فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسٹیل ملز سے 20 ارب روپے کا سامان چوری کیا گیا

عمران خان:
اسٹیل ملز میں گزشتہ برسوں کے دوران چوری کیے گئے سامان کی مالیت بیس ارب تک جا پہنچی ہے۔ اس بڑے اسکینڈل کی تحقیقات کو جلد مکمل کرنے کیلئے ایف آئی اے نے ملز کے اندر ہی عارضی دفتر قائم کرلیا ہے۔ ایف آئی اے ٹیم نے کئی روز تک پورا دن یہاں گزارا اور متعلقہ افسران سے گھنٹوں پوچھ گچھ کی گئی۔ ریکارڈ سامنے رکھ کر قلمبند کئے جانے والے بیانات انکوائری کا حصہ بنا لئے گئے ہیں۔ تحقیقات کے دوران مختلف متعلقہ ڈپارٹمنٹ اور دفاتر میں آمدروفت بند کردی گئی۔ اسٹیل ملز میں سیکورٹی ڈپارٹمنٹ کے افسران اور دیگر متعلقہ حکام کی ملی بھگت سے سامان چوری کرنے کی درجنوں وارداتیں رونما ہوتی رہیں۔ تاہم ایک واردات ایسی بھی کی گئی جس میں کئی درجن غیر متعلقہ افراد گھنٹوں رات کے اندھیرے میں دندناتے رہے اور 10 کے قریب ٹرک ساتھ لائے۔ ان ٹرکوں میں اسکریپ، اسٹیل، آئرن وغیرہ لا د کر باہر منتقل کیا جاتا رہا۔ اس واردات میں ان ٹرکوں نے کئی چکر لگائے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر نہ پولیس کو اطلاع دی گئی اور نہ ہی اعلیٰ حکام کے کانوں پر جوں رینگی۔ بلکہ اس معاملے کو دبا دیا گیا۔ ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم سے منسلک ذرائع کے مطابق سیکورٹی چوکیوں، گوداموں اور گیٹس پر نصب کیمروں کے ڈیٹا سے چھان بین کی جا رہی ہے۔ جبکہ یہاں تعینات اہلکاروں اور متعلقہ ڈپارٹمنٹ کے انچارجز کے بیانات بھی قلمبند کرلئے گئے ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصولہ اطلاعات کے مطابق وزارت صنعت و پیداوار کی تحریری درخواست پر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کی جانب سے ایف آئی اے کراچی زون کو اسٹیل ملز سے اربوں روپے مالیت کا سامان غائب ہونے کی تحقیقات کا ٹاسک رواں برس جولائی کے آخر میں دیا گیا۔ جس پر ابتدائی کارروائی کے بعد ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی میں ایک انکوائری رجسٹرڈ کی گئی اور اس پر ایک 5 رکنی ٹیم قائم کی گئی۔ مذکورہ ٹیم میں ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر،4 انسپکٹر اور سب انسپکٹرز شامل ہیں۔ انکوائری رجسٹرڈ کئے جانے کے وقت ایف آئی اے افسران کی جانب سے حکام بالا کو آگاہ کیا گیا کہ ماضی میں بھی اسٹیل ملز میں اربوں روپے کی کرپشن پر درجنوں انکوائریاں ریکارڈ نہ ملنے اور اسٹیل ملز حکام کی جانب سے کی جانے والی ٹال مٹول کے نتیجے میں سود مند ثابت نہیں ہوئیں۔ اس لئے ایف آئی اے کو مطلوبہ ریکارڈ کی بروقت دستیابی کو ممکن بنایا جائے۔ اس پر ایف آئی اے حکام کی جانب سے وزارت صنعت و پیداوار سے رابطہ کیا گیا۔ جہاں سے اسٹیل ملزحکام کو ایف آئی اے کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنے اور تعاون فراہم کرنے کیلئے پاکستان اسٹیل ملزکے فوکل پرسن ریاض حسین منگی کو ذمے دارسونپی گئیں۔ ایف آئی اے ٹیم کی جانب سے انکوائری میں تحقیقات کا آغاز اسٹیل ملز کی ایک ورکرز ایسوسی ایشن کی ان معلومات کو سامنے رکھ کر کیا گیا۔ جس کو بنیاد بناتے ہوئے وزارت صنعت و تجارت کی جانب سے ایف آئی اے کو تحقیقات کیلئے کہا گیا تھا۔ ورکرز ایسوسی ایشن کی جانب سے فراہم کی گئی تحریری معلومات میں ملز سے چوری کی وارداتوں، افسران کی ملی بھگت اور طریقہ کار کے حوالے سے کئی اہم انکشافات کئے گئے اور اس میں کئی وارداتوں کی پوری تفصیلات تاریخ، وقت کے ساتھ منسلک کی گئیں۔ ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کی مذکورہ ٹیم کی جانب سے رواں برس اگست کے آغاز میں اسٹیل ملز حکام سے متعلقہ ریکارڈ طلب کرنا شروع کیا گیا۔ اس ضمن میں فوکل پرسن پی ایس ایم ریاض حسین منگی کو ایک تفصیلی مراسلہ ارسال کیا گیا۔ جس میں 2018ء سے اب تک 5 برسوں کے دوران اسٹیل ملزکے دروازوں، سیکورٹی چوکیوں، گوداموں اور مختلف ڈپارٹمنٹ پر تعینات سیکورٹی اہلکاروں کے نام، ولدیت، شناختی کارڈ، سروس ریکارڈ اور موبائل نمبرز طلب کئے گئے۔ اس کے ساتھ ہی ان تمام مقامات پر نصب کیمروں کی وڈیو فوٹیجز بھی طلب کی گئیں۔ جن مقامات سے سامان چوری کرنے کی وارداتیں کی جاتی رہیں۔ ان کے اطراف نصب کیمروں کے غیر فعال ہونے کی وجوہات بھی مانگی گئیں۔ اس کے ساتھ ہی 5 برسوں میں ملز میں آنے اور نکلنے والے میٹریل کا ریکارڈ بھی طلب کرکے جانچ پڑتال شروع کی گئی۔
ایف آئی اے کی تحقیقات سے منسلک ذرائع کے بقول گزشتہ 4 ماہ کی تحقیقات میں کئی اہم ثبوت اور شواہد حاصل کر لئے گئے ہیں اور اب انکوائری پر حتمی سفارشاتی رپورٹ مرتب کی جا رہی ہے۔ جس پر لیگل ڈپارٹمنٹ کی ماہرانہ رائے اور ملوث ملزمان پر لگنے والی دفعات کا تعین کرکے مقدمہ کی منظوری کیلئے رپورٹ ڈائریکٹر زون کے توسط سے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو پیش کردی جائے گی۔ ذرائع کے بقول گزشتہ ہفتے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ندیم خان، سب انسپکٹر عظمیٰ طالب، سب انسپکٹر رائو عامر اور دیگر پر مشتمل ایف آئی اے کی 5 رکنی ٹیم مسلسل کئی روز تک 8 سے 10 گھنٹے پاکستان اسٹیل ملزمیں گزار چکی ہے۔ ایف آئی اے ٹیم کی جانب سے پروڈکشن پلانٹ اور دیگر مختلف ڈپارٹمنٹس میں تفصیلی چھان بین کی گئی اور یہاں سے متعلقہ ریکارڈ بھی تحویل میں لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اب تک سامنے آنے والی ریکارڈ کی چھان بین کے بعد سوالنامے تیار کر کے سی ایف او عادل شیخ، راجیش کھتری، شکیل، ڈاکٹر محمود شاہ اور طارق سمیت دیگر متعلقہ افسران کے تفصیلی بیانات قلمبند کرکے انکوائری فائل کا حصہ بنائے گئے۔ اس دوران پروڈکشن پلانٹ اور ڈپارٹمنٹ کے دروازے بند کردیئے گئے اور کئی گھنٹوں تک آمدروفت روک دی گئی۔ تحقیقات کیلئے اسٹیل ملز گیسٹ ہائوس پر بھی ایف آئی اے ٹیم پہنچی اور تفصیلی جائزہ لیا۔ اس دوران یہاں سے اخراجات اور بجٹ کا ریکارڈ بھی ضبط کیا گیا۔ جبکہ یہاں موجود جام داد خان، جاوید ملک نامی افسران اور اہلکار سے تفصیلی پوچھ گچھ کرکے ان کے بیانات قلمبند کئے گئے ۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول چونکہ شہر کے مرکز سے طویل مسافت کی وجہ سے صدر ایف آئی اے دفاتر سے ریکارڈ کے حصول اور چھان بین کیلئے روز گلشن حدید میں واقع اسٹیل ملز آنا جانا ممکن نہیں۔ اس لئے اسٹیل ملز کے آفس بلاک میں ایک کمرہ عارضی دفتر کے طور پر ایف آئی اے افسران کے بیٹھنے کیلیے مختص کرلیا گیا ہے۔ جہاں قریب رہائش پذیر ایف آئی اے اہلکار آکر بیٹھ سکتے ہیں اور ایف آئی اے دفاتر میں موجود اپنے افسران سے رابطے میں رہ کر انہیں مطلوبہ مواد وہیں منگوا کر چھان بین کر سکتے ہیں اور اسی وقت یہ مواد ایف آئی اے ٹیم کو ارسال کرکے اس پر مزید ہدایات لے سکتے ہیں۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول ابتدائی طور پر 10 ارب روپے مالیت کے سامان کی خورد برد سے تحقیقات شروع کی گئیں۔ تاہم اب یہ مالیت 20 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ کیونکہ ایک ہی واردات میں اربوں روپے کا سامان اسٹیل ملز سیکیورٹی کی موجودگی میں نکالا گیا۔ انکوائری میں مذکورہ بالا افسران سمیت چیف ایگزیکٹو آفیسر اسٹیل ملز نامز ہیں۔ جو ممکنہ مقدمہ میں شامل ہوں گے۔