نواز طاہر:
سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اسمبلیوں سے باہر آنے کا اعلان کرکے خود بھی پھنس گئے ہیں اور اتحادیوں کو بھی مشکلات میں ڈال دیا۔ پنجاب میں مسلم لیگ ق کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہی نے گو کہ یہ کہا ہے کہ عمران خان کے حکم پر فوراً اسمبلی توڑ دیں گے۔ تاہم ق لیگ کے کئی اراکین اسمبلی کو اس پر تحفظات ہیں۔ جبکہ بلوچستان سے ارکان اسمبلی بھی کپتان کے حکم پرعملدرآمد کو تیار نہیں اور وہاں پر پارٹی میں پھوٹ پڑ چکی ہے۔ البتہ صوبہ خیبر پختون میں تحریک انصاف نے استعفوں سے متعلق تیاریاں تیز کر دی ہیں اور وزیر اعلیٰ محمود خان کی سربراہی میں اہم اجلاس کی توقع بھی ظاہر کی جارہی ہے۔ جس میں مرکزی رہنما، وزرا اور ارکان اسمبلی شریک ہوں گے۔ اگلے چند روز میں تمام استعفے پیشگی وزیراعلیٰ کے پاس جمع کرانے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے بھی نئی حکمتِ عملی پر غور شروع کردیا ہے۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے بعد راولپنڈی کے جلسے میں عمران خان نے اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بغیر اسمبلیوں سے باہر آنے کا اعلان کر دیا تھا۔ جس پر اتحادیوں کی جانب سے مختلف تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا۔ اس اعلان کی تائید میں صرف مسلم لیگ ق کی طرف سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے کہا تھا کہ ’عمران خان کے کہنے پر فوراً اسمبلی توڑ دیں گے‘۔ لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ ق لیگ کے کئی ارکان ایسے ہیں، جن کو اس حوالے سے تحفظات ہیں اور جس کا اظہار انہوں نے پارٹی قیادت بھی کیا ہے۔ جبکہ بلوچستان میں بھی ان کے ارکان اسمبلی کی طرف سے مزاحمت سامنے آگئی اور وہاں پھوٹ پڑ چکی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جہاں تک چودھری پرویز الٰہی کا معاملہ ہے، تو انہوں نے صرف دس نشستوں کے ساتھ پی ٹی آئی سے وزراتِ اعلیٰ حاصل کی ہے۔ ان کے پاس مذکورہ بیان کے سوا کوئی چارا نہیں۔ پھر اس بیان میں بھی عمران خان کو چودھری پرویز الٰہی نے صرف امانت لوٹانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہ واضح نہیں کیا کہ وہ ان سے مشاورت بھی کریں گے یا ہوچکی ہے اور اس میں رائے کیا دیں گے۔ تاہم مسلم لیگ ق کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مشاورت کی صورت میں ممکنہ طور پر عمران خان کو اپنے اعلان پر نظر ثانی کا مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ بیشتر ق لیگ کے ارکان اسمبلی سے استعفوں کے حق میں نہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ ’ن‘ کی جانب سے پنجاب کے صدر اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ واضح کرچکے ہیں کہ عمران خان کو پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا خواب پورا نہیں کرنے دیں گے اور اس سے پہلے ہی تیار ریکوزیشن جمع کرادی جائے گی۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبائی پارلیمنٹ پنجاب اسمبلی کے تین سو اکہتر کے ایوان میں تحریکِ انصاف اور اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے پاس ایک سو نوے نشستیں ہیں۔ ان میں سے پی ٹی آئی کی ایک سو اسّی اور مسلم لیگ ق کی دس سیٹیں ہیں۔ اس کے برعکس مسلم لیگ ’ن‘ ایک سو سڑسٹھ، پیپلز پارٹی سات، راہِ حق پارٹی ایک اور پانچ آزاد ارکان کو ملا کر کل ایک سو اسّی نشستیں ہیں۔ جبکہ اس ایوان میں ایک غیر فعال نشست آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے چوہدری نثارعلی خان کی ہے۔ جنہوں نے حلف کسی اسمبلی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
نون لیگی ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے کچھ لوگ پارٹی (نون لیگ) سے رابطے میں ہیں اور کچھ کے براہِ راست رابطے لندن سے ہیں۔ عمران خان کے اسمبلیوں سے باہر آنے کے اعلان کے بعد ان ارکان کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن اراکین کو ہنگامی تیاری کی ہدایت کردی گئی ہے۔ جس میں مختصر نوٹس پر لاہور پہنچنا یقینی بنانا شامل ہے۔ ان ذرائع کے بقول پنجاب میں اپوزیشن کے پاس ایک موشن وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تیاری ہے اور دوسرا یہ کہ جیسے ہی پی ٹی آئی عمران خان کے اعلان کے مطابق اسمبلی توڑنے کا فیصلہ تک پہنچے گی۔ اس سے پہلے ہی چار سے پانچ پی ٹی آئی اراکین اپنی جماعت اور وزیراعلیٰ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے استعفے دیدیں گے تو وزیر اعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان اپنے فیصے اتحادیوں پر مسلط کریں گے تو اس کے نتائج خود بھگتیں گے اور پنجاب کی حکومت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ پی ٹی آئی کا جواب مضبوط حکمتِ عملی سے دیا جائے گا۔
دوسری جانب عمران خان کی صدارت میں ان کے آبائی گھر زمان پارک میں پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا اجلاس ہوا۔ جس میں سیکریٹری جنرل اسد عمر، وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی، صوبہ خیبر پختون کے وزیر اعلیٰ محمود خان، پنجاب کے سینئر وزیر اسلم اقبال، اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان سمیت دیگر رہنمائوں نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں عمران خان کے فیصلے پر عملدرآمد کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آئینی و قانونی صورتحال پر غور کیا گیا۔ سیاسی صورتحال کے حوالے سے عمران خان نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کے سامنے کوئی امیدوار ٹھہر نہیں پائے گا۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کو پنجاب حکومت چھوڑنے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی اور تمام اتحادیوں سے مکمل مشاورت کی تجویز بھی دی گئی۔
دوسری جانب تحریک انصاف خیبرپختون نے خیبرپختون اسمبلی سے استعفے کے حوالے سے لائحہ عمل طے کرنے کیلئے مشاورت شروع کر دی ہے اور اس حوالے سے جلد اہم اجلاس متوقع ہے۔ جس کی صدارت وزیراعلیٰ خیبرپختون محمود خان کریں گے۔ جبکہ اجلاس میں پارٹی کی سینئر قیادت شرکت کرے گی۔ اس میں وزرا اور بعض اراکین اسمبلی بھی شریک ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے وزرا اور اراکین اسمبلی کی طرف سے پیشگی استعفے وزیراعلیٰ کے پاس جمع کرائے جانے کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں اگلے چند روز میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی متوقع ہے۔
پارٹی ذرائع کے مطابق عمران خان کے فیصلے کو تمام اراکین کا اعتماد حاصل ہے۔ اس معاملے پر پی ٹی آئی میں مشاورت جلد متوقع ہے اور جس روز چیئرمین عمران خان کی جانب سے ہدایت کی گئی۔ تمام اراکین استعفے جمع کرا دیں گے۔ ادھر تحریک انصاف کا پہلا استعفیٰ سوات سے آگیا ہے۔ سوات کے حلقہ پی کے 4 سے منتخب ہونے والے عزیز اللہ گران نے اپنا تحریری استعفیٰ اسپیکر اور وزیراعلیٰ محمود خان کو بجھوا دیا ہے۔ عزیز اللہ گران نے کہا کہ وہ چیئرمین عمران خان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس اسمبلی سے استعفیٰ دیتے ہیں۔ چونکہ یہ سیٹ ان کے پاس عمران خان اور تحریک انصاف کی امانت تھی اور ان کے حکم کے مطابق اس اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ باقی پارٹی منشور کا تاحیات پابند اور پارٹی کا وفادار رہوں گا۔ دوسری جانب خیبرپختون میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے سر جوڑ لئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کا بھی اجلاس جلد متوقع ہے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن آسانی سے تحریک انصاف کو اسمبلی تحلیل کرنے نہیں دے گی اور اس کے خلاف ممکنہ جدوجہد کی جائے گی۔ لائحہ عمل طے کرنے کے بعد اس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ تاہم ماہرین کے مطابق خیبرپختون اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بجائے تحریک انصاف کے ارکان کے اسمبلی سے مستعفی ہونے سے بھی اسمبلی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے گی اور خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔
خیبرپختون اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 95، جبکہ اپوزیشن ارکان کی تعداد 50 ہے۔ جن میں جماعت اسلامی کے تین اور بلوچستان عوامی پارٹی کے بھی چار ارکان شامل ہیں۔ صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بجائے اگر پی ٹی آئی ارکان استعفے دیتے ہیں تو اس صورت میں حکومت سازی کیلئے درکار 73 ارکان موجود نہیں وہیں گے۔ جس کے باعث صوبائی اسمبلی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گی۔ جبکہ وزیراعلیٰ اگر صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی ایڈوائس گورنر کو ارسال کرتے ہیں تو 48 گھنٹوں میں گورنر کی جانب سے اس کی توثیق نہ کرنے کے باوجود اسمبلی از خود تحلیل ہو جائے گی۔ تاہم اگر اپوزیشن نے وزیراعلیٰ کی ایڈوائس سے پہلے ہی ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی تو اس صورت میں مذکورہ تحریک عدم اعتماد پر کارروائی مکمل ہونے تک وزیراعلیٰ کا اسمبلی تحلیل کے لئے ایڈوائس دینے کا اختیار معطل رہے گا۔