نواز طاہر:
سابق صدر آصف علی زرداری عمران خان کو بیک فٹ پر دھکیلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ق لیگ کو پنجاب اسمبلی تحلیل نہ کرنے پر قائل کرلیا گیا ہے۔ جس کیلیے پی پی قائد کو جہانگیر ترین اور جے یو آئی کے بعض رہنمائوں کی معاونت حاصل رہی۔ ابتدائی معاملات کے تحت ہی پنجاب کابینہ میں توسیع کی گئی۔ جس کے بعد ہی پی ٹی آئی چیئرمین مذاکراتی عمل شروع کرنے پر رضا مند ہوئے۔ اس حوالے سے مذاکرات کے ٹی او ٹیز کے ابتدائی مراحل بھی طے کیے جا رہے ہیں۔ نون لیگ سمیت پی ڈی ایم کی قیادت بھی اس پیش رفت پر مطمئن ہے۔
یاد رہے کہ تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے اکتوبر کے آخری ہفتے میں حکومت گرانے اور قبل از وقت الیکشن کرانے کیلئے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد تک لانگ مارچ شروع کیا تھا اور تین نومبر کو حافظ آباد میں قافلے پر فائرنگ کے واقعے کے بعد سیاسی درجہ حرارت شدت ختیار کرگیا تھا۔ لیکن اب خان اپنے ساتھیوں اور اتحادیوںکے دبائو میں آکر مذاکراتی عمل پر رضامند اور اپنے سخت فیصلے واپس لے چکے ہیں۔ جس سے سیاسی مفاہتی اور انتخابی فارمولے پر عملدرآمد میں پیش رفت تیز ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکمران اتحاد پی ڈی ایم نے لانگ مارچ سے لے کر اب تک کی تمام صورتحال مانیٹر کی اور عمران خان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کی حکمتِ عملی پر کام جاری رکھا۔ کھیل کو سمیٹنے کیلئے ایک بار پھر سابق صدر اور پی پی قائد آصف علی زرداری کو کلی اختیارات کے ساتھ ذمہ داری سونپی گئی۔ جنہوں نے عمران خان کی ساری بساط الٹ دی ہے۔ بساط الٹنے کیلئے پہلی چال صوبہ بلوچستان سے چلی گئی اور اس کے بعد ضمنی قیادت بھی بلوچستان کو سونپی گئی۔
ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم کی طرف سے آصف علی زرداری کو اہم کردار کی ذمہ داریاں سونپنے سے پہلے کچھ حفاظتی تدابیر کے تحت مخصوص رہنمائوں کے سوا باقی اہم رہنمائوں کو بلا سوچے سمجھے سیاسی گفتگو سے منع کر دیا گیا تھا۔ پی پی ذرائع کے مطابق پارٹی نے ہمیشہ مفاہمت کی سیاست کو نصب العین بنایا ہے اور اسی نصب العین کے مطابق پیپلز پارٹی ذاتی انا سے بالا ملک کے سیاسی اور قومی مفاد میں فیصلے کرتی اور اس پر آگے بڑھتی ہے۔ پنجاب میں تبدیلی کے دوران اگرچہ پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ ’’ن‘‘ سے شکایات تھیں۔ لیکن سیاسی مفاہمت پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا گیا۔ نون لیگ کے صوبائی پارلیمانی ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی طرف سے پنجاب میں کسی ممکنہ تبدیلی کی صورت میں حمزہ شہباز کا نام’’ود ڈرا‘‘ کرلیا گیا تھا۔ اب وہ چیف منسٹر شپ کیلئے امیدوار نہیں بنائے جائیں گے اور سیاسی سرگرمیاں بھی محدود رکھیں گے۔ تاہم کچھ امور میں سلمان شہباز لندن سے واپس آکر ان کی معاونت کریں گے۔ ابتدا میں وہ انفرادی ملاقاتیں کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ اراکین اسمبلی، پارٹی رہنمائوں سے بھی ماڈل ٹائون سیکریٹریٹ میں ملاقاتیں کریں گے۔
پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی اسمبلیوں کی تحلیل کے منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے جب آصف علی زرداری متحرک ہوئے تو انہوں نے سب سے پہلے عمران خان کے اتحادیوں سے رابطے کیے۔ جس میں ان کی معاونت جہانگیر ترین اور جے یو آئی کے کچھ رہنمائوں نے کی۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مسلم لیگ ’ق‘ کی قیادت کو بھی آن بورڈ رکھا۔ جس کے تحت اب تک یہ طے پایا ہے کہ پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں ہوگی اور چودھری پرویز الٰہی ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ جس کی چودھری شجاعت حسین نے بھی تائید کی ہے۔ لیکن اگر کسی مرحلے پر عمران خان کی جانب سے یا کسی وجہ سے صورتحال تبدیل ہوتی ہے تو پھر حکمتِ عملی کا دوسرا منصوبہ آگے بڑھایا جائے گا۔ تاہم ذرائع کے مطابق اس کے امکانات بہت کم ہیں۔ پہلے سے طے پانے والے ابتدائی معاملات کے تحت ہی پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کے بجائے پنجاب کابینہ میں توسیع کی گئی۔ دریں اثنا نون لیگ کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ پارٹی کی تمام توجہ تنظیمی امور میں پارٹی کے تحصیل اور قصبے کی سطح پر رہنمائوں اور کارکنوں سے رابطوں پر مرکوز ہے۔ قومی اور صوبائی سیاسی معاملات صرف مرکزی سطح پر دیکھے جارہے ہیں۔ صوبائی سطح پر معاملات صرف وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ پارٹی کے صوبائی صدر کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں اور ممکنہ طور پر آج ماڈل ٹائون لاہور میں پارٹی میٹنگ میں ساتھیوں کو کچھ صورتحال سے بھی آگاہ کریں گے اور نئی گائیڈ لائن بھی دے سکتے ہیں۔
ادھر لندن سے موصولہ اطلاعات کے مطابق نون لیگ کے قائد میان نواز شریف سمیت پی ڈی ایم کی قیادت اب تک کی حکمتِ عملی، پیش رفت اور اس کے نتائج سے مطمئن ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے سنجیدہ اور سینئر رہنما مذاکراتی عمل کو درست سیاسی اقدام قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سیاست میں مذاکراتی عمل ہی جمہوریت کی روح ہے۔ اس کے راستے بند نہیں ہونا چاہئیں۔ لیکن پی ٹی آئی کے کچھ پُرجوش رہنمائوں اور کارکنوں کے خیال میں عمران خان سیاسی گھیرے میں آچکے ہیں اور اپنا مومینٹم توڑ کر نقصان اٹھا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک دیرینہ کارکن اور عمران خان کے قریبی ساتھی کا کہنا ہے کہ خان اپنے ہی ساتھیوں کے مشوروں میں پھنس اور الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ان کی تمام تر توجہ پرویز الٰہی اور آصف علی زرداری کی سرگرمیوں پر ہے۔ جنہوں نے ان کا بھرا ہوا میلہ اجاڑ دیا ہے اور وہ مذاکرات کی طرف مائل ہونے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ وہ اور ان کا عام کارکنان ایسا نہیں چاہتے اور ان کیلئے مشکل کھڑی ہوگئی ہے کہ وہ کس منہ سے کوئی معاہدہ کرکے عوام کا سامنا کریں گے۔ اس معاملے پر وہ روانہ ساتھیوں سے ملاقات کے دوران مشاورت بھی کر رہے ہیں۔
عمران خان کے انہی تحفظات کے پیشِ نظر ان کے ساتھیوں نے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے صاحبزادے رکن قومی اسمبلی چودھری مونس الٰہی سے بھی ملاقات کی اور ق لیگ کی موجودہ سیاسی سرگرمیوں اور اتحاد کے حوالے سے گفتگو کی۔ ذرائع کے مطابق چودھری مونس الٰہی نے مذاکراتی عمل، اسمبلی نہ توڑنے کے ق لیگ کے موقف کے حق میں دلائل دیئے اور واضح کیا کہ ق لیگ عمران خان کی اتحادی ہے اور اچھے دوست کا کردار ادا کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ’ق‘ کے بارے میں عمران خان اور ان کے عاقبت نااندیش کچھ ساتھیوں کے تحفظات درست نہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق عمران اسماعیل اور عامر کیانی سے اب تک کے مذاکراتی عمل کے حوالے سے ہونے والی مثبت پیش رفت بھی زیر بحث آئی۔ کچھ ’دیگر‘ ذرائع کے مطابق غیر سیاسی حلقوں اور ہمسایہ دوست ممالک بھی ملک میں سیاسی استحکام کیلئے سرگرم ہیں۔ اسی کے نتیجے میں اب ایک اہم ریاستی ادارے کے بارے میں شدت پسندی میں کمی واقع ہوئی ہے اور سیاسی غیر یقینی صورتحال بہتری کی جانب بڑھ رہی ہے۔ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ بدلتے ہوئے حالات اسی ڈگر پر جاری رہے تو آئندہ چند ماہ میں معاشی میدان میں بھی بہتری آسکتی ہے۔