ندیم محمود:
پاکستان کے نئے منتخب سپہ سالار جنرل عاصم منیر کا تعلق ایک لوئر مڈل کلاس گھرانے سے ہے۔ ان کے والد درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ وہ راولپنڈی کے علاقے لال کرتی میں واقع ایک اسکول کے پرنسپل تھے۔ واضح رہے کہ جنرل عاصم منیر، پاک فوج کے پہلے حافظ قرآن، چیف آف آرمی اسٹاف ہیں۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جنرل عاصم منیر کے والد بھی حافظ قرآن ہیں۔ قریبی ذرائع نے بتایا کہ جنرل عاصم منیر نے اوائل عمری میں اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ والد کی زیر نگرانی قرآن پاک حفظ کیا تھا۔ یعنی تینوں بھائی حافظ قرآن ہیں۔
جنرل عاصم منیر آفیسرز ٹریننگ اسکول منگلا سے تربیت مکمل کر کے پاک فوج کا حصہ بنے۔ تربیت کے دوران انہیں بہترین کارکردگی پر اعزازی شمشیر سے نوازا گیا تھا۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پاک فوج کی فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ ان کے فوجی کیریئر کا آغاز انیس سو چھیاسی میں ہوا تھا۔ بے داغ فوجی کیریئر کے حامل جنرل عاصم منیر نے شروع سے ہر کورس میں ٹاپ کیا۔ دو ہزار چودہ میں انہوں نے کمانڈر فورس کمانڈ ناردرن ایریا کے طور پر اہم رول ادا کیا۔ تب وہ میجر جنرل تھے۔ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری تھی۔ اور بھارت کی ریشہ دوانیاں عروج پر تھیں۔ چنانچہ سیاچن کا علاقہ خاصا ہاٹ تھا۔ دسمبر دو ہزار سولہ میں جنرل عاصم منیر نے ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں تو تب بھی وار اینڈ ٹیرر جاری تھی۔ یوں آپریشن ردالفساد میں انہوں نے کلیدی رول ادا کیا۔ وہ اکتوبر دو ہزار اٹھارہ تک ڈی جی ایم آئی رہے۔ دہشت گردوں کے خلاف ردالفساد آپریشن خالصتاً اندرونی امن و امان سے متعلق تھا۔ داخلی امن و امان کے حوالے سے بنیادی رول ایم آئی کا ہوتا ہے۔ آئی ایس آئی زیادہ تر خارجی معاملات پر توجہ رکھتی ہے۔
میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پانے کے بعد جنرل عاصم منیر اکتوبر دو ہزار اٹھارہ سے جون دو ہزار انیس تک ڈی جی آئی ایس آئی بھی رہے۔ یوں وہ پہلے آرمی چیف ہیں۔ جو ایم آئی اور آئی ایس آئی دونوں پرائم انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ دو ہزار انیس میں ہی انہیں کور کمانڈر گوجرانوالہ تعینات کیا گیا تھا۔ جبکہ آرمی چیف بننے سے قبل جنرل عاصم منیر اکتوبر دو ہزار اکیس سے جی ایچ کیو میں بطور کوارٹر ماسٹر جنرل فرائض ادا کر رہے تھے۔
نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے طور پر منتخب ہونے والے جنرل ساحر شمشاد مرزا بھی ایک شاندار اور بے داغ فوجی کیریئر رکھتے ہیں۔ فوج سے ان کی کمٹمنٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اب تک غیر شادی شدہ ہیں اور انہوں نے اپنا تمام وقت فوج کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ ان کے ایک قریبی ذریعے کے بقول جس طرح جنرل کلو کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ ’’انہوں نے اپنے پروفیشن (فوجی کیریئر) سے شادی کر رکھی تھی‘‘۔ یہ بات جنرل ساحر شمشاد پر بھی پوری اترتی ہے۔ واضح رہے کہ مئی انیس سو نواسی سے انیس سو نوے تک ڈی جی آئی ایس آئی رہنے والے شمس الرحمان کلو بھی غیر شادی شدہ تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی اور مصروفیات فوج کے لیے وقف کر رکھی تھیں۔
جنرل ساحر شمشاد مرزا کا تعلق سندھ رجمنٹ سے ہے۔ پاک فوج میں ان کا کیریئر نہایت متاثرکن رہا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دور میں وہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) تھے۔ تب آپریشن ردالفساد جاری تھا اور انہوں نے شمالی وزیرستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائیوں کی نگرانی کی تھی۔ اس کے علاوہ امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کرانے اور بعد ازاں افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے عمل میں بھی جنرل ساحر شمشاد مرزا کا اہم رول رہا۔ کیونکہ وہ بین الافغان مذاکرات کرنے والے گروپ میں شامل تھے۔ یہ گروپ پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ پر مشتمل تھا۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا، گلگت بلتستان میں اصلاحات کے لیے بننے والی کمیٹی کا بھی حصہ رہے۔ پاکستان اور چین کے مابین اسٹرٹیجک معاملات میں بھی انہوں نے اہم رول ادا کیا۔ وہ آرمی چیف کے بعد سب سے طاقتور عہدے چیف آف جنرل اسٹاف کے طور پر بھی تعینات رہے۔ جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی منتخب ہونے سے قبل وہ کور کمانڈر راولپنڈی کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ دو ہزار اٹھارہ میں جنرل ساحر شمشاد مرزا کو ہلال امتیاز ملٹری کے اعزاز سے نوازا گیا۔ اسی برس انہیں تمغہ عزم بھی ملا۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی ایوارڈز حاصل کر رکھے ہیں۔
جنرل ساحر شمشاد مرزا کا ایک اہم رول جو عوام کی نظروں میں زیادہ نہیں رہا۔ وہ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والے سابق مشرقی پاکستان کے محصورین سے متعلق ان کی کاوشیں ہیں۔
جنرل ساحر شمشاد نے محصورین کے اعزاز میں پاکستان میں تقاریب کرائیں۔ انہیں ایوارڈز دینے کا سلسلہ بھی شروع کرایا۔ یہ سارا عمل دو ہزار سترہ میں راولپنڈی میں قائم کیے جانے والے آرمی انسٹی ٹیوٹ آف ملٹری ہسٹری کے پلیٹ فارم سے ہو رہا ہے۔ جس کی منظوری سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دی تھی۔ اس کام کو ساحر شمشاد مرزا نے آگے بڑھایا۔ اس ادارے کو اس وقت میجر جنرل آغا اکرم چلا رہے ہیں۔ اس ادارے کے تحت پاک فوج کی پرانی تاریخ کو جمع کیا جا رہا ہے۔ انیس سو پینسٹھ اور انیس سو اکہتر کی جنگیں اور اس میں قربانیاں دینے والوں کا چیپٹر بھی اس میں شامل ہے۔ انیس سو اکہتر کے حوالے سے کتابیں اور آرٹیکلز لکھے جارہے ہیں۔ جبکہ ایسٹ پاکستان سول آرمڈ فورسز، جس میں جماعت اسلامی اور محصورین نے کلیدی رول ادا کیا تھا۔ ان کی قربانیوں کو بھی اجاگر کیا جارہا ہے۔ ان قربانیاں دینے والوں کا تمام ریکارڈ حاصل کیا جا چکا ہے۔ اور ادارہ ان سے مکمل رابطے میں ہے۔ تاکہ پاک فوج کے شہدا کی طرح اکہتر کی جنگ میں جاں نثار کرنے والے محصورین کا بھی خیال رکھا جا سکے۔ محصورین کی دوسری اور تیسری نسلوں کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح کے لیے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ یہ فنڈز دلانے میں بھی ساحر شمشاد مرزا نے رول ادا کیا۔