس حکمراں خاندان یا بادشاہ کے دور میں تعمیر ہوا۔ لیکن یہ معلوم ہے کہ یہ قلعہ بڑی خستہ حالت میں ہے۔ اس کا اندرونی حصہ اور بیرونی دیواریں کھنڈر بن چکی ہیں۔ آزاد کشمیر کی کسی حکومت نے اب تک اس قومی ورثے کو محفوظ کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ جو کسی المیے سے کم نہیں۔ حالانکہ یہ سیاحوں کے لیے بہترین پوائنٹ بن سکتا ہے اور اس سے آمدنی ہو سکتی ہے۔
وادی بناہ کرجائی پہاڑ کے دامن میں بہتے بائیس قدرتی چشموں کی وجہ سے مشہور ہے۔ جن کو ‘‘ بائی ناڑے‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ان قدرتی چشموں کی وجہ سے نشیبی علاقے بھیال اور سمل ہار اس قدر زرخیز اور سبزیوں اور دھان کی پیداوار کے لیے اتنے موزوں اور مشہور ہیں کہ پوری وادی کی سبزیوں کی ضروریات صدیوں سے اسی علاقے سے پوری ہو رہی ہیں۔ جس زمانے میں ہم کھوئی رٹہ میں زیر تعلیم تھے۔ اس وقت حالات اتنے اچھے نہیں تھے۔ شہر صرف ایک بازار پر مشتمل تھا۔ پوری وادی بناہ کے اس واحد شہر میں صرف ایک پرائمری اسکول تھا جو کچھ عرصے بعد پہلے مڈل اور پھر ہائی اسکول میں تبدیل ہوا تھا۔ انیس سو ساٹھ تک میٹرک کے طلبا کئی کلومیٹر دور کوٹلی جاکر امتحان دیا کرتے۔ کیونکہ ہمارا اسکول ابھی امتحانی مرکز نہیں بنا تھا۔ میٹرک کی پہلی ہماری کلاس تھی۔ جس نے پہلی بار سالانہ امتحان اپنے اسکول میں دیا تھا۔ لیکن ہم نے سائنس کے پریکٹیکل کوٹلی میں دیئے تھے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے۔ ہم چند کلاس فیلو 26 کلو میٹر کا فاصلہ پیدل چل کر وہاں گئے تھے۔ اس وقت آج کل کی طرح عوامی ٹرانسپورٹ اور کاریں اور موٹر بائیکس ناپید تھیں اور لوگ عام طور پر پیدل ہی سفر کرتے تھے۔ ہم بھی اپنے گھر سے کوٹلی پیدل چل کر گئے تھے اور سائنس کا پریکٹیکل امتحان دینے کے بعد واپس آئے تھے۔
کھوئی رٹہ کا پرائمری اسکول پہلے ایک کھلے میدان میں تھا۔ اس کی کوئی عمارت نہیں تھی۔ بچے کھلے میدان میں کھردرے ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے تھے۔ جب عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ ہوا تو ہم سب طلبا کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ قریب ہی نشیب میں بہنے والے دریا ’’بان‘‘ سے اسکول کے درمیانی وقفے (ہاف ٹائم) کے دوران ہر بچہ ایک ایک پتھر اٹھا کر لائے گا۔ یہ ’’بان‘‘ اسکول سے مشرق میں کوئی ایک فرلانگ کے فاصلے پر تقریباً 150 گز کی اترائی پر نیچے بہتا تھا۔ چنانچہ ہم بچے ایک عرصے تک یہ کام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ان پتھروں سے پرائمری اسکول کے لیے کئی کمرے تعمیر ہوگئے۔ 1958ء میں فیصلہ ہوا کہ ہائی اسکول کے لیے شہر کے مصروف بازار میں زمین لی جائے۔ جگہ کا انتخاب ہو گیا۔ لیکن زمین کے حصول میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ تاہم ہیڈ ماسٹر الف دین کی انتھک کوششوں سے اس میں کامیابی حاصل ہوئی اور موجودہ جگہ پر ہائی اسکول کی عمارت کی تعمیر نقشوں کے مطابق جدید طریقے پر ہوئی۔ چنانچہ نویں اور دسویں کی کلاسیں اس نوتعمیر عمارت میں منعقد ہونے لگیں۔ ہم نے بھی ان کلاسوں میں شرکت کی۔ اب یہ عمارت بہت پرانی اور بوسیدہ ہوگئی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہزاروں طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والی یہ مادر علمی اب نہایت خستہ حالت میں ہے۔ اس سے فارغ ہونے والے ہزاروں طلبہ وزارت اور اسمبلی کی رکنیت سمیت بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور اب بھی ہیں۔ لیکن اس اسکول کو کسی کھلی اور بڑی جگہ منتقل کرکے نئے تقاضوں کے مطابق جدید عمارت کی تعمیر یا دوسری جگہ نئی بلڈنگ بنانے یا موجودہ عمارت کی مرمت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ہمارا جب بھی کھوئی رٹہ جانا ہوتا ہے تو اپنی اس مادر علمی کو دیکھنے ضرور جاتے ہیں۔ وہاں جاکر اب سے ساٹھ ستر سال پہلے کے وہ تمام مناظر آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ جیسے کل کی بات ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اب بھی ایک طالب علم کی حیثیت سے اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔
اس زمانے کی علاقے کی مشہور مذہبی و سماجی شخصیات میں غازی عبدالرحمن، چوہدری خادم حسین، چوہدری چراغ دین، محمد خان ذیلدار، مفتی عبدالکریم، مولانا محمد اشرف، چوہدری الف دین، بابو الطاف حسین، بابو فیروز الدین اچھی طرح یاد ہیں۔ غازی عبدالرحمن برہمن زادے تھے۔ ان کا دھرم ہندو اور نام چونی لال تھا۔ انہوں نے 13 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ سرخ و سپید اور خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ چہرے پر چھوٹی ڈاڑھی۔ شیروانی اور جناح کیپ کے ساتھ ان کی شخصیت مزید جاذب نظر ہوجاتی۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے بڑے متاثر تھے اور احراریوں کی طرح پرجوش تقریر کرتے تھے۔ اردو میں ان کی تقریر سن کہ ایسا لگتا کہ دہلی یا یوپی کا کوئی لیڈر خطاب کر رہا ہے۔ انگریزوں اور ڈوگرہ راج سے آزادی کی تحریک میں ایک نوجوان لیڈر کی حیثیت سے ان کا بڑا کردار رہا۔ ان کی شادی وادی بناہ کی معروف شخصیت چوہدری چراغ دین کی صاحبزادی سے ہوئی تھی۔ غازی عبد الرحمن کھوئی رٹہ کے قریب ایک گاؤں بنڈیاں کے رہائشی تھے۔ چوہدری چراغ دین کھوئی رٹہ شہر کے قدیمی سُنار خاندان کے چشم و چراغ تھے اور علاقے میں بڑی قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ سیاسی اور سماجی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ کہتے ہیں کہ وہ نوجوانی ہی میں آزادی کی تحریک میں متحرک ہو گئے تھے۔ جو اس زمانے میں انگریزی سامراج اور کشمیر میں ظالم ڈوگرہ راج کے خلاف جاری تھیں۔ وہ اس وقت کے مشہور سیاسی لیڈروں شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس سے بڑے متاثر تھے اور ان کی میزبانی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ وہ اس سیاسی حیثیت اور بہترین سنار ہونے کی وجہ سے پوری وادی بناہ کیعوام میں بڑے مقبول تھے۔
چوہدری خادم حسین جاٹ برادری کے رہنما تھے اور برادری کی دلی خواہش ہوتی کہ بلدیاتی اداروں یا اسمبلی میں علاقے کی نمائندگی ان کا ہی کا کوئی نامور سپوت کرے۔ چنانچہ اس زمانے میں چوہدری خادم حسین کو سامنے لایا گیا۔ مفتی عبدالکریم اور مولانا محمد اشرف ہمارے اساتذہ میں سے تھے۔ جن سے قرآن پاک اور اس کاترجمہ ان کے گھر جاکر پڑھا تھا۔ وہ بھی وادی بناہ کے علما میں سرکردہ حیثیت کے حامل تھے۔ چوہدری الف دین تو وادیٔ بناہ کے سرسید احمد خان کا درجہ رکھتے تھے۔ کیونکہ اس علاقے میں علم کا دیا سب سے پہلے انہوں نے روشن کیا تھا۔ جس کی روشنی سے اب پوری وادی بناہ چھوٹے بڑے سیکڑوں سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی ادارے منور ہیں اور ایک علمی کہکشاں کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ چوہدری الف دین کے اس کردار کو وادی بناہ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ ان کے ہزاروں شاگرد اب دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ گورنمنٹ ہائی اسکول کھوئی رٹہ کے پہلے ہیڈ ماسٹر تھے۔ ہمارے زمانہ طالب علمی کے دوران بھی وہی ہیڈ ماسٹر تھے۔ جو بعد میں ڈائریکٹر اسکولز کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ تعلیم کے فروغ میں ان کی خدمات کو وادی بناہ کے عوام ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ حکومت آزاد کشمیر نے بھی ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے اور چند سال قبل اسکول کا سرکاری نام حاجی الف دین گورنمنٹ ہائی اسکول کھوئی رٹہ رکھنے کا سرکاری طور پر اعلان کیا گیا۔ ان دنوں ہم بھی آزاد کشمیر میں تھے اور اس سلسلے میں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کا موقع ملا تھا۔ اس موقع پر ہم نے سالانہ امتحانات میں پہلی پوزیشنز حاصل کرنے والے طلبہ کیلئے مستقل ایوارڈز کا بھی اعلان کیا تھا۔ بابو الطاف حسین اور چوہدری فیروز الدین گجربرادری کے نمایاں رہنما تھے۔
وادی بناہ میں اب بڑی خوشحالی کا دور دورہ ہے۔ اس کی وجہ جہاں ساٹھ کی دہائی میں اس علاقے سے بڑی تعداد میں لوگوں کی برطانیہ ہجرت ہے تو وہیں نوجوانوں کی بڑی تعداد میں بسلسلہ روزگار سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں موجودگی بھی ہے۔ اب پوری وادی بناہ میں بڑے شہروں جیسی بڑی بڑی کوٹھیاں، مکانات، خوبصورت مساجد اور شاندار دکانیں نظر آتی ہیں۔ اب شاید ہی کوئی کچا مکان ملے۔ جبکہ اس زمانے میں غربت اور وسائل کی کمی کے سبب لوگ پختہ مکان بنانے کی سکت نہیں رکھتے تھے اور اس وقت شاید ہی کوئی مکان پکا ملتا تھا۔ اٹھاون میں پوری وادی بناہ میں شدید برفباری ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے وہاں کے کچے مکانات بڑی تعداد میں زمین بوس ہوگئے تھے اور پورا علاقہ برفباری سے ڈھک گیا تھا۔ تاہم اب ایسی صورتحال نہیں رہی۔ کیونکہ آج کل تمام تعمیرات ماہر انجینئرز کی نگرانی میں نقشوں کے مطابق ہو رہی ہیں۔ مساجد کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ جو اپنے خوبصورت گنبدوں اور شیشے کے باریک اور رنگین نقش و نگار کی وجہ سے پوری وادی میں نگینوں کی طرح عجب منظر پیش کرتی ہیں۔ پورا علاقہ مختلف خانقاہوں اور مزارات کے لیے بھی مشہور ہے۔ کھوئی رٹہ سے چھ کلومیٹر جنوب مشرق میں مائی طوطی کا دربار اور ڈھیری صاحبزادیاں میں حضرت بابا علی لشکر کا مزار خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جن کے عرس میں پورے علاقے کے عوام کے علاوہ دور دور سے عقیدت مند شریک ہوتے ہیں۔
کھوئی رٹہ اہم ترین تجارتی شہر ہونے کے علاوہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے لیے بھی مشہور ہے۔ متعدد گورنمنٹ ہائی اسکولوں، دو ڈگری کالجوں کے علاوہ نجی شعبے میں متعدد نامور تعلیمی ادارے ہیں۔ جو ہزاروں نوجوانوں کی علمی پیاس بجھانے میں اپناکردار ادا کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ وادی بناہ میں بروٹ گالا اور سیری میں بھی گورنمنٹ ہائی اسکول اور متعدد پرائیویٹ ادارے تعلیمی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔ گورنمنٹ ہائی اسکول کھوڑ بروٹ گالا کو پورے آزاد کشمیر میں مثالی ہائی اسکول کا اعزاز حاصل ہے۔ جس کا سہرا چوہدری محمد خادم کی انتھک کوششوں اور ان کی تعلیمی کاوشوں کے سر ہے۔ آج کل کے خوشحال کھوئی رٹہ میں صاحب ثروت لوگ دل کھول کر ضرورت مندوں اور محتاجوں کی انفرادی طور پر بھی اور بڑے بڑے خیراتی اداروں کے ذریعے اجتماعی مدد کرتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال کھوئی رٹہ کا عزیز ویلفیئر ٹرسٹ اسپتال ہے۔ جو پورے آزاد کشمیر میں نجی شعبے میں سب سے بڑا اسپتال ہے۔ جسے وادی بناہ کی ایک ممتاز شخصیت سردار عبدالعزیز مرحوم نے کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کرایا۔ یہ آزاد کشمیر میں اسٹیٹ آف دی آرٹ قسم کا جدید ترین سہولتوں سے آراستہ سب سے بڑا اسپتال سمجھا جاتا ہے۔ یہ اسپتال نہ صرف وادی بناہ بلکہ قرب و جوارکے ضلع کوٹلی اور ضلع میرپور کے عوام کو بھی طبی سہولیات فراہم کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ اس کے بانی سردار عبدالعزیز کا 2009ء میں انتقال ہوگیا اور وہ اس اسپتال کو مکمل ہوتے اور غریبوں کی خدمت کرتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔ بہرحال یہ اسپتال ان کے لیے دیگر متعدد خیراتی کاموں کے ساتھ ایک عظیم صدقہ جاریہ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ 1960ء کے زمانے میں کھوئی رٹہ سے بسلسلہ روزگار برطانیہ منتقل ہوئے تھے۔ برطانیہ میں انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا۔ جو کچھ عرصے بعد ان کی محنت شاقہ سے وسیع ہوگیا اور وہ لاکھوں کروڑوں کمانے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں غربت سے امارت کے مقام پر پہنچایا تھا۔ وہ اپنے علاقے میں غریبوں کی مدد کرنا چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے کھوئی رٹہ میں ایک خیراتی اسپتال قائم کرنے کا خیال دل میں ڈال دیا۔ یوں اب یہ کھوئی رٹہ میں آزاد کشمیر کے سب سے بڑے اسپتال کی شکل میں موجود ہے اور ہمیشہ اپنے بانی کی یاد تازہ کرتا رہے گا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭٭
سرخی:
پرائمری امتحان میں پوزیشن لے کر وظیفہ کا حقدار ٹھہرا
ذیلی:
کھوئی رٹہ کے گورنمنٹ پرائمری اسکول کی تقریب میں پہلی بار سردار عبدالقیوم کو دیکھا- میٹرک میں بھی 90 فیصد نمبر لئے- پریکٹیکل دینے کیلئے 26 کلومیٹر پیدل چل کر کوٹلی پہنچے- اسکول کے کمرے تعمیر کرنے کیلئے ایک عرصہ تک پتھر ڈھوتے رہے- نامور صحافی عارف الحق عارف کی داستان حیات