نواز طاہر:
پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت نے تمام سرکاری وسائل اپنے لانگ مارچ کو کامیاب بنانے میں جھونک دیئے۔ راولپنڈی جلسے کے موقع پر بھی سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ جلسہ گاہ کے اطراف پنجاب پولیس کے 10 ہزار اہلکار تعینات کئے گئے، جبکہ وفاق کی جانب سے سیکورٹی انتظامات اس کے علاوہ تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ ملکی تاریخ میں اس سے قبل اتنے سخت سیکورٹی انتظامات کسی جلسے کیلئے کبھی نہیں کئے گئے۔ پی ٹی آئی کی سڑک سیاست اور احتجاج کے باعث صوبے کے سرکاری اداروں میں کام عملی طور پر ٹھپ ہوگیا اور جرائم کی شرح کے ساتھ ساتھ مقدمات کے فوری اندراج کا عمران خان خواب چکنا چور ہوگیا ہے۔ سرکاری وسائل کے استعمال پر مختلف ادوار کے حکمرانوں پر تنقید کرنے والے عمران خان خود ہی مہنگے ترین وی وی آئی پی سرکاری مہمان بن گئے ہیں، جن کی سیکورٹی پر یومیہ لاکھوں روپے کے اخراجات اٹھ رہے ہیں۔ سب سے زیادہ اخراجات پولیس ڈیپارٹمنٹ کے بیان کئے جاتے ہیں۔ جبکہ سب سے زیادہ بدنامی بھی پولیس کے حصے میں آئی ہے۔
یاد رہے کہ پچھلے ایک ماہ سے تحریک انصاف کے سڑکوں پر ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت اور اس کے سربراہ چودھری پرویز الٰہی کی تمام تر توجہ لانگ مارچ کو کامیاب بنانے اور سیکورٹی فراہم کرنے پر مرکوز ہے، جس کی وجہ سے سرکاری ادارے عملی طور پر ’’گورن لیس‘‘ ہوچکے ہیں اور سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد بھی انہی سرگرمیوںکا حصہ بن چکی ہے۔ ادھر بیورو کریسی کو بھی من مانی کا کھلا موقع ملا ہے، جس میں سب سے زیادہ تقرر و تبادلوں میں من مانی کے معاملات سامنے آئے ہیں اور اس ضمن میں عمران خان کا بطور وزیراعظم بنایا جانے والا نظام پنجاب میں بری طرح ناکام بنادیا گیا ہے۔ صرف راولپنڈی کے جلسہ کیلئے پنجاب پولیس کے دس ہزار سے زائد پولیس ملازمین سیکورٹی پر مامور کئے گئے۔ جبکہ تمام تھانوں کے انچارجوں اور سپروائزری افسران کو راولپنڈی تک قافلے کسی رکاوٹ کے بغیر جملہ سہولیات کے ساتھ پہنچانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
پنجاب پولیس کے سرکاری اعلامیے کے مطابق غیر معینہ مدت تک سیکورٹی مانیٹرنگ روم قائم کیا گیا، جو سیاسی سرگرمیوں کے پیش نظر 24 گھنٹے کام کر رہا ہے۔ قائم مقام انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کی براہِ راست نگرانی میں راولپنڈی پولیس کے سربراہ سید شہزاد ندیم بخاری کی قیادت میں ایلیٹ کمانڈوز، ڈولفن فورس، ضلعی پولیس، ٹریفک پولیس اور دیگر یونٹس کے دس ہزار ملازمین تعینات کئے گئے۔ جبکہ خود عمران خان کی اپنی حفاظت کیلئے لاہور میں ان کے آبائی گھر زمان پارک میں تقریباً ایک ہزار اہلکار تعینات ہیں۔ تاہم عمران خان نے خیبر پختون سے بھی خصوصی دستے منگوا رکھے ہیں، جو گھر کی اندرونی سیکورٹی اور ملاقاتیوں کی فہرست کی منظوری کے بعد اپنے معیار پر جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ پولیس کے اس استعمال کے باوجود محکمہ پولیس کو پی ٹی آئی کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر انسپکٹر جنرل پولیس فیصل شاہکار احتجاجاً پنجاب میں کام جاری رکھنے سے انکار کرچکے ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کے جلسوں میں ڈیوٹی دینے والے پولیس افسران اور ملازمین کا مورال بہت ڈاؤن بتایا جاتا ہے۔ ایک پولیس افسر کا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہنا ہے کہ پنجاب پولیس کا مورال پنجاب اسمبلی کے پلیٹ فارم سے گرایا گیا تھا اور پو لیس کو ذاتی ملازم کے طور پر ڈیل کرنے اور ان کی تحقیرکو عمومی رویہ بنا لیا گیا ہے۔ لیکن ڈسپلن فورس کے طور پر پولیس دوسرے اضلاع ہی نہیں بلکہ ڈویژن میں جاکر اپنی ڈیوٹی انجام دے رہی ہے۔ تھانہ انچارجوں کی غیر موجودگی کی وجہ سے معمول کا کام بری طرح متاثر ہوا ہے اور جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کسی حد تک یہ بھی درست ہے کہ مقدمات کے اندراج کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے، جس کی ایک وجہ تھانہ انچارجوں کی تھانوں سے باہر لانگ مارچ و جلسوں میں ڈیوٹیاں ہیں۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کی رہائش گاہ پر پنجاب حکومت کے ملازمین تعینات ہیں جن میں مالی بھی شامل ہیں اور وہاں پر بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی گھاس بھی پی ایچ اے کی طرف سے خاص طور پر لگائی گئی ہے۔ محکمہ بلدیات اور محکمہ صنعت کو بھی محکمہ پولیس کی طرح استعمال کیا جارہا ہے اور محکمہ اطلاعات پی ٹی آئی کے نجی سوشل میڈیا اور اس سے وابستہ افراد کو خصوصی سہولیات اور مراعات فراہم کرنے کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔
علاوہ ازیں محکمہ اطلاعات پنجاب کا ڈائریکٹوریٹ پی ٹی آئی کے میڈیا سیل کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، جہاں سے سوشل میڈیا پر وی لاگ کرنے والوں کو کونٹینٹ اور ویڈیو فوٹیج بھی فراہم کی جارہی ہے۔ جبکہ ایس ایند جی اے ڈی کا محکمہ وفاقی حکومت کے خلاف اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرے کرنے والوں کو منیج کرنے کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ کی مدد سے ادا کر رہا ہے۔ ان مظاہرین کو ٹرانسپورٹ کی فراہمی بھی اسی انتظامیہ کے ذمہ لگائی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین سب سے زیادہ استعمال ہو رہے ہیں، جس سے ڈینگی مہم بری طرح متاثر ہوئی ہے اور ڈینگی کے کیسز روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق محکمہ ذراعت، آبپاشی کے ملازمین بھی مارچ کا حصہ بنائے گئے۔ تاہم اب عمران خان کے اسمبلیوں سے استعفے دینے کے اعلان کے بعد ’’سرکاری مہمان نوازی‘‘ کا سلسلہ تھم جائے گا۔ البتہ بحیثیت سابق ویر اعظم انہیں سیکورٹی حاصل رہے گی، لیکن سرکاری وسائل کا ضیاں نہیںہوگا۔