آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر تکنیکی اور قانونی ڈیڈلاک سامنے آیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی خواہش ہے کہ وہ بدھ کی شام ترکیہ روانگی سے قبل تقرر کا فیصلہ کرلیں تاہم ایک سینئر آرمی آفیسر کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کی وجہ سےقانونی اور تکنیکی مسائل سامنے آرہے ہیں اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس حوالے سے آگے چل کر عدالت سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی لندن میں ملاقات کے بعد یہ عندیہ دیا گیا تھا کہ آرمی چیف کی تقرری سنیارٹی کے اصول کے تحت عمل میں لائی جائے گی اور سینئر ترین فوجی افسر کو چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کیا جائے گا تاہم موجودہ چیف جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ایک افسر کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ اس پیشرفت میں حائل ہو گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق ایک تجویز یہ بھی ہے کہ وزیراعظم اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مذکورہ افسر کی مدت ملازمت میں توسیع کر دیں اور اس حوالے سے حکومت کی اتحادی جماعتوں سے مشاورت بھی جاری ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق نئے آرمی چیف کا تقرر 25 نومبر کو عمل میں آ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ قانون کے مطابق جی ایچ کیو سے مجوزہ ناموں کی سمری وزارت دفاع کو ارسال کی جاتی ہے۔وزارت دفاع اپنی سفارشات کے ساتھ یہ سمری وزیراعظم ہاؤس کو ارسال کرتی ہے جس پر وزیراعظم اپنا صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سینئر ترین افسران میں سے کسی ایک کا انتخاب بطور چیف آف آرمی اسٹاف کرتے ہیں تاہم اب تک اس سمری پر پیش رفت سامنے نہیں آ سکی اس کی وجہ تکنیکی اور قانونی وجوہات بتائی جاتی ہیں ۔
ذرائع کے مطابق سینئر افسر کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کی صورت میں سامنے آنے والی تکنیکی رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے عدالت سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔واضح رہے کہ آئین کے تحت وزیراعظم کسی بھی افسر کی مدت ملازمت میں توسیع کر سکتے ہیں تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ محکمہ کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے نوٹیفیکیشن یا وزیراعظم کی جانب سے توسیع کے حکم میں سے کون سا آپشن استعمال کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں ۔ان کے جانشین کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے عہدے پر تقرر ہونا بھی باقی ہے۔