عمران خان:
ایف آئی اے کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ امیگریشن کے کرپٹ افسران اور اہلکار انسانی اسمگلنگ کا نیٹ ورک چلانے میں سرگرم رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے درجنوں غیر ملکی افراد پاکستانی جعلی دستاویزات پر سعودیہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کو بدنامی اٹھانا پڑی۔ ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کراچی نے اس اسکینڈل کی تحقیقات میں عبوری چالان کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی ہے۔ جس میں اب تک 4 ایسے افسران و اہلکار نامزد کیے گئے ہیں۔ جن کے حوالے سے شواہد سامنے آچکے ہیں۔ جبکہ کیس پر مزید تفتیش جاری ہے اور مزید امیگریشن افسران اور اہلکاروں کیخلاف ثبوت اکٹھے کیے جا رہے ہیں
۔ ایف آئی اے امیگریشن پر ڈپٹی ڈائریکٹرز کے طور پر ڈیوٹی انجام دینے والے افسران کی بھی چھان بین کی جا رہی ہے۔ کیونکہ ماتحت افسران کی وارداتوں پر ان کی لاعلمی سوالیہ نشان ہے۔ اس سے قبل کراچی ایئرپورٹ سے ہی عمرہ کی آڑ میں سعودی عرب جاکر سلپ ہونے والے درجنوں افراد کا اسکینڈل گزشتہ برس سامنے آیا تھا۔ جسے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر امیگریشن نے نہ صرف دبا دیا تھا۔ بلکہ اس میں ملوث کئی افسران کو وقتی طور پر ایئرپورٹ سے ہٹانے کے بعد واپس ڈیوٹیوں پر تعینات کردیا گیا تھا۔
’’امت‘‘ کو ذرائع سے موصول دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ اسکینڈل پر اس وقت ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کراچی میں انکوائری نمبر 702/2022 درج کرکے تحقیقات شروع کی گئیں۔ جب 28 ستمبر 2022ء کو قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے امیگریشن کراچی ایئرپورٹ کی جانب سے ایک مراسلہ ارسال کیا گیا کہ رواں برس مارچ اور ماہ اپریل کے دوران درجنوں مشکوک شہریوں کو ایف آئی اے امیگریشن کراچی کے کائونٹرز پر تعینات ایف آئی اے افسران اور اہلکاروں نے امیگریشن کلیئرنس دے کر سعودی عرب جانے والی پروازوں پر سوار ہونے کی اجازت دی۔ جنہیں بعد ازاں سعودی عرب پہنچنے پر حکام کی جانب سے واپس پاکستان ڈیپورٹ کردیا گیا۔ مراسلے میں مزید بتایا گیا کہ ابتدائی انکوائری میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ ان درجنوں مشکوک افراد کو ڈیپورٹ ہونے کے بعد خاموشی سے کراچی ایئرپورٹ سے ہی چھوڑ دیا گیا۔ حالانکہ قانونی تقاضے پورے کرنے کیلئے ان کو مزید کارروائی کیلئے ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کے حوالے کیا جانا چاہئے تھا۔
دستاویزات کے مطابق قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر کی جانب سے لیٹر نمبر FIA/DSK/I&AHT-02/DFD-A/21-22/B-2400 پر مراسلہ موصول ہونے کے بعد ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل میں ایف آئی اے کے مجاز افسران کی منظوری کے بعد تفتیش کا آغاز کیا گیا۔ جس میں معلوم ہوا کہ غیر ملکی افراد نے جعلی پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کیا اور وہ جناح انٹر نیشنل ایئرپورٹ کراچی سے سعودیہ کیلئے روانہ ہوئے اورانہیں امیگریشن کراچی میں شفٹ انچارج انسپکٹر اعجاز احمد خان نے سہولت فراہم کی۔ تحقیقات میں مزید انکشاف ہوا کہ اس سنگین جرم کی حد یہیں تک محدود نہیں رہی۔ بلکہ ان وارداتوں کو چھپانے کیلئے ڈیپورٹ ہونے پران مشکوک شہریوں کو کراچی سے ایف آئی اے کے دیگر افسران اور اہلکاروں کی ملی بھگت سے فرار کرادیا گیا۔ مذکورہ حقائق سامنے آنے کے بعد ڈائریکٹر ایف آئی اے، سندھ زون ون کراچی کی منظوری سے مقدمہ الزام نمبر 319/2022 درج کر کے اسکینڈل پر مزید تحقیقات شروع کی گئیں۔ اس دوران ملوث افسران اور اہلکاروں سے تفتیش بھی کی گئی۔ تاہم انسپکٹر اعجاز کی گرفتاری ممکن نہ ہو سکی۔ انسپکٹر اعجاز سندھ پولیس سے ڈیپوٹیشن پر ایف آئی اے میں تعینات ہے اور اثر رسوخ کا حامل ہے۔ اب تک اس اسکینڈل میں ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کراچی کی جانب سے انسپکٹر اعجاز، سب انسپکٹر خالد حسین، سب انسپکٹر منظورالحق اور اہلکار گل شیر کو نامزد کرکے عبوری چالان پیش کیا گیا ہے۔
چالان میں رپورٹ کہا گیا ہے کہ اب تک کی گئی تفتیش سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ملزم انسپکٹر اعجاز احمد، سب انسپکٹر خالد حسین، انچارج ایف سی گل شیر کاؤنٹر آفیسر اور دیگر ملوث افسران اور اہلکاروں نے بین الاقوامی شعبہ روانگی کے کائونٹرز سے مشتبہ مسافروں کو جانے کی اجازت دی۔ اس معاملے میں سب انسپکٹر منظورالحق انچارج تھے۔ جن کے ساتھ دیگر ملوث افسران اورہلکار متعلقہ شفٹوں میں سرگرم تھے۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول کچھ عرصہ قبل اسی طرح سعودیہ سے 48 پاکستانی ڈیپورٹ ہوکر آئے۔ جو عمرے کے ویزوں پر سعودی عرب گئے تھے اور وہاں سلپ ہوگئے تھے۔ جنہیں سعودی حکام نے مختلف کارروائیوں میں گرفتار کیا اور ان کی جیل میں سزائیں ختم ہونے کے بعد واپس کراچی ڈیپورٹ کر دیا گیا۔ ان شہریوں کو ایئرپورٹ پر امیگریشن افسران نے ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد ڈیٹا حاصل کرکے چھوڑ دیا۔ ایسے افراد کی اگلے پانچ برس تک سعودیہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے۔ ایسے افراد کو ایف آئی اے امیگریشن کا اسٹاف اپنے کوڈ ورڈز میں ’’خرگوش ‘‘ کہتا ہے۔ جو عمرے کے ویزوں پر سعودیہ جاتے ہیں۔ تاہم ان کا اصل مقصد سعودیہ میں غائب ہوکر روزگار تلاش کرنا ہوتا ہے۔ جس کیلئے انہیں ملک سے عمرے کے ویزوں پر بھجوانے والے ایجنٹ پہلے سے یقین دہانی کرواتے ہیں اور ان سے اضافی رقم بھی لیتے ہیں۔ جبکہ ایسے افراد سے ایئرپورٹ سے جاتے ہوئے ایف آئی اے امیگریشن کے کائونٹرز پر موجود ملوث عملے کے اہلکار افسران کیلئے فی شخص 5 سے 10 ہزار روپے وصول کرکے انہیں جہاز میں سوار ہونے کی کلیئرنس دیتے ہیں۔
مذکورہ اسکینڈل کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے امیگریشن اسلام آباد ساجد حسین کھوکھر کی جانب سے ایئرپورٹ کے تمام شفٹ انچارجز کو مراسلے ارسال کئے گئے۔ جن میں واضح طور پر کہا گیا کہ سعودی حکام کی عمرہ پالیسی کے مطابق 40 سال سے کم عمر کوئی بھی شخص اپنے محرم کے بغیر عمرہ کیلئے ایئرپورٹ سے کلیئر نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ ایف آئی اے امیگریشن کے افسران ایسے تمام افراد کو کلیئر کر رہے ہیں۔ اسی مراسلے میں ڈپٹی ڈائریکٹر امیگریشن کی جانب سے مزید لکھا گیا کہ حالیہ عرصہ میں ’’خرگوشوں‘‘ یعنی ایسے کم عمر نوجوان جو عمرہ کے ویزوں پر سعودی عرب جاتے ہیں اور پھر وہاں روزگار کیلئے غیر قانونی طور پر غائب کرادیئے جاتے ہیں۔ ان کی بڑھتی ہوئی شکایات کی وجہ سے تمام امیگریشن اسٹاف کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ ایسے شہریوں کو روکیں اور کلیئر نہ کریں۔ اگر کوئی امیگریشن افسر کسی بھی قسم کی رشوت کے عوض ایسے افراد کو کلیئر کرنے میں سہولت کاری میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔