امت رپورٹ:
خوف کی چادر میں لپٹا پی ٹی آئی کا انقلاب راولپنڈی میں خیمہ زن ہو گیا ، جہاں اس کی اپنی حکومت ہے۔ یاد رہے کہ لگ بھگ ایک ماہ قبل لاہور سے شروع ہونے والے ملکی تاریخ کے سست ترین ’’لانگ مارچ‘‘ کے موقع پر عمران خان نے اسلام آباد پہنچنے کا اعلان کیا تھا۔ بعدازاں پروگرام میں اچانک تبدیلی کرتے ہوئے راولپنڈی پڑائو ڈالنے کا مژدہ سنایا گیا۔ پیدائشی ہیجان میں مبتلا تجزیہ کاروں نے دعوی کیا تھا کہ مقام بدلنے کی اصل وجہ اسٹیبلشمنٹ پر دبائو بڑھانا ہے، تاکہ کپتان کی خواہش کے برخلاف اہم تقرری کو روکا جاسکے۔ لیکن یہ محض ایک جھوٹا فسانہ تھا۔ مقام تبدیل کرنے کا اصل مقصد چمڑی بچانا تھا۔ عمران خان سے ملاقات کے بعد جس برق رفتاری سے صدر علوی نے سمری پر دستخط کا عمل مکمل کیا، وہ اس کا بین ثبوت ہے کہ کپتان محض بڑھکیں مار رہا تھا، جس کی بنیاد بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے دور میں اداکار اکمل مرحوم نے رکھی تھی۔ تاکہ سامنے والے کو مرعوب کیا جاسکے اور اگر وہ رعب میں نہ آئے تو آہستگی سے کہہ دیا جائے ’’میں تو بیمار ہوں بھائی‘‘ مطلب کہ رحم کھائو۔ یہی کچھ عمران خان نے نئی تقرری کولے کر کیا۔ شروع میں نام لیے بغیر وہ اپنی تشنہ خواہش کا اظہار کرتے رہے لیکن پھر مقدر میں لکھا سمجھ کر گھٹنے ٹیک دینے میں عافیت جانی۔
واقفان حال کے بقول جب وفاقی حکومت کی جانب سے نئی تقرریوں کا اعلان ہوگیا اور بتایا گیا کہ سمری دستخط کے لیے ایوان صدر بھیج دی گئی ہے تو پی ٹی آئی کی صفوں میں خاصی پریشانی تھی۔ پی ٹی آئی کے ایک معتبر ذریعے نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس اعلان کے فوری بعد پارٹی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کی ہنگامی کال چیئرمین عمران خان کو گئی اور کہا گیا کہ وہ صدر عارف علوی کو لے کر سیدھا لاہور آرہے ہیں۔ سمری پر دستخط میں تاخیر نہیں کی جانی چاہیے۔ تھوڑی سی ٹال مٹول بھی نقصان دہ ہوگی۔ بعد ازاں وہ صدر علوی کو لے کر بذریعہ طیارہ لاہور پہنچے اور سیدھا زمان پارک کی رہائش گاہ پہنچ گئے، جہاں کپتان بے چینی سے ان کا انتظار کر رہا تھا۔ لگ بھگ پینتالیس منٹ بعد طیارہ دوبارہ اسلام آباد کی طرف اڑان بھر رہا تھا۔ واپس وفاقی دارالحکومت پہنچ کر صدر علوی نے پہلا کام سمری پر دستخط کا کیا۔ ذریعے کے بقول سب کچھ پہلے سے طے تھا کہ صدر مملکت نے چپ کرکے سمری پر دستخط کر دینے ہیں اور اب یہ بھی کوئی راز نہیں رہا اور زبان زد عام ہے کہ سمری پر دستخط کے معاملے پر صدر علوی کی عمران خان سے مشاورت محض ٹوپی ڈرامہ تھا۔ مقصد نئے آنے والے کو یہ باور کرانا تھا کہ کچھ عرصہ پہلے تک چیئرمین پی ٹی آئی جو بڑھکیں لگا رہے تھے، اس پر نہ جائیں بلکہ یہ دیکھیں کہ آپ کی تقرری میں ان کی رضامندی شامل ہے۔
اسد عمر کی ہنگامی کال کے بارے میں ذریعے کا کہنا ہے کہ انہیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ کہیں عادت سے مجبور کپتان عین وقت پر لفڑا کھڑا کرکے اسکرپٹ سے ادھر ادھر نہ ہو جائے۔ اس کے نتیجے میں سمری پر دستخط کا عمل کچھ تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ تاہم اسد عمر کے خدشات غلط نکلے کہ کپتان کو ان سے زیادہ تاخیر کے نتائج کا علم تھا۔ ادھر لانگ مارچ کے پڑاؤ کا مقام تبدیل کرنے کی اصل وجوہات سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں پڑاؤ نہ ڈالنے کے فیصلے پیچھے خوف چھپا تھا۔ پارٹی کور کمیٹی کے کئی سمجھدار ارکان نے بھی کپتان کو مشورہ دیا کہ راولپنڈی اپنا ہوم گراؤنڈ ہے۔ ساتھ ہی وزیراعلیٰ پرویز الہی کی شکل میں دستیاب کیوریٹر نے پچ بھی بیٹنگ بنائی ہے۔ کپتان جی بھر کے چوکے چھکے لگا سکتا ہے، رانا ثنا اللہ کے خطرناک باؤنسرز کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ذرائع کے بقول پچیس مئی کا ناکام ترین لانگ مارچ بھی کورکمیٹی اور چیئرمین عمران خان کے پیش نظر تھا، جب رانا ثنا اللہ کے اس اعلان کے ساتھ ہی ’’انقلاب‘‘ الٹے پاؤں واپس ہوگیا تھا کہ ڈی چوک پہنچنے کی صورت میں عمران خان کے کینٹینر پر آنسو گیس کے گولوں کی برسات کردی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق اپنے ہی زیر حکومت صوبے کی حدود میں پڑاؤ ڈالنے کا ایک مقصد جہاں وفاقی حکومت کے کریک ڈاؤن سے بچنا ہے، وہیں عمران خان کو اپنی گرفتاری کا پرانا خوف بھی لاحق تھا۔ اسی سبب زخمی ہونے کے بعد سے وہ بنی گالہ کے بجائے زمان پارک لاہور کی رہائش گاہ میں مقیم ہیں، جہاں وزیراعلیٰ پرویز الہی کی شکل میں ان کی اپنی حکومت ہے اور گرفتاری کا کوئی خوف نہیں۔ قبل ازیں پکڑے جانے کے خوف سے عمران خان نے ایک عرصے تک صوبہ خیبر پختون میں ڈیرے ڈالے تھے۔ راولپنڈی میں پڑاؤ ڈالنے کا دوسرا بڑا سبب لوگوں کی زیادہ تعداد کو یقینی بنانا تھا کہ اپنی حکومت ہونے کے ناطے ریلی کے شرکا بلاروک ٹوک اور کریک ڈاؤن کا سامنا کئے بغیر پنڈال تک پہنچ سکیں اور دو صوبوں کی ریاستی مشینری کا تعاون بھی حاصل رہے۔ اگرچہ راوالپنڈی پہنچنے والے عمران خان کے بہت سے سادہ لوح پیروکار اپنا بوریا بستر بھی لائے ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کے اپنے ذرائع کا کہنا ہے کہ راولپنڈی کا شو محض فیس سیونگ کی تلاش ہے۔ درحقیقت عمران خان خود بھی راولپنڈی میں زیادہ دن قیام نہیں چاہتے۔ اور حقیقی آزادی یا انقلاب کے اگلے مرحلے کا اعلان کرکے واپس لوٹنے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔ کیونکہ وہ ایک ماہ قبل شروع کئے جانے والے قسط وار لانگ مارچ کے مقاصد میں سے ایک بھی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ انہیں سب سے زیادہ فکر نئی تقرری کو لے کر تھی۔ اس میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اب ان کے منہ سے نکلے گولوں کا رخ وفاقی حکومت کی طرف ہے۔ وہ قبل ازقت الیکشن کی تاریخ چاہتے ہیں اور اتحادی مسلسل انکاری ہیں۔
ہفتے کی شام اس رپورٹ کو فائل کیے جانے تک راولپنڈی میں عمران خان کا خطاب شروع نہیں ہوا تھا۔ اس خطاب سے ہی اندازہ ہونا تھا کہ پی ٹی آئی نے محض جلسہ کر کے واپس چلے جانا ہے یا پھر راولپنڈی میں کچھ دن قیام کیا جائے گا۔ نون لیگ کے اندرونی ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت یہ پلان بنائے بیٹھی ہے کہ اگر پی ٹی آئی واپس نہیں جاتی اور دھرنا دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔ تاہم اگر امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو پھر انتظامی اور آئینی آپشنز اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ لیگی ذرائع کے بقول مظاہرین چونکہ اسلام آباد کی حدود کے باہر ہیں، اسی لیے پنجاب کے چیف سیکریٹری کو خط لکھا جا چکا ہے۔ اس کے باوجود امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو پھر وفاقی حکومت آئین کا سہارا لے کر صوبائی معاملات اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے۔ اس سلسلے میں آئین کے آرٹیکل ایک سو اڑتالیس کی شق تین اور آرٹیکل ایک سو انچاس کی شق ایک استعمال کی جا سکتی ہے۔ آرٹیکل ایک سو اڑتالیس کی شق تین میں کہا گیا ہے ’’وفاق کا یہ فرض ہو گا کہ ہر صوبے کو بیرونی جارحیت اور اندرونی خلفشار سے محفوظ رکھے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر صوبے کی حکومت دستور کے احکام کے مطابق چلائی جائے۔‘‘ جبکہ آرٹیکل ایک سو انچاس کی شق ایک کہتی ہے ’’ہر صوبے کا عاملانہ اختیار اس طرح استعمال کیا جائے گا کہ وہ وفاق کے عاملانہ اختیار میں حائل نہ ہو یا اسے نقصان نہ پہنچائے اور وفاق کا عاملانہ اختیار کسی صوبے کو ایسی ہدایات دینے پر وسعت پذیر ہوگا جو اس مقصد کے لیے وفاقی حکومت کو ضروری معلوم ہوں۔‘‘
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن پاکستان کنور دلشاد کا بھی یہی کہنا ہے کہ کہ اگر وفاقی حکومت کارروائی کرنا چاہے تو آئین کے آرٹیکل ایک سو انچاس کے تحت صوبائی حکومت کو معطل کر سکتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے چونکہ صوبوں کو کافی خود مختاری اور اختیارات دیے گئے تھے، چنانچہ آرٹیکل ایک سو انچاس، وفاقی وحدت کو برقرار رکھنے کے لیے ہے۔ اس آرٹیکل کا لب لباب یہ ہے کہ جہاں وفاق محسوس کرے کہ صوبے بغاوت پر اتر آئے ہیں، تعاون نہیں کررہے اور اس کے نتیجے میں امن و امان کی صورت حال خراب ہو گئی ہے تو وفاق، آئین کی متذکرہ شق کے تحت متعلقہ صوبائی حکومتوں کو معطل کر کے براہ راست صوبے کا کنٹرول سنبھال سکتا ہے۔ اس سوال پر کہ ایسی صورت میں صوبے کے امور چلانے کا اختیار کس کے پاس ہوگا؟ کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ ایسا ہونے پر صوبے کا سربراہ وزیراعظم بن جاتا ہے۔ یعنی صوبائی معاملات وہی دیکھتا ہے۔ اسمبلیاں تحلیل نہیں، معطل ہو جاتی ہیں۔