آٹھ برس کی عمر میں بھٹو کی انتخابی مہم چلائی۔۔وسعت اللہ خان

نامور کالم نویس، منفرد تجزیہ کار، صحافی و دانش ور اور مقبول اینکر پرسن وسعت اللہ خان کی شخصیت کا احاطہ اگر مختصر ترین الفاظ میں کیا جائے تو وہ جملہ ہوگا ’’اپنی شرائط پر زیست کرنے والا انسان‘‘۔ رحیم یار خان کے ایک متوسط گھرانے میں جنم لینے والا خداداد صلاحیتوں کا مالک تو تھا ہی۔ ادب دوست والد نے اسے مطالعے کی چاٹ لگائی تو فہمیدگی کو چار چاند لگ گئے۔ وسعت اللہ خان دورِ حاضر کے ان چنیدہ لکھاریوں میں شامل ہیں۔ جنہیں خواص کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں میں بھی پذیرائی حاصل ہے۔ ان کے کالموں میں تاریخ اور عالمی و مقامی سیاست کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل پر بھی عام فہم اور دل نشین انداز میں روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس پر ان کی طنازی کا تڑکا۔ محض زبان و بیاں کی شیرینی سے رغبت رکھنے والوں کو بھی گرویدہ بنائے رکھتا ہے۔ گزشتہ دنوں ’’امت‘‘ نے وسعت اللہ خان کے ساتھ ایک طویل نشست رکھی۔ یہ بات چیت انٹرویو کی شکل میں نذرِ قارئین ہے۔
٭٭٭٭٭
ملاقات۔۔ سجاد عباسی
س: آپ نے والد محترم کا ذکر کیا کہ انہوں نے آپ کو کتابیں فراہم کیں جس سے آپ کا پڑھنے کا ذوق بڑھا۔ والدہ کا آپ کی شخصیت سازی میں کیا کردار رہا۔ آپ کا ایک کالم بھی ’’ماں‘‘ کے حوالے سے بہت مقبول ہوا تھا۔ جسے اس موضوع پر معرکۃ الآرا تحریر قرار دیا جا سکتا ہے؟
ج: وہ جو کالم تھا ناں۔ دراصل نانی کے حوالے سے تھا۔ ہم انہیں ’’اماں‘‘ کہتے تھے۔ اس میں، میں نے نانی کی شخصیت بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس زمانے کی خواتین کتنی سگھڑ اور سلیقہ شعار ہوا کرتی تھیں۔ کس طرح کم سے کم رقم میں گھر چلاتی تھیں۔ بچے زیادہ اور کنبہ بڑا ہوتا تھا۔ مگر وہ عجیب و غریب طریقے سے سلیقے کے ساتھ معاملات چلایا کرتیں اور کسی کو پتہ بھی نہ لگنے دیتیں کہ حالات کس قدر مشکل ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی اولاد کو بھی محسوس نہ ہونے دیتیں۔ چونکہ میں نے اپنی نانی کو یہ سب کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو وہ بیان کیا۔ اب ظاہر ہے کہ ان کی بیٹی ہماری والدہ ہیں تو وہ بھی کم و بیش ویسی ہیں۔ میری والدہ نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن یہ ہے کہ وہ بہت سمجھدار، حاضر جواب اور فوری طور پر بات کو سمجھ کر اس کا معقول جواب دیا کرتی تھیں۔ ان کی یہ خاصیت شاید میں نے بھی اپنے اندر لی ہے۔ کرکٹ کی وہ بہت جنون کی حد تک شوقین ہیں۔ بالنگ اور بیٹنگ کی باریکیاں اپنے تئیں سمجھتی ہیں۔ اب تو وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ یہ کھلاڑی ٹھیک طریقے سے نہیں کھیل رہا۔ اسے یوں نہیں یوں کرنا چاہیے۔ اس کے لیے یہ اوور نکالنا مشکل ہو گا اور پھر بعض اوقات وہ کھلاڑی چلا بھی جاتا ہے (ہنستے ہوئے)۔ پھر ہمارے ہاں ایک اور چیز جس نے شاید میری تربیت اور شخصیت سازی میں کردار ادا کیا۔ ظاہر ہے کہ مرد خاندان کا سربراہ ہوتا تھا اور اسی کی چلتی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مگر ہمارے گھر میں سیاسی آزادی تھی۔ مثلاً میں 1970ء کے انتخابات کے موقع پر آٹھ برس کا تھا اور میں تانگے پر بیٹھ کر بھٹو صاحب کے لیے انتخابی مہم چلایا کرتا۔ تانگے میں آگے بیٹھ کر لوگوں کو بتاتا کہ آج فلاں جگہ جلسہ یا کارنر میٹنگ ہے۔ اور اس کے پیچھے کوئی خاص وجہ نہیں تھی۔ لوگ مائیک میرے ہاتھ میں تھما دیتے اور میں اعلان کرتا جاتا۔ بھٹو صاحب مجھے پسند تھے اور میں ہر وقت ان کا بیج لگائے رکھتا تھا۔
س: تو خاندان کا سیاسی رجحان کس طرف تھا؟
ج: میرے والد اور پورا ددھیال کٹر جماعت اسلامی کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان والے میرا مذاق اڑایا کرتے کہ یہ تو کمیونسٹ ہے اور مذاق میں انہوں نے میرا نام ’’وسعتوف‘‘ رکھ دیا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں روس کے اثرات خطے پر زیادہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کمیونسٹ، سوشلسٹ یا پیپلزپارٹی کا ہونا ایک ہی بات ہے۔ مری جو دادی تھیں۔ ان کو تو سیاست کا ذاتی طور پر کچھ علم نہیں تھا۔ بس وہ ادھر ادھر سے سن کر اپنی رائے قائم کر لیتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ الیکشن سے پانچ چھ ماہ پہلے وہ بہت ڈری ہوئی تھیں کہ یہ جو ’’اللہ مارا‘‘ بھٹو آنے والا ہے۔ یہ مسجدیں بند کر دے گا اور نماز پر پابندی لگا دے گا۔ باورچی خانے بند کرا دے گا۔ بس ہر ایک کو دو دو روٹی ملے گی۔ تو اس طرح سینہ بہ سینہ جو پراپیگنڈہ چلتا تھا۔ میری دادی نے اس پر یقین کر لیا تھا کہ بس جیسے اب دنیا ختم اور قیامت آنے والی ہے۔ یہ اچھا ہے کہ بھٹو کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی دادی کا انتقال ہو گیا تھا اور انہوں نے بھٹو دور نہیں دیکھا (ہنستے ہوئے)۔ اس طرح کے معصوم لوگ ہوتے تھے ہمارے بزرگ۔ بڑی مزے مزے کی چیزیں ہوا کرتی تھیں اور ظاہر ہے ان سب چیزوں نے میری تربیت میں کچھ نہ کچھ اثر تو ڈالا ہو گا۔
س: جب آپ اپنے بچوں سے بات کرتے ہیں تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ ہمارا اور آپ کا بچپن اچھا تھا یا آج کل کے بچوں کا۔ جنہیں ہر قسم کی سہولت دستیاب ہے؟
ج: میرا خیال ہے بھرپور بچپن تو ہمارا ہی تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح دیسی مرغی کو ایک قدرتی ماحول (Envoirnment) ملتا ہے کہ ادھر چلی گئی۔ ادھر چلی گئی۔ محلے میں کہیں سے بھی دانہ دنکا چگ لیا۔ دوسری طرف ایک برائلر مرغی ہے۔ جو ایک Confined ماحول میں رہتی ہے۔ مجھے تقریباً وہی فرق لگ رہا ہے اپنے اور اپنے بچوں کے بچپن میں۔ پھر اس زمانے میں یہ بھی تھا کہ جب میں نے میٹرک کر لیا تو تین مہینے کی چھٹیاں تھیں۔ جس کے بعد مجھے کالج جانا تھا۔ میں نے سوچا کہ میں یہ تین مہینے کیا کروں۔ تو وہاں لیدر برادرز کی ایک فیکٹری ہے رحیم یار خان میں۔ میری زندگی کی جو پہلی نوکری تھی۔ وہ دراصل لیدر برادرز ہی کی تھی۔ میرا ننھیال کراچی میں تھا تو چھٹیاں گزارنے ہم یہاں آیا کرتے تھے۔ تو اس سال میں نے کہا کہ میں کراچی نہیں جارہا۔ بلکہ یہاں نوکری کروں گا۔ بس دل میں آگئی۔ گھر والوں نے بہت سمجھایا کہ پاگل ہو گیا ہے۔ یہاں اکیلا رہ کر کیا کرے گا۔ کوئی خاص معاشی ضرورت نہیں تھی۔
خیر انہوں نے میری ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیئے اور خرچے کے لیے مجھے سو ڈیڑھ سو روپے بھی دے دیئے۔ جو اس دور میں کافی ہوتے تھے۔ اگلے دن میں جاکر لائن میں لگ گیا۔ ڈیلی ویجز پر بھرتی جاری تھی۔ مجھے رکھ لیا گیا۔ کبھی وہ مجھے لکس کے یونٹ میں بھیج دیتے کہ فرش صاف کر لو۔ ڈبے میں پیکنگ کرو۔ مشین کے پیچھے کھڑے ہو جائو۔ یعنی جو بھی بنیادی کام ہوتے مجھ سے کراتے تھے۔ پھر اس سے اگلے دن ڈالڈا میں بھیج دیا۔ کبھی انجینئرنگ میں بھیج دیا۔ کبھی مرغیوں کی فیڈ میں ڈیوٹی لگا دی۔ تو اس طرح کام ہوتا تھا۔ مجھے آٹھ گھنٹے کے ساڑھے نو روپے ملا کرتے تھے۔ پچاس پیسے کا میں کینٹین میں کھانا کھا لیتا تھا۔ باقی رقم جیب میں رکھ لیتا۔ تو اس سے میرے اندر ایک اعتماد پیدا ہوا۔ جیسے انسان کو ایک Empower ment کا احساس ہوتا ہے کہ میں بھی کچھ کر سکتا ہوں اور اس کے عوض کچھ پیسے کما سکتا ہوں۔ اگرچہ اس وقت میں نے یہ کام ایک شوق یا کھیل تماشے کے طور پر کیا۔ مگر اب جاکر مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس پہلی نوکری نے میری نفسیات پر بہت گہرا اور دور رس اثر ڈالا۔ وہ یہ کہ اگر آپ کا ارادہ Survive کرنے کا ہو تو آپ ایسا کر سکتے ہیں اور کم سے کم (Minimum) میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ یعنی اگر فرض کریں کہ میرا فلیٹ ہے جہاں میں رہتا ہوں۔ کل کو وہ مجھ سے چھن جاتا ہے تو دو چیزیں تو کسی کا باپ بھی آپ سے نہیں چھین سکتا۔ وہ ہے زمین کا بستر اور اینٹ کا تکیہ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اگر میں زندہ ہوں تو یہ چیزیں مجھ سے کوئی چھین لے۔ تو میں نے اس نوکری کی وجہ سے اس درجے پر جاکر سوچا کہ اس سے نیچے کیا ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کچھ نہیں۔ تو یہ چیز پروفیشن میں میرے بہت کام آئی۔
میں جب دیکھتا ہوں کہ فلاں مجھے کہہ رہا ہے کہ یہ کام کر لو اور اس کے بدلے یہ لے لو۔ (اگرچہ مجھے کسی نے آج تک براہ راست ایسا کہا نہیں) مگر ایسا ہوتا ہے۔ اب اگر کسی نے لالچ میں آکر وہ کام کر بھی دیا اور جو کہا گیا تھا وہ مل بھی گیا تو وہ کیا کرے گا۔ اس کے اندر کا آدمی اسے ملامت کرتا رہے گا۔ وہ لاکھ انکار کرے۔ کسی کو بتائے نہیں۔ مگر ضمیر کی آواز تو اسے سونے نہیں دے گی۔ بظاہر اکڑ کر چلے گا۔ مگر وہ جانتا ہے کہ اندر سے اس کی کیا حالت ہے۔ تو یہ معاملہ تو اس زمانے میں کلیئر ہو گیا۔ اس نوکری نے مجھے سکھایا کہ وسعت اللہ خان تو بغیر کمپرومائز کیے بھی جی سکتا ہے۔ اگر تو ایسا چاہے۔ تو اس نوکری کا دیا ہوا سبق آج تک میرے ساتھ چل رہا ہے اور اس سے میری بہت بڑی مشکل حل ہو گئی ہے۔
س: لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ وسعت اللہ خان کی فکر اور خیالات میں اس قدر وسعت کیسے پیدا ہوئی اور اس کا کریڈٹ آپ اپنی ذات کے علاوہ کس کو دیتے ہیں؟ کن لوگوں نے آپ کی زندگی پر اچھے اثرات مرتب کیے؟
ج: مجھے اساتذہ اچھے ملے۔ اسکول میں بھی۔ کالج اور یونیورسٹی میں بھی۔ اچھا اس زمانے میں ٹیچرز ویسے بھی زیادہ Dedicated ہوتے تھے۔ یہ 24 گھنٹے کی جاب ہوتی تھی۔ وہ خود یہ ٹھیکہ بھی لے لیتے تھے کہ اگر ان کا شاگرد کسی سینما گھر میں پایا گیا تو اس کی گوشمالی کیسے کرنی ہے۔ ان کے جاسوس شہر میں جگہ جگہ گھوم رہے ہوتے تھے۔ اگر آج کسی اسٹوڈنٹ نے فلم دیکھی تو اگلے دن سب کے سامنے کلاس میں اس کی کلاس ہوتی تھی۔ ظاہر ہے یہ اس زمانے کی بات ہے جب فلم دیکھنا ذرا نامناسب خیال کیا جاتا تھا۔ خاص کر زمانہ طالب علمی میں۔ اب تو ظاہر ہے کوئی بچہ بھی فلم دیکھ لے تو کوئی یہ تھوڑی کہتا ہے کہ اس نے غلط کام کیا۔ مگر اس زمانے کی جو اقدار تھیں۔ ان کے مطابق جو چیزیں معیوب سمجھی جاتی تھیں۔ ان پر گرفت ہوتی تھی۔ کبھی کبھار کٹائی بھی ہو جاتی تھی۔ اب تو خیر قانون بھی آگیا ہے کہ بچے کی پٹائی نہیں ہو سکتی۔ یہ اس لحاظ سے بھی ٹھیک ہے کہ بعض جگہوں پر ٹیچرز نے تشدد کر کے بچوں کو جان سے بھی مار دیا۔ جو ظاہر ہے کسی طور قابل قبول نہیں ہے۔ آئے روز ایسی خبریں آتی رہتی ہیں۔ مگر اس زمانے میں ہماری تازہ چھڑی سے پٹائی وٹائی بھی ہو جایا کرتی تھی اور وہ پٹائی بھی ایک لحاظ سے تعلیم کا حصہ تھی۔ اس سے بچوں کی لائن اور Length ٹھیک رہتی تھی۔ معاشرے میں اس کی قبولیت موجود تھی۔ والدین بھی اس کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے اور ٹیچرز کے نزدیک بھی وہ مار برائے اذیت نہیں بلکہ مار برائے اصلاح ہوتی تھی۔ تو اس قسم کا ماحول ہمیں ملا۔