نیب ترامیم کے بعد386 کیسز احتساب عدالتوں سے واپس ہوئے۔فائل فوٹو
نیب ترامیم کے بعد386 کیسز احتساب عدالتوں سے واپس ہوئے۔فائل فوٹو

1947 سے آج تک سیاستدانوں کو کرپٹ قرار دیا گیا۔سپریم کورٹ

اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے کیس میں سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ 1947 سے آج تک سیاستدانوں کو کرپٹ قرار دیا گیا، ہرایک ذمے دار کا احتساب ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نیب قانون میں تبدیلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

دورانِ سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین نیب واپس آنے والے ہیں ریفرنسز کو کہیں نہ بھیجیں تو بس بات ختم ہو جاتی ہے، اس پر پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان کے کیل خواجہ حارث نے کہا کہ جتنی تیزی سے ریفرنس واپس ہو رہے ہیں، کہیں اور نہیں جا رہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ نیب سے پوچھیں گے واپس آنے والے ریفرنس کہاں جا رہے ہیں۔ کیس کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہر ریجن میں کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہیں واپس آنے والے ریفرنس دوبارہ دائر ہوں یا کسی اور عدالت میں جائیں، ہر ایک ذمہ دار کا احتساب ہونا چاہیئے، ریفرنسز،ریکارڈ ،شواہد ،معلومات اور دستاویزات سب محفوظ ہونا چاہیئں، ہر چیز کی فہرست مرتب کر کے محفوظ کی جائے۔

دوران سماعت وکیل مخدوم علی خان نے اعتراض اٹھایا کہ نیب سارا ریکارڈ جمع نہیں کروارہا، نیب صرف احتساب عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں جمع کروا رہا ہے، احتساب عدالتوں کے فیصلوں پراعلی عدلیہ نے کیا فیصلے کیے، بتایا نہیں جا رہا، نیب سپریم کورٹ سے جو چھپا رہا ہے وہ بہت اہم ہے۔

دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بالاخر ثابت کریں گے قانون تو ہے لیکن سزا نہیں، اخبارات، دیگر حلقوں میں بات چلتی رہی ہے کچھ طبقات پر نیب پراسیکوشن نہیں ہونی چاہیے، ان طبقات میں کاروباری لوگ بھی ہیں، 1947 سے آج تک سیاستدانوں کو کرپٹ قرار دیا گیا، سپریم کورٹ کی کارروائی اس عمل کو بیلنس کرنے کیلئے ہے، لیکن یہ بحث پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم قانون ڈیزائن کرکے پارلیمنٹ کو کیسے بھیج سکتے ہیں؟ کل کوئی شہری آ جائے گا کہ دس روپے کرپشن پر بھی نیب تحقیقات کرے، یہ سلسلہ کہیں تو رکنا چاہیے، ہم پارلیمان کے امور میں کیوں اور کیسے مداخلت کر سکتے ہیں؟ نیب قانون کیا ہونا چاہیے؟ یہ سپریم کورٹ کیسے تعین کرسکتی ہے؟ آپ کی دلیل ہے کہ نیب قانون بدنیتی پر مشتمل ہے، ہم پارلیمنٹ کو قانون ڈیزائن کرکے کیسے دیں؟

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں پارلیمنٹ کو قانون ڈیزائن کرکے دیتی رہی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چیئرمین نیب واپس آنے والے ریفرنس کو کہیں نہ بھیجے تو بس بات ختم ہوگئی۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جتنی تیزی سے ریفرنس واپس ہو رہے ہیں کہیں اور نہیں جا رہے۔

جسٹس اعجازِ الااحسن نے کہا کہ ہوسکتا ہے نیب قانون میں ترمیم کی ضرورت موجودہ ہو، عدالت کے سامنے سوال ہے کہ یہ ترامیم کس کی ضرورت ہیں؟ یہ ترامیم ایک کلاس کے تحفظ کیلئے کرنے کا کہا جارہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 1947ء میں بھی احتساب کا قانون موجود تھا، آئیڈیا یہ ہے کہ درست کام کیا جائے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے واپس ہونے والے نیب ریفرنسز کا ریکارڈ محفوظ بنانے کا حکم دیا اوران تمام ریفرنس کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔ سپریم کورٹ نے ہدایت دی کہ تمام ریکارڈ کو ڈیجٹلائز بھی کیا جائے۔ مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔