آٹھواں حصہ ۔۔۔ سجاد عباسی
کراچی ہم صرف گھومنے پھرنے اور اس کے تاریخی اور تفریح مقامات، عمارتیں، جزیرے اور سمندر تو دیکھنے نہیں آئے تھے۔ ہمارا مقصد ملازمت اور مزید علم کی تلاش تھی۔ اس لئے چند دن یا شاید ایک ہفتے تک ہم نے پہلے کیماڑی، منوڑا اور بندرگاہ کی سیر کی۔ وہاں اور سمندر کے اندر گہرے پانیوں میں کھڑے بڑے بڑے تجارتی بحری جہازوں کو دیکھا اور پھر ٹاور، بولٹن اور جونا مارکیٹ، صدر اور چڑیا گھر اور کلفٹن کے علاقے اور اس کے ساحل کی خوب گھوم پھر کر سیر کی۔ ان علاقوں کا ٹرام کے ذریعہ سفر بھی کیا۔ ابتدائی چند دن اس سیر و تفریح میں گزرنے کے بعد ہمیں ملازمت کی فکر ستانے لگی۔ کیونکہ ہمارا کراچی آنا اور مستقل رہنا ملازمت ملنے کے ساتھ مشروط تھا۔ ہم اپنے دوست کے ساتھ اسی شرط پر کراچی آئے تھے کہ اگر ہم تین ماہ میں کوئی روزگار حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو واپس آزاد کشمیر چلے جائیں گے۔ چنانچہ روزانہ صبح سے شام تک بسوں اور ٹرام کے ذریعے اور پیدل سفر کر کے مختلف کمپنیوں، سرکاری دفتروں اور اداروں کا چکر لگاتے اور شام کو مایوس واپس لوٹ آتے۔ تلاش کا یہ سلسلہ تقریباً دو ماہ جاری رہا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مایوسی بڑھتی جارہی تھی اور صاف نظر آرہا تھا کہ وعدے کے مطابق واپس ہی جانا پڑے گا۔ یہاں تک کہ مایوسی کی اسی کیفیت میں واپس آزاد کشمیر جانے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن اللہ تعالی کی ذات با برکات کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
اب تک ہم خود ہی روزگار کی تلاش میں روزانہ جگہ جگہ کی خاک چھان رہے تھے۔ اپنے دوست بشیر یا ان کے ماموؤں سے کوئی مدد نہیں لی تھی۔ تاہم جب ہر طرف سے ناکامی صاف نظر آنے لگی تو ہم نے آخری چارہ کار کے طور پر اپنے دوست سے مشورہ اور مدد لینے کا سوچا۔ پہلے مدد اس لئے نہیں لی تھی کہ ہم پر پہلے ہی ان کے کراچی لانے اور اپنے گھر میں رکھنے کے بڑے احسانات تھے۔ ہم ان کو مزید تکلیف دینا نہیں چاہتے تھے۔ پھر ہم نے انہیں اس سلسلے میں اب تک کی جانے والی کوششوں سے آگاہ کیا اور درخواست کی کہ وہ اس سلسلے میں ہمارے ساتھ تعاون کریں اور رہنمائی بھی کریں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم یہاں کے لوگوں، ملازمت دینے والے اداروں اور کمپنیوں سے زیادہ واقف نہیں تھے۔ ہمارے یہ دوست پہلے ہی کراچی کی بندرگاہ پر اس کے ادارے کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) میں مستقل ملازم تھے۔ اس لیے وہ بعض کلیئرنگ فارورڈنگ کمپنیوں اور دیگر اداروں کو جانتے تھے۔ انہوں نے ہماری دکھ بھری کہانی بڑی توجہ سے سنی اور کچھ دیر سوچ بچار کے بعد بتایا کہ ٹاور پر کلیئرنگ فارورڈنگ کی ایک کمپنی کو ٹیلی کلرکوں کی فوری ضرورت ہے۔ ہمیں وہاں جاکر قسمت آزمائی کرنی چاہیے۔ انشاء اللہ کام مل جائے گا۔
دوسرے دن ہم بتائے گے پتے پر ٹاور کے پاس کمپنی کے دفتر پہنچے اور اس کے منیجر سے ملاقات کی۔ ہمارے بتانے پر انہوں نے ہمارا انٹرویو لیا اور رات کی ڈیوٹی میں بطور ٹیلی کلرک کام کرنے کی پیشکش کی۔ جس کو ہم نے قبول کرلیا۔ ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہماری سن لی تھی۔ ہمیں کہا گیا کہ آج رات ہی 8 بجے بندرگاہ پر ڈیوٹی پر آجائیں۔ ہمیں ٹیلی کلرکی کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں تھا۔ ہمیں اس کی بنیادی باتیں بتادی گئیں کہ کیسے کام کرنا ہے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ ہم رات کو بندرگاہ کے اس برتھ پر پہنچ گئے۔ جہاں اس کمپنی کا جہاز کھڑا تھا۔ 8 بجے سے صبح تک جہاز پر سے اترنے والے سامان کا ’’مارکہ‘‘ یعنی نام و پتہ اس مقصد کے کیے تیار کردہ ایک فارم پر درج کرتے رہے۔ یہی ٹیلی کلرکی تھی۔ ہمارے لئے یہ بڑے اطمینان کی بات تھی کہ ہمیں عارضی ہی سہی بہرحال نوکری مل گئی تھی اور اب ہم کراچی رہ سکتے تھے۔ اس کی اطلاع اپنے دوست کو دی تو وہ اور ان کے گھر والے بہت خوش ہوئے۔
یہ کام کوئی ہفتہ بھر چلا اور ایک دن ہمیں بتا دیا گیا کہ اب کام نہیں ہے۔ اس لئے ان کی کمپنی سے ہم خود کو فارغ سمجھیں۔ اس کمپنی کے کام کا دار و مدار ان کے جہازوں کے آنے پر تھا۔ اب ایک بار پھر فکر روزگار نے ہمیں پریشان کرنا شروع کردیا۔ اب ہم بے روزگار ہو گئے تھے اور کچھ سجھائی نہ دیتا تھا کہ کیا کریں۔ کبھی سوچتے کہ شاید اللہ کو یہی منظور ہے اور کبھی یہ سوچ پریشان کر دیتی کہ مزید پڑھنے کا خواب شاید ادھورا رہ جائے۔ یہ فکر اور سوچ اپنی جگہ تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہر بار حوصلہ دیتا کہ ’’میری رحمت سے مت مایوس ہو‘‘۔ جونہی یہ بات ذہن میں آتی۔ ساری فکر اور پریشانی دور ہوجاتی اور ہم پھر سے ملازمت کی تلاش شروع کردیتے۔
چند دنوں کی عارضی ملازمت چھوٹ جانے کا جہاں ہمیں دکھ اور مایوسی تھی۔ وہیں ہمارے دوست، اس کے ماموں اور دوسرے رشتہ دار بھی پریشان تھے۔ وہ ہمارے لئے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ وہ دراصل خود کال ٹیکس اور کے پی ٹی میں سیکورٹی کے شعبے میں چوکیدار کی ملازمت کرتے تھے۔ صرف ہمارے دوست میٹرک ہونے کی وجہ سے کے پی ٹی میں کلرک کے عہدے تک پہنچے تھے۔ اس لئے یہ سب لوگ بے بس تھے۔ ان ہی کے ایک رشتہ دار چراغ عالم تھے۔ جو اسٹنٹ ٹریفک منیجر کابرا جی کے اسٹنٹ (پٹے والے) تھے۔ یہ عہدہ کے پی ٹی میں چیئرمین اور ٹریفک منیجر اور ڈپٹی ٹریفک منیجر کے بعد چوتھا سب سے بڑا عہدہ تھا۔ چراغ عالم ایک بڑے افسر کے خدمتگار ہونے کی وجہ سے پورے ایسٹ وہارف (کیماڑی) کے عملے میں جانے پہچانے جاتے تھے۔ ان کو جب ہماری بے بسی کا علم ہوا تو ایک دن انہوں نے ہمیں بلایا اور پوچھا نوکری کا کیا ہوا؟ ہم نے ان کو اب تک کی تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کچھ دیر تک اس معاملے پر غور کیا اور پھر دوسرے دن صبح کو تیار ہوکر دفتر آنے کے لئے کہا۔ ہم ان کے دفتر کو جانتے تھے۔ جو برتھ نمبر ایک کے پاس تھا۔ اس لئے کہ ہم فارغ وقت میں بندرگاہ کی ایک ایک جگہ اور اس کی تمام برتھوں سے واقف ہو چکے تھے۔ ہم دوسرے دن وقت سے پہلے ہی ان کے دفتر کے سامنے چراغ عالم اور کابرا جی کی آمد کے انتظار میں ایک خالی بنچ پر بیٹھ گئے۔
کابرا جی بندرگاہ کے ایسٹ وہارف کے پارسی انچاج افسر تھے۔ ان کا پورے کے پی ٹی میں بڑا رعب دبدبہ تھا۔ ان کا معمول تھا کہ وہ ٹھیک آٹھ بجے نیٹی جیٹی پل کے پاس گھاس بندر کے گیٹ سے بندر گاہ میں داخل ہو تے اور پیدل چلتے ہوئے ایسٹ وہارف کی 17 برتھوں پر جہازوں کی پوزیشن اور کے پی ٹی کے عملے کی موجودگی اور ان کے کام کے جائزے کے بعد اپنے دفتر میں داخل ہوتے۔ ان کی اس معمول کی چیکنگ بڑی مشہور تھی اور اس کا ہر جگہ ذکر کیا جاتا تھا۔ عملے پر بھی ان کا بڑا رعب تھا۔ اس کی وجہ سے ہر جگہ ہر فرد اپنا کام اپنے وقت پر شروع اور ختم کرتا۔ وہ ایسٹ وہارف کے بلا شرکت غیرے بڑے افسر تھے۔ بندرگاہ کا دوسرا حصہ ویسٹ وہارف تھا۔ جو اس کے مغرب میں سمندری چینل کے سامنے تھا۔ اس حصے میں 14 یا 15 جہازوں کے لنگر انداز ہونے کی گنجائش تھی۔ اس کا بھی ایک انچارج افسر تھا۔ جس کا عہدہ کابرا جی کے عہدے کی طرح اسسٹنٹ ٹریفک منیجر کا تھا۔ اب ایسے افسران کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ ان دو اعلیٰ افسروں کے علاوہ ہر وہارف پر دو دو چیف انسپکٹرز اور ہر برتھ کے شیڈ کا ایک ایک انسپکٹر اور ان کے ماتحت دو دو تین تین سپروائزرز اور پھر چیکرز اور ٹیلی کلرک ہوتے تھے۔ بندرگاہ پر کے پی ٹی کے کام کا یہی ڈھانچا تھا۔ آج کل تو عہدوں اور عملے کی بھرمار ہے۔ کیونکہ ہر سیاسی حکومت نے اپنے اپنے دور میں گنجائش سے بہت زیادہ عہدے اور اسامیاں قائم کر کے اپنی اپنی جماعتوں کے ہزاروں افراد کو بھرتی کیا ہوا ہے۔
کابرا جی ساڑھے دس بجے کے قریب معمول کے جائزے کے بعد دفتر آگئے۔ چراغ عالم بڑے سلیقے کے آدمی تھے۔ کابرا جی کے اسٹنٹ ہونے کی وجہ سے ان کا اچھا خاصا اثر رسوخ تھا۔ ہر شخص ان کا خیال اور احترام بھی کرتا تھا۔ چراغ عالم کچھ دیر بعد موقع دیکھ کر پریشانی کے عالم میں ان کے پاس گئے تو کابرا جی نے ان کے چہرے کی پریشانی بھانپ لی اور پوچھا آج کیوں پریشان ہو؟ چراغ عالم نے انہیں بتایا۔ میرا ایک پڑھا لکھا عزیز بے روزگا ہے۔ دو تین ماہ سے جگہ جگہ دھکے کھا رہا ہے۔ کہیں کامیابی نہیں ہو رہی ہے۔ اس لئے پریشان ہوں۔ انہوں نے پوچھا بچہ کہاں اور اس کی تعلیم کیا ہے؟ چراغ بھائی نے ساری تفصیل بتاتے ہوئے ہمیں ان کے سامنے پیش کر دیا۔ اور کہا کہ یہ میرا عزیز ہے۔ پڑھا لکھا ہے۔ میٹرک کیا ہوا ہے۔ بیروزگار ہے۔ اس کو ڈیلی ویج کلرک رکھ لیا جائے۔ انہوں نے یہ بات بڑے اچھے انداز میں کی کہ کابرا جی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے ہمارا نام پوچھا اور پھر تحریری امتحان لیا۔ جس میں اردو سے انگریزی کے کچھ جملے اور پاکستان کے مختلف علاقوں کے نام اور پتے شامل تھے۔ وہ در اصل لکھنے پڑھنے کی ہماری قابلیت کا جائزہ لینا چاہتے تھے کہ یہی ان کے کام کی ضرورت تھی۔ اس کے بعد انہوں نے مختصر سا زبانی انٹرویو لیا اور مطمئن ہونے پر ہمارا نام کے پی ٹی کے ڈیلی ویجز ٹیلی کلرکوں کی فہرست میں شامل کر نے کا حکم دے دیا۔ جو بندرگاہ پر ملازمت کی پہلی سیڑھی تھی۔ اس طرح چراغ عالم کی ترکیب اور انداز گفتگو کامیاب رہا اور کے پی ٹی میں ہماری ملازمت کا دروازہ کھل گیا تھا۔ ہمیں دوسرے روز صبح سویرے دن کے کام کی بکنگ کے لئے ٹائم کیپر آفس میں کام پر آنے کی ہدایت کے ساتھ کام کی تفصیل اور رات اور دن کے کام کے اوقات سے بھی آگاہ کردیا گیا۔
کراچی میں روزگار اور وہ بھی سرکاری ملازمت ملنے پر ہم بہت خوش تھے کہ ہمیں اب ایک مستقل نوکری مل گئی تھی اور نظر آرہا تھا کہ مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق بھی ان شاء اللہ پورا ہوگا۔ کراچی آنے کے بعد اس سے زیادہ خوشی پہلے کبھی نہیں ملی تھی۔ ہم خوش خوش واپس گھر گئے اور بشیر بھائی کو خوش خبری سنائی تو سب کے چہرے مسرت سے کھل اٹھے۔ ہماری خوشی کی اصل وجہ یہ تھی کہ اب ہمیں واپس کشمیر جانے کی بجائے کراچی ہی میں آگے بڑھنے کی جدوجہد کا موقع مل گیا تھا۔ ہمارے شہر کے بڑوں کی یہ بات سچ ثابت ہو گئی تھی کہ کراچی شہر ایک ایسی مہربان ماں کی مانند ہے۔ جو علاقے، زبان، مذہب اور عقیدے کی تفریق کے بغیر اپنے پاس آنے والے ہر چھوٹے بڑے کو اپنی گود میں پناہ دیتی ہے۔ کراچی نے ہمیں بھی اپنی گود میں جگہ دے کر قبول کر لیا تھا اور اب یہ ہماری محنت، صلاحیت اور قابلیت پر منحصر تھا کہ شہر کی سہولتوں سے کس قدر فائدہ اٹھاتے اور آگے بڑھتے ہیں۔ اس ملازمت کے ملنے پر ہماری خوشی کی ایک اور وجہ بھی تھی کہ اب رات کو ملازمت کے دوران پڑھائی کے لئے بندرگاہ پر بجلی کی روشنی کا بندوبست بھی ہو گیا تھا۔ جو ہمیں کے پی ٹی کے کوارٹر میں میسر نہیں تھی۔ یہ روشنی جہازوں پر سامان چڑھانے اور اتارنے والے کرینوں کے نیچے نصب بجلی کی لائٹس کی شکل میں تھی۔ اب ہم رات کو اپنی کتابیں بھی پڑھ سکتے تھے۔ اس روشنی نے بعد میں ہمیں بڑا فائدہ پہنچایا۔
ہمیں باقاعدہ بریفنگ دی گئی تھی کہ ڈیلی ویجز ٹیلی کلرک کی حثیت سے کام کرنے کا کیا طریقہ ہے اور کام کس طرح مل سکتا ہے۔ ڈیلی ویجز کلرک کے پی ٹی کے ان نوجوانوں پر مشتمل شعبہ تھا۔ جو پاکستان کے مختلف علاقوں، آزادکشمیر اور علاقہ غیر سے میٹرک کر کے روزگار کی تلاش میں کراچی آئے تھے اور کے پی ٹی میں تحریری اور زبانی انٹرویو دینے کے بعد بھرتی ہو گئے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کا ایک تحریری امتحان ہوتا اور اس امتحان کو پاس کرنے والے مستقل ملازمت میں لے لئے جاتے۔ ان کو جنرل آؤٹ ڈور کلرک کہا جاتا۔ اسی میں سے چیکر اور بندرگاہ پر دوسرے کام کرنے والے ذمہ داران بنتے۔ ان ڈیلی ویجز کلرکوں کو دن یا رات کی شفٹوں میں کام اپنی باری پر ملتا تھا۔ اگر بندرگاہ پر جہاز زیادہ لنگر انداز ہوں اور کام مستقل ملازمین سے زیادہ بھی زیادہ افراد کا ہو تو ڈیلی ویجز کلرکوں کو فہرست میں سے ’’پہلے آئیے اور پہلے پائیے‘‘ کی بنیاد پر کام دیا جاتا تھا۔ اس طرح ڈیلی ویجزکو کبھی دو دن اور کبھی تین دن کے وقفے کے بعد کام ملتا تھا۔ باری آنے کا مطلب یہ تھا کہ دن کے کام کیلئے صبح 6 بجے آکر لائن میں لگ جائیں اور پھر انتظار کریں۔ اگر کوئی نیا جہاز لنگر انداز ہو اور کام شروع کر دے تو قطار میں سے ٹائم کیپر بکنگ کرتا۔ جتنے کلرکوں کی ضرورت ہو تی، وہ لے لیے جاتے اور باقی کو اگلے دن آنے کا کہہ دیا جاتا۔ خواہ انہیں انتظار کرتے کرتے چھ آٹھ یا دس گھنٹے ہی کیوں نہ ہوجاتے۔ ہمیں اب یاد نہیں کہ ہم ایک مہینے میں کتنے دنوں تک اس طرح گھنٹوں انتظار کر کے واپس جاتے رہے۔ ہر ماہ کبھی پانچ دن، کبھی دس دن، کبھی پندرہ دن کام ملتا تھا اور معاوضہ دن میں پانچ روپے اور رات میں پانچ روپے آٹھ آنے تھا۔ ہمیں پہلے دن چھ گھنٹے انتظار کے بعد کام ملا تھا۔ جو ہم نے بڑی محنت کے ساتھ انجام دیا۔ یہ کام ہم پرائیویٹ کمپنی میں سیکھ چکے تھے۔ اس لئے کام آتا تھا۔ اس کے باوجود یہ ابتدائی دن بے حد مشکل اور تکلیف دہ تھے۔ کبھی مہینے میں چھ دن کام ملتا۔ بہت زیادہ کام آتا تو پندرہ دن بھی مل جاتا۔ اس عارضی ملازمت سے روزگار کا مسئلہ حل ہو گیا تھا۔ ساتھ ہی کرینوں کی روشنی میں پڑھائی میں بھی مدد مل رہی تھی۔ (جاری ہے)