نمائندہ امت:
تحریک انصاف کے کارکنان کی واپسی کے بعد راولپنڈی کی شاہراہیں گندگی سے اٹ گئیں۔ جگہ جگہ پلاسٹک کی بوتلیں، شاپرز اور دیگر کوڑا کرکٹ پھیلا رہا۔ پی ٹی آئی کے کارکنان نے موٹر وے پر میٹرو بس ٹریک کی حفاظتی رکاوٹیں بھی توڑ دی تھیں۔ دیگر املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔
ادھر اطلاعات کے مطابق اسلام آباد انتظامیہ نے دارالحکومت کی سیکورٹی پر 25 کروڑ 63 لاکھ روپے خرچ کیے۔ جبکہ وزارت داخلہ نے39 کروڑ 92 لاکھ روپے سے زائد کا بجٹ منظورکرایا تھا۔ لانگ مارچ کے خاتمے کے اعلان کے بعدرینجرز، سندھ پولیس اور دیگر فورسز واپس چلی گئی ہیں۔ صرف ریڈ زون مکمل طور پر بند ہے۔ جہاں سیکورٹی فورسز تعینات ہیں۔ ’’امت‘‘ کو حاصل معلومات کے مطابق اسلام آباد کی مختلف شاہراہوں پر سینکڑوں کنٹینرز تقریباً ایک ماہ تک پڑے رہے۔ جن کا کرایہ اسلام آباد انتظامیہ نے برداشت کیا اوراس کے لیے وفاقی حکومت سے بجٹ لیا گیا۔ جبکہ اسلام آباد میں مجموعی طور 13 ہزار 800 سیکورٹی اہلکار تعینات کیے گئے۔ جن میں وفاقی پولیس، سندھ پولیس، رینجرز اور ایف سی اہلکار شامل تھے۔ ان کے کھانے پینے، شیلٹرز، رہائش سمیت روزانہ کی بنیاد پر جیب خرچ بھی اسلام آباد انتظامیہ کے سپرد تھا۔
دستاویزکے مطابق اسلام آباد کی سیکیورٹی پر 25 کروڑ 63 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ جبکہ وزارت داخلہ نے 39 کروڑ 92 لاکھ روپے سے زائد کا بجٹ منظورکرایا تھا۔ یہ تمام تیاری ان پی ٹی آئی کارکنان کیلئے کی گئی۔ جو اسلام آباد میں زبردستی داخل ہونا چاہتے تھے۔ دیکھا گیا کہ راولپنڈی پہنچنے والے تحریک انصاف کے اکثر کارکنان کے پاس بڑے اور مضبوط ڈنڈے تھے۔ بغلوں میں غلیلیں بھی صاف دکھائی دیتی رہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکنان پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ انہوں نے گرین بیلٹ سے لکڑیاں بھی توڑ کر گاڑیوں کے چھتوں پر رکھ لی تھیں۔ زیادہ تر یہ وہ لوگ تھے جوخیبر پختون سے آئے تھے۔ ان لوگوں نے چھبیس نمبر چونگی پل کے نیچے رکھے دو بڑے کنٹینرز ہٹا کر جی روڈ پر چڑھنے کے بجائے سری نگر ہائی وے کو کھول دیا اور اسلام آباد میں داخل ہوگئے۔ جبکہ انہیں موٹر وے سے جی روڈ پر لاکر مال روڈ سے مری روڈ لے جانے کا پلان تھا۔ لیکن جب چھبیس نمبر چونگی پر کے پی کے اور پنجاب سے آنے والی ٹریفک شام کے اوقات میں جام ہونے لگی تو انہوں نے کنٹینرز ہٹا کر سری نگر ہائی وے کو کلیئر کر دیا۔
ان کارکنان نے اسلام آباد ایئرپورٹ کی جانب جانے والی میٹرو بس کے روٹ کے ساتھ نصب پلاسٹک کی رکاوٹوں کو بھی توڑ دیا۔ اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ سرکاری املاک کو بھی جزوی طور پر نقصان پہنچایا۔ اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے انہیں سری نگر ہائی وے سے حاجی کیمپ کی جانب موڑ دیا۔ کیونکہ اس سے آگے جی الیون اشارے پر بھی کنٹینرز رکھ کر نہ صرف سڑک بلاک کی گئی تھی۔ بلکہ وہاں پر پولیس اور ایف سی کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔ ریڈزون، فیض آباد، زیرو پوائنٹ سمیت تمام مرکزی شاہراہوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات رہی۔ جی ٹی روڈ سے منسلک وہ تمام سڑکیں جو اسلام آباد میں داخل ہورہی تھیں۔ انہیں بڑے کنٹینرز رکھ کر بلاک کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی جلسے اور دھرنے کے پیش نظر جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی کو جوڑنے والے مقام فیض آباد فلائی اوور کو چاروں جانب سے مکمل طور پر سیل کر دیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے براستہ فیض آباد، اسلام آباد آنے والے لوگوں کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ بند کیے گئے راستوں پر بدترین ٹریفک جام رہا۔ راستوں کی بندش خصوصاً راولپنڈی کی مرکزی سڑکیں بند ہونے کے باعث راولپنڈی ڈبل روڈ پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے کارکنان کی وجہ سے راولپنڈی کی شاہراہیں گندگی سے اٹ گئیں۔ جگہ جگہ پلاسٹک کی بوتلیں، شاپرز اور دیگر کوڑا کرکٹ پھیلا ہوا تھا۔ اب جبکہ عمران خان نے دھرنا نہ دینے اور اسلام آباد پر چڑھائی نہ کرنے کا اعلان کے ساتھ نور خان ایئر بیس سے واپس لاہور کا قصد کیا تو فیض آباد کو ایک بار پھر کنٹینرز رکھ کر بند کردیا گیا۔ جو اگلے روز مکمل طور پرکھولا گیا۔ تحریک انصاف کے کارکنان اپنے اپنے علاقوں میں واپس ہو رہے ہیں۔
اسلام آباد پولیس کے ذرائع کا بھی یہ کہنا ہے کہ ’’اسلام آباد میں ریڈزون کی سیکورٹی بدستور اسی طرح رہے گی اور اسے عام آمدورفت کے لیے بند رکھا جائے گا۔ جبکہ سندھ پولیس اور ایف سی وغیرہ کی واپسی شروع کردی گئی ہے۔ یہ تمام فورسز روانہ کرکے اسلام آباد پولیس نے زیادہ تر کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ کچھ مخصوص سرکاری املاک اور حساس سڑکوں کی بندش کے لیے رینجرز و دیگر سیکورٹی کے کچھ اہلکاروں کو روکا گیا ہے۔ لیکن ایک دو روز میں انہیں بھی روانہ کردیا جائے گا۔
دھرنے میں شامل بعض شرکا کا واپس جاتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد جانے کی تیاری کرکے آئے تھے۔ انہیں عمران خان کے دھرنا ختم کرنے کے اعلان سے مایوسی ہوئی ہے۔ انہیں پورا مہینہ امپورٹڈ حکومت گرانے کے لیے تیار کیا گیا۔ لیکن ان کی ساری تیاری دھری کی دھری رہ گئی۔ جس سامان پر اتنے اخراجات کیے گئے ہیں۔ وہ بھی ضائع جائے گا۔