واشنگٹن(امت نیوز) امریکی سائنس دانوں نے انسانی دماغ کے خلیوں کی چوہوں کے دماغوں میں پیوندکاری کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جن چوہوں کے دماغ میں انسانی دماغ کے خلیے داخل کیے گئے تھے، انہوں نے جڑ پکڑ لی ہے اور وہ پھیل رہے ہیں۔
چھ ماہ کے بعد جب ان کا دوبارہ معائنہ کیا گیا تو پتا چلا کہ کچھ چوہوں کے دماغ کی آدھی جگہ انسانی دماغ کے خلیات لے چکے ہیں۔
چوہوں کی کھوپڑی میں انسانی دماغ اگانے کا مقصد انہیں کسی سائنس فکشن کردار کی طرح انسانوں کی مانند سوچ بچار کرنے کے قابل بنانا نہیں بلکہ دماغی بیماریوں کا مطالعہ کرنا، وجوہات جاننا اور ان کا علاج ڈھونڈنا ہے، ان میں آٹزم اور شیزوفیرنیا جیسے امراض شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ دنیا کی سب سے پیچیدہ اور پراسرار چیز ہے۔ اس کی کچھ بیماریاں ایسی ہیں جو صرف انسانوں کو ہی لگتی ہیں۔ انہیں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانی کھوپڑی سے باہر ان کی نشوونما اور مطالعہ کیا جائے۔
ڈاکٹر سرجیوپاسکا نے، جو اس اہم اور پیچیدہ تحقیق میں شامل ہیں، حال ہی میں سائنسی جریدے نیچر میں اپنی تحقیق کے کچھ پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں حاصل ہونے والی حالیہ کامیابیوں نے امید کی نئی راہیں روشن کی ہیں۔
طب کے شعبے میں بیماریوں اور ان کے علاج سے متعلق لیبارٹری تجربات کے دوران جانوروں کا استعمال عام ہے۔ یہ تجربات ایسے جانوروں پر کیے جاتے ہیں جن کا ردعمل انسان سے ملتا جلتا ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ تر ایک خاص نسل کے چوہے استعمال ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر سرجیو پاسکا نے بھی انسانی دماغ کے خلیوں کی افزائش کے لیے چوہوں کا ہی انتخاب کیا لیکن اس مقصد کے لیے چوہوں کے ان بچوں کو چنا گیا جن کی عمر صرف دو یا تین دن تھی کیونکہ اس عمر میں چوہے کا دماغ بن رہا ہوتا ہے اور کسی دوسرے دماغ کے خلیوں کی وہاں پیوند کاری اور افزائش کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔
اس تحقیق کے لیے انسانی دماغ کے اصل خلیوں کی بجائے اس سے گہری مشاہہت رکھنے والے خلیے استمال کیے گئے جنہیں سائنس کی اصطلاح میں آرگنائڈز کہا جاتا ہے۔ یہ خلیے اصل خلیوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور انہی کی طرح کام کرتے ہیں۔
انسانی دماغ کی سب سے بیرونی تہہ، یاداشت، سوچنے، سیکھنے، استدلال اور جذبات جیسی چیزوں میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس مطالعے کا تعلق بھی دماغ کی بیرونی تہہ سے ہے، جس میں خرابی سے آٹزم اور شیزو فیرنیا جیسے عوارض پیدا ہوتے ہیں۔