احمد خلیل جازم:
حال ہی میں وزیراعظم پاکستان کے دورہ چین میں یہ طے پایا کہ چین پاکستان کو بلٹ ٹرین کی نہ صرف ویگنز مہیا کر رہا ہے، بلکہ پہلی بار کسی دوسرے ملک کو بلٹ ٹرین ٹیکنالوجی بھی ٹرانسفر کر رہا ہے، جس کے تحت پاکستان 184 بوگیاں خود بنائے گا۔ جبکہ گزشتہ دنوں 46 بوگیاں چین سے پاکستان روانہ ہو چکی ہیں۔ یہ ٹرین 200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہے۔ جسے پاکستان میں 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلایا جائے گا۔
کیا پاکستانی ٹریک اس قابل ہیں کہ ان پر بلٹ ٹرین چل سکے؟ اس پر آگے بات کرتے ہیں۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان نے 1984-85ء میں لوکو موٹیو فیکٹری بنانے کا اعلان کیا۔ لیکن ا س کی تعمیرکے بعد پہلے انجن کی تیاری1993ء میں ہوئی۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے لوکو موٹیو فیکٹری کے ایک انجینئر نے بتایا کہ ’’لوکو موٹیو کی یہ ٹیکنالوجی جاپانی تھی۔ اور جاپان نے آج تک یہ ٹیکنالوجی پاکستان کو نہیں دی، بلکہ پرزہ جات دیئے جاتے ہیں، جن سے لوکوموٹیو فیکٹری رسالپور میں انجن اسمبل ہوتے ہیں۔ جاپان یہ ٹیکنالوجی 1969-70ء میں ختم کرچکا تھا۔ اس کے باوجود اس نے پاکستان کو ٹیکنالوجی نہیں بلکہ اسپیئر پارٹس دے کر ٹرخا دیا تھا۔ اور آفرین ہے ہماری ریلویز کے کار پردازوں پر جنہوں نے 2018ء تک اکیس برسوں میں صرف 102 انجن تیار کرائے۔ جب کہ 480ا سے زائد انجن تیار کرنے کا منصوبہ تھا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ، پاکستان میں ریلوے کا آغاز 13 مئی 1861ء میں ہوا جب کراچی سے کوٹری 169 کلومیٹر ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔ اس کے بعد کراچی سے لے کر پشاور تک جتنے ٹریک بنائے گئے وہ پاکستان بننے سے پہلے کے ہیں۔ پاکستان نے 1947ء کے بعد صرف یہ کیا کہ اس کا نام جو پہلے نارتھ و یسٹرن ریلوے تھا، اسے فروری 1961ء میں پاکستان ویسٹرن ریلوے اور مئی 1974ء میں پاکستان ریلویز سے تبدیل کر دیا گیا۔ برصغیر میں ریلویز نے 1947ء تک جو ترقی کا سفر طے کیا تھا، اس کی تنزلی کا سفر 1976ء سے شروع ہوگیا۔ 1976ء تک یہ منافع میں چلنے والا ادارہ تھا اور آج یہ حالت ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ لینڈ رکھنے والا ادارہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں تک دینے کے لیے بجٹ نہیں رکھتا۔ اب موجودہ دور حکومت میں سی پیک کی برکت سے بلٹ ٹرین کا منصوبہ شروع ہورہا ہے، جس کے لیے چین نے ٹیکنالوجی فراہم کی ہے۔
متذکرہ انجینیئر کے بقول ’’میں جب چین میں ٹریننگ پر گیا تو میں نے دیکھا کہ چین میں جو بلٹ ٹرینیں چل رہی ہیں اس جیسی ٹیکنالوجی دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ اور چین دنیا کا سب سے بڑا بلٹ ٹرین نیٹ ورک رکھنے والا ملک ہے جو37 ہزار کلومیٹر سے زائد پر پھیلا ہوا ہے۔ چین میں سب سے پہلی ہائی اسپیڈ ریلوے لائن بیجنگ اور تیانجن کے درمیان 2008ء میں بنی تھی، جس کے بعد چین نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اب چین 600 کلومیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے دنیا کی تیز ترین ٹرین بناچکا ہے جو روایتی ٹریک کے بجائے مقناطیسی نظام کے تحت چلتی ہے۔ یعنی ٹریک پر نہیں بلکہ ٹریک سے اوپر مقناطیسی میدان میں ہوا پر معلق ہوکر چلتی ہے۔ چین اس سے قبل 2017ء تک ایک ہزار سے زائد بلٹ ٹرینیں چلا چکا ہے۔ اس وقت چین 286 کلومیٹر فی گھنٹہ کے رفتار سے بلٹ ٹرین چلا رہا ہے۔
اب آئیے پاکستان کی جانب، پاکستان کو جو بلٹ ٹرین کی ٹیکنالوجی مل رہی ہے، اسے ذرا سمجھیں۔ پاکستان کا ریلویز نیٹ ورکس 12700کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ برانچ لائیں الگ ہیں، لیکن خسارہ دیکھیں 2021ء تک پچاس ارب روپے سے زائد تھا۔ جو بوگیاں ابھی وزیر اعظم کے دورے کے دوران پاکستان کو بھجوائی گئی ہیں وہ عام بوگیاں ہی ہیں، کیونکہ پاکستان اب کیرج فیکٹری اسلام آباد میں بوگیاں بنانے اور انہیں مرمت کرنے سے بھی قاصر ہے، چین جو بوگیاں دے رہا ہے وہ موجودہ ٹریک پر ہی چلیں گی۔
بلٹ ٹرین البتہ سی پیک کے منصوبے میں شامل ہے جو دس بلین ڈالر کی لاگت سے مکمل ہوگا۔ خیال کیا جارہا ہے کہ وہ بھی ٹریک ایم ایل ون پر ہی چلے گی، کیونکہ ابھی تک اس کے الگ ٹریک کی خبر نہیں آئی۔ آپ دس بلین ڈالر کو ذہن میں رکھیں اور سنیں، ہم ابھی فی الحال ایم ایل ون (مین لائن )کی بحالی پر ہی کام شروع کرسکیں تو یہی غنیمت ہے، بلٹ ٹرین تو کافی دور ہے۔ ایم ایل ون پاکستان کا سب سے بڑا ٹریک ہے جو کراچی سے پشاور تک اور لوپ میں ملتان تک پھیلا ہوا ہے، جس کی کُل لمبائی 1688 کلومیٹر ہے۔ لوپ لائن کو شامل کریں تو یہ 1824 کلومیٹر بنتی ہے۔ حویلیاں اور ٹیکسلا کو ملا کر یہ لمبائی 1872 کلومیٹر بن جاتی ہے۔ یہ ریلویز کا سب سے کمائو ٹریک ہے۔ پاکستان ریلویز کی 80 فیصد ٹرینیں اسی لائن پر چلتی ہیں، لیکن گزشتہ کئی برسوں سے یہ لائن زبوں حالی کا شکار ہے اور اپنی معیاد پوری کر چکی ہے۔ اسی لیے ٹرینیں پہلے کی نسبت کم اسپیڈ پر چل رہی ہیں۔ سگنل سسٹم ناکارہ اور کانٹے بدلنے کا نظام تباہ ہوچکا ہے۔ ایم ایل ون کی بحالی کے لیے پاکستان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ اس لیے اسے چین کی مدد سے بحال کیا جارہا ہے۔ 2014ء میں اسے سی پیک میں شامل کیا گیا اور اس کی بحالی پر ری سرچ اور پی سی ون 2017ء میں مکمل ہوچکا تھا، جس کی 9.2 بلین ڈالر کی لاگت آرہی تھی جسے بعد میں پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے تین سال لٹکا کر 6.8 بلین ڈالرکم کرکے مکمل کرنے ہدف دیا گیا، جسے چین نے نامنظور کردیا۔ اب دوبارہ اس منصوبے کو دس بلین ڈالر کی منظوری دی گئی، جبھی چین کے حالیہ دورہ وزیر اعظم کے موقع پر ایک بار پھراس پر راضی ہوا۔
اس منصوبے کا نوے فیصد چین دے گا، جب کہ دس فیصد پاکستان ادا کرے گا اور اسے سات برسوں میں مکمل کرنے کا ہدف طے ہوا ہے۔ اس منصوبے میں، مین لائن ون کراچی سے پشاور تک ڈبل ٹریک کی جائے گی۔ اس ٹرین کی رفتار پر 160 کلومیٹر فی گھنٹہ سے ہوگی، جب کہ گڈز ٹرین 110 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلیں گی۔ تمام اسٹیشن 30 کلومیٹر پر ہوں گے۔ جبکہ چھوٹے اسٹیشن اور ریلوے پھاٹک ختم کر دیئے جائیں گے۔ وہاں انڈر پاسز اور پل تعمیر ہوں گے۔ پرانے پل بھی از سر نو تعمیر ہوں گے اور تمام بڑے اسٹیشن جدید طرز پر بنائے جائیں گے، جہاں مسافروں کو عالمی سطح کی سہولیات دی جائیں گی۔ گاڑیاں، ڈیزل انجن سے چلیں گی۔ لیکن بعد میں ان تمام کو الیکٹرک انجن کے ذریعے چلانے کا امکان ہے۔ کراچی سے لاہور 10 گھنٹے، لاہور سے پنڈی اڑھائی گھنٹے، جب کہ پشاور سے پنڈی تک کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں ممکن ہو سکے گا‘‘۔
اس سوال پر کہ کیا چینی ماہرین اِنہی پاکستانی ہنر مندوں سے کام لیں گے؟ تو ان کا دعویٰ تھا ’’یہ بات لگ بھگ طے ہے کہ حکومت پاکستان آئندہ برس ریلویز کو پرائیوٹائز کرنے کا ارادہ کرچکی ہے اور آئندہ برس ریلویز کا تمام انتظام و انصرام چین کے حوالے کردیا جائے گا۔ چین کی کمپنیاں یہاں سرمایہ کاری کریں گی اور ریلویز ٹریک کی بہتری اور انہیں بدلنے کے ساتھ ساتھ نئی ٹرینیں بھی چلائیں گی۔ موجودہ ریلوے ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دینے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ اس میں چین کی کمپنیوں کو منافع میں پرسنٹیج دیا جائے گا۔ تاہم ٹریک کی بحالی اور بلٹ ٹرین کے نئے ٹریک کے حوالے سے سب کچھ واضح نہیں ہے۔ اب پاکستان میں بلٹ ٹرین کب چلے گی؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا‘‘۔