تینوں جماعتوں کو خوف ہے جے یو آئی کے حاجی غلام علی اپنے میئر بیٹے کے ذریعے ترقیاتی کام کرا کے پشاور کے حلقوں پراثرانداز ہوں گے، فائل فوٹو
 تینوں جماعتوں کو خوف ہے جے یو آئی کے حاجی غلام علی اپنے میئر بیٹے کے ذریعے ترقیاتی کام کرا کے پشاور کے حلقوں پراثرانداز ہوں گے، فائل فوٹو

’’خیبر پختونخوا کا نیا گورنر صوبائی حکومت پر لٹکتی تلوار ہوگا‘‘

امت رپورٹ:
جے یو آئی کے رہنما حاجی غلام علی، خیبرپختونخوا کے نئے گورنرکے طور پر ذمے داری سنبھالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس تقرری سے جہاں کئی ماہ بعد صوبے کو گورنر مل جائے گا۔ وہیں وفاقی حکومت، پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت پر چیک رکھ سکے گی۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی حکومت کو یہ خوف بھی لاحق رہے گا کہ اگر گورنر راج لگایا گیا توصوبے پرجے یو آئی کی گرفت مضبوط ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں اس کا اثر آئندہ انتخابات پر بھی پڑے گا۔ جے یو آئی کے اندرونی ذرائع کے مطابق نئے گورنر کے لئے اگرچہ ایک سے زیادہ نام زیر غور ہیں۔ تاہم ان میں حاجی غلام علی سب سے آگے ہیں۔ واضح رہے کہ میڈیا میں اس حوالے سے خبریں چل چکی ہیں کہ حاجی غلام علی خیبرپختونخوا کے متوقع نئے گورنر ہیں۔ جے یو آئی کے ایک رہنما کا ان خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے یہاں تک کہنا تھا کہ پارٹی قیادت اصولی طور پر حاجی غلام علی کا نام فائنل کرچکی ہے۔ رہنما کے بقول اگر کوئی انہونی نہیں ہوتی تو خیبرپختونخوا کے آئندہ گورنر حاجی غلام علی ہوں گے۔ سابق سینیٹر غلام علی، فیڈریشن چیمبر آف کامرس کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ جبکہ ان کے صاحبزادے زبیر علی اس وقت پشاور کے میئر ہیں۔

یاد رہے کہ اپریل میں پی ٹی آئی کے گورنر شاہ فرمان کے مستعفی ہونے کے بعد سے خیبرپختونخوا میں یہ منصب خالی تھا۔ اے این پی اور جے یو آئی کے مابین ہونے والی رسہ کشی اس کا بنیادی سبب تھا۔ تاہم گزشتہ ماہ اے این پی اپنے مطالبے سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہوگئی۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں جے یو آئی قیادت کی براہ راست اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی کے ساتھ بات چیت ہوئی تھی۔ جے یو آئی کے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے ایمل ولی آخر کار خیبرپختونخوا کی گورنر شپ جے یو آئی کو دینے پر آمادہ ہوگئے۔ ذرائع کے بقول معاملہ کسی ناراضگی کے بجائے خوش اسلوبی سے طے پایا۔

پچھلے ساڑھے تین برس سے جے یو آئی کی جدوجہد کے نتیجے میں ہی عمران خان کو گھر بھیجنا ممکن ہوا۔ جے یو آئی رہنما

 

جے یو آئی خیبرپختونخوا کے ایک رہنما کے مطابق نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ بلوچستان کی گورنر شپ پر بھی ان کا پارٹی کا حق بنتا تھا۔ کیونکہ دونوں صوبوں کی اسمبلیوں میں دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے مقابلے میں ان کے ارکان کی تعداد زیادہ ہے اور پھر یہ کہ دونوں ایوانوں میں ان کی پارٹی کے اپوزیشن لیڈر ہیں۔ جے یوآئی رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ پچھلے ساڑھے تین برس سے جے یو آئی کی جدوجہد کے نتیجے میں ہی عمران خان کو گھر بھیجنا ممکن ہوا۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے بس کی یہ بات نہیں تھی۔ اس قربانی کے باوجود جے یو آئی کو مخلوط حکومت میں قابل ذکر حصہ نہیں ملا۔ اس وقت وفاقی حکومت میں جے یو آئی کے محض چار وزیر ہیں۔ اس کے مقابلے میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے تیس، تیس وزرا اور مشیران ہیں۔ رہنما نے بتایا کہ اس صورتحال میں جے یو آئی کے کارکنوں کا پارٹی قیادت پر بڑا دبائو ہے اور وہ شکوہ کر رہے ہیں کہ ساڑھے تین برس کی قربانیوں کا صلہ انہیں کیا ملا؟ اب جب لڑائی کا وقت آرہا ہے تو پھر بھی وہی سامنے کھڑے ہیں۔ ذرائع کے مطابق جے یو آئی نے یہ سارے معاملات اتحادی پارٹیوں کے اجلاس میں رکھے ۔ تمام اتحادیوں نے جے یو آئی کے موقف کو درست تسلیم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اتحادیوں کے اتفاق سے خیبرپختونخوا میں جے یو آئی کا گورنر لگایا جارہا ہے۔

نئے گورنر، صوبائی حکومت کو ٹف ٹائم بھی دے سکیں گے

ذرائع نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کی گورنر شپ کے لئے جے یو آئی کی قیادت مختلف ناموں پر غور کر رہی تھی۔ قبل ازیں جے یو آئی کے رہنما منظور آفریدی کو یہ منصب دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ منظور آفریدی، جے یو آئی کے مرکزی خازن ہیں۔ گزشتہ انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے مابین اتفاق کے بعد انہیں نگراں وزیراعلیٰ کے طور پر بھی نامزد کیا گیا تھا۔ تاہم بوجوہ منظور آفریدی نگراں وزیراعلیٰ نہیں بن سکے تھے۔ منظور آفریدی کے گورنر شپ کی دوڑ سے باہر ہونے کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ پارٹی قیادت کا خیال ہے کہ سابق سینیٹر حاجی غلام علی ایک سیاست دان ہونے کے ساتھ کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ لہٰذا وہ اس منصب پر بیٹھ کر زیادہ بہتر طریقے سے معاملات کو دیکھ سکیں گے۔
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے جے یو آئی کے ایک رہنما سے جب استفسار کیا گیا کہ ان کی پارٹی کا گورنر آنے سے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت پر کیا اثر پڑے گا؟ تو ان کا کہنا تھا ’’سب سے بڑا فرق تو یہ پڑے گا کہ اس وقت افغان سرحد پر جو تنائو ہے، اس میں کمی آئے گی۔ اسی طرح صوبے میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے عمل دخل پر قابو پایا جاسکے گا۔ دوسری جانب نئے گورنر، صوبائی حکومت کو ٹف ٹائم بھی دے سکیں گے۔ جیسا کہ بطور گورنر عشرت العباد، پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کو ٹف ٹائم دیتے رہے‘‘۔ اس رہنما کے بقول جے یو آئی کے نئے گورنر کے آنے سے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو یہ خوف بھی لاحق رہے گا کہ اگر گورنر راج آگیا تو پھر صوبے میں جے یو آئی کی گرفت مضبوط ہوجائے گی اور اس کے نتیجے میں وہ آئندہ الیکشن میں کلین سوئپ بھی کرسکتی ہے۔

موجودہ صورتحال میں ایمرجنسی اور گورنر راج، دونوں کی بڑی گنجائش ہے۔

جے یو آئی رہنما کی توجہ جب اس طرف دلائی گئی کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد کسی صوبے میں گورنر راج لگانا آئینی و قانونی طور پر بہت مشکل ہے۔ تو ان کا کہنا تھا کہ جس طرح پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا حکومت نے وفاق کے خلاف مورچہ لگا رکھا ہے اور اس کے رہنما مسلسل باغیانہ بیانات دے رہے ہیں۔ اس طرح کی صورتحال کسی بھی صوبے میں وفاق کو مداخلت کی اجازت دیتی ہے۔ وفاق کے ساتھ یہی رویہ پنجاب حکومت نے بھی رکھا ہوا ہے۔ جہاں تک اٹھارہویں ترمیم کے بعد گورنر راج سے متعلق آئینی و قانونی پیچیدگیوں کا تعلق ہے تو اس پر قانونی ماہرین سے مشاورت ہوتی رہی ہے ۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں ایمرجنسی اور گورنر راج، دونوں کی بڑی گنجائش ہے۔
ادھر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے امیدوار عبدالولی کاکڑ کو گورنر بلوچستان کے عہدے کے لئے نامزد کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم اتحاد میں شامل تمام پارٹیوں نے گورنر بلوچستان کے عہدے کے لئے عبدالولی کاکڑ کے نام پر اتفاق کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا کی گورنر شپ ملنے کے بعد جے یو آئی خیر سگالی کے طور پر اس منصب کے مطالبے سے دستبردار ہوئی۔ تاکہ مخلوط حکومت میں اتحاد برقرار و مضبوط رہے۔ اتفاق رائے سے فیصلہ ہونے کے بعد جے یو آئی نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کو گورنر کے معاملے پر آپس میں معاملات طے کرنے کا کہا تھا۔

بی این پی کے عبدالولی کاکڑ کو گورنر شپ کے لئے نامزد کردیا گیا ہے

ذرائع کے مطابق زیادہ امکان یہ تھا کہ بلوچستان کا نیا گورنر محمود اچکزئی کی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے ہوگا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا وفاق میںکوئی وزیر نہیں ہے۔ اسی طرح روایت رہی ہے کہ بلوچستان میں اگر وزیراعلیٰ بلوچ ہو تو گورنر پشتون ہوتا ہے۔ جیسے سندھ میں وزیراعلیٰ، سندھی ہو تو گورنر اردو اسپیکنگ لگایا جاتا ہے۔ تاہم اب اطلاعات ہیں کہ بی این پی کے عبدالولی کاکڑ کو گورنر شپ کے لئے نامزد کردیا گیا ہے۔ یوں بلوچ وزیراعلیٰ کی موجودگی میں ایک پشتون گورنر کی روایت برقرار رکھی گئی ہے۔ تاہم اس رپورٹ کے فائل کئے جانے تک یہ ابہام باقی تھا کہ بی این پی، بلوچستان کی گورنر شپ سے متعلق اپنے مطالبے سے واقعی دستبردار ہوگئی ہے یا نہیں۔