بھاگ کر شادی
 لڑکے اور ماں باپ کے لیے تھانے کچہریوں کے چکر رہ جاتے ہیں- فائل فوٹو

’’گھر سے نکلے بہکے قدم والدین کو زندہ در گور کر دیتے ہیں‘‘ (دوسری قسط)

انٹرنیٹ کی رسیا نئی تہذیب ناسور بن گئی (پہلی قسط پڑھیں)

 

سید علی حسن:دوسری اور آخری قسط
جذبات کی رو میں بہہ کر گھر سے نکلنے والے قدم اور اس کے نتیجے میں خاندان کی رسوائی کی دو المناک داستانیں گزشتہ قسط میں پیش کی جاچکی ہیں۔
ایسا ہی ایک اور کیس ٹرائل کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ یہ کہانی کراچی کے فیریئر تھانے کی حدود میں واقع علاقے کی ہے۔ کیس کے مطابق عیسائی گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی آرزو نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے پڑوسی مسلمان لڑکے علی اظہر سے نکاح کیا تھا۔

 

لڑکی کے والدین نے سندھ ہائی کورٹ سے بیٹی کی بازیابی کے لئے رجوع کیا۔ تاہم لڑکی آرزو فاطمہ نے ابتدا میں عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا کہ وہ شوہر کے ساتھ خوش ہے اور اسی کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ آرزو فاطمہ کی جانب سے ثبوت کے طور پر نکاح نامہ، مدرسہ کی سند، اقرار نامہ سمیت دیگر دستاویزات بھی عدالت میں پیش کی گئی تھیں۔ ان دستاویزات کے مطابق تیرہ اکتوبر دو ہزار بیس کو آرزو نے اسلام قبول کیا۔ جس کے بعد اسے مدرسہ جامعہ اسلامیہ سے سند الاسلام دی گئی۔ سند میں تصدیق کی گئی کہ آرزو ولد راجا لال نے گواہوں کے سامنے اپنی خوشی اور رضامندی سے بلاکسی جبر کرسچن مذہب چھوڑ کر دین اسلام قبول کیا۔

 

کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت پڑھ کر مکمل طور پر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی۔ لڑکی کا سابقہ نام آرزو تھا اور اسلامی نام آرزو فاطمہ رکھا گیا۔ نکاح نامے میں آرزو فاطمہ کی عمر اٹھارہ سال بتائی گئی اور نکاح نامے میں حق مہر کی رقم پچاس ہزار روپے لکھی گئی۔ دونوں کا نکاح گواہوں کی موجودگی میں قاضی نے پڑھایا تھا۔ آرزو کی جانب سے عدالت میں اقرار نامہ بھی جمع کرایا گیا۔ جس میں کہا گیا ’’میرا نام آرزو فاطمہ ہے۔ میں بالغ اور مذہب اسلام سے تعلق رکھتی ہوں۔ بحیثیت بالغ اور اٹھارہ سال عمر ہونے کی وجہ سے آئین پاکستان میں دیئے گئے حقوق استعمال کرنے کی اہل ہوں۔ میں اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتی ہوں۔ بحیثیت مسلمان آئین میں موجود مسلم فیملی لا میں مجھے اپنی مرضی سے شادی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ جس کے تحت میں نے علی اظہر سے مسلم فیملی لا آرڈیننس 1961 کے تحت نکاح کیا‘‘۔

یہاں تک تو لڑکی کا کیس مضبوط تھا۔ تاہم مسائل اس وقت کھڑے ہوئے جب لڑکی کی عمر اٹھارہ سال سے کم ثابت کی گئی۔ اس بنیاد پر سندھ ہائی کورٹ نے لڑکی کو دارالامان بھیج دیا۔ لڑکی کو دارالامان بھیجے جانے کے بعد گزشتہ دنوں والدین کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں بچی کی حوالگی کی درخواست جمع کرائی گئی۔ جس پر عدالت نے لڑکی کا بیان ریکارڈ کیا۔

یہی وہ موڑ ہے، جو عموما اس نوعیت کے کیسوں میں آتا ہے۔ جب کچے ذہنوں کو غلط سمت میں اٹھائے جانے والے قدموں کا ادراک ہوجاتا ہے۔ سمجھ آنے لگتی ہے کہ گھر کی دہلیز پار کرتے وقت جو خواب دیکھا تھا، وہ محض سراب تھا۔ یہ ادراک ہونے سے پہلے انہیں زمانے کے تلخ تھپیڑے پڑتے ہیں۔ تھانوں اور عدالتوں میں تماشے لگتے ہیں۔ بے چین کیمرے ان مناظر کو محفوظ کرتے ہیں۔ یوں پورے خاندان کی رسوائی کا سامان ہوتا ہے۔ یہی وقت ہوتا ہے جب لڑکی میں اپنی رسوائی اور ماں باپ کی بچی کچھی عزت بچانے کا احساس جاگنے لگتا ہے۔

 

نام نہاد عشق کا بھوت اتارنے میں دارالامان کے تلخ ترین تجربات بھی رول ادا کرتے ہیں کہ یہ زندگی بھی کسی قید سے کم نہیں ہوتی۔ تب والدین کے گھر میں شہزادیوں کی طرح گزاری زندگی شدت سے یاد آنے لگتی ہے۔ اور زیادہ تر بچیاں دوبارہ والدین کے ساتھ جانے پر آمادہ ہوجاتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جذبات کی رو میں گھر سے نکلنے کا پچھتاوا عموما ساری عمر رہتا ہے اور داغ کو مٹانے کے لئے ابھی کوئی ڈٹرجنٹ یا سرف ایجاد نہیں ہوا ہے۔

آرزو فاطمہ کے کیس میں بھی یہی ہوا۔ جب عدالت میں اس کا بیان ریکارڈ کیا گیا تو اس نے والدین کے ساتھ جانے پر رضا مندی ظاہر کردی۔ جس پر عدالت نے لڑکی کو والدین کے ساتھ بھیج دیا۔

آرزو فاطمہ تو والدین کے ساتھ گھر چلی گئی۔ لیکن جس نے اسے جیون ساتھی بنایا تھا اس لڑکے کے لئے تھانے کچہریوں کا سلسلہ چھوڑ گئی۔ اس نوعیت کے کیسوں میں یہ بھی قدر مشترک ہے۔ یہ مرحلہ لڑکے اور اس کے والدین کے لئے زیادہ کٹھن اور رسوا کن ہوتا ہے۔ ناسمجھی میں گھر چھوڑنے والی بچیاں جس کے ساتھ جاتی ہیں وہ بھی زیادہ تر کم عمر لڑکے ہوتے ہیں۔ فیس بک اور انسٹا گرام جیسی پر فریب دنیا کے اسیر یہ لڑکے قریبا اتنا ہی اپنے ماں باپ اور خاندان کی رسوائی کا سبب بنتے ہیں، جتنا لڑکی نے کیا ہوتا ہے۔

اس کیس کی اپ ڈیٹ یہ ہے کہ آرزو فاطمہ کے شوہر علی اظہر کو چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت درج مقدمہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت وہ ضمانت پر ہے۔ مذکورہ مقدمہ میں نکاح خواں قاضی عبدالرسول سمیت دیگر بھی نامزد ہیں۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ پولیس نے چائلڈ میرج ایکٹ اور زیادتی کی دفعات مقدمہ میں شامل کی ہیں۔

 

پولیس کی جانب سے ٹرائل کورٹ میں جمع کرائے گئے چالان میں کہا گیا تھا کہ آرزو کے والد کی جانب سے آرزو کے پیدائشی سرٹیفکیٹ و دیگر دستاویزات دی گئی تھیں۔ جس کے بعد آرزو کی عمر 13 سال 3 ماہ ہے۔ پولیس چالان کے مطابق اب تک کی تفتیش، مدعی اور گواہوں کے بیانات، نکاح نامہ، خود مختیاری سرٹیفکیٹ، مدعی مقدمہ کی جانب سے پیش کردہ ب فارم، آرزو کے پیدائشی سرٹیفکیٹ، تعلیمی اسناد، اسپیشل میڈیکل بورڈ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ آرزو کی عمر 14 سے 15 سال ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل، ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق آرزو 13اکتوبر کو اپنی مرضی سے گھر والوں کو بغیر بتائے گھر سے نکلی تھی۔

بھاگ کر شادی

وہ اپنے پڑوسی علی اظہر کو پسند کرتی تھی۔ دونوں کا ایک سال سے تعلق تھا۔ انہوں نے سٹی کورٹ جاکر وکیل محمودالحسن اور ان کے اسسٹنٹ جنید علی کے ذریعے اپنی مرضی اور رضامندی سے پہلے اسلام قبول کیا اور خود مختیاری سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد نکاح خواں قاضی عبدالرسول نے گواہان دانش اور حبیب کی موجودگی میں علی اظہر سے نکاح کیا۔ آرزو کو کسی نے اغوا نہیں کیا تھا۔ لیکن اس کی عمر اٹھارہ سال سے کم نکلی۔ جس کی وجہ سے علی اظہر کے خلاف سندھ چائلڈ میرج ایکٹ اور کم عمر بچی سے زیادتی، جبکہ نکاح خواں قاضی عبدالرسول، دانش، حبیب، وکیل محمودالحسن، جنید علی، جسٹس آف پیس محمد اظہرالدین کے خلاف سہولت کاری کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ مذکورہ مقدمہ ٹرائل کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ نہیں معلوم اختتام کب ہوگا۔

ایک مقدمہ مقدمہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں بھی زیر سماعت ہے۔ جس میں سرجانی ٹاؤن کی لڑکی نے عدنان نامی لڑکے کے ساتھ پسند کی شادی کرلی۔ لڑکی کے گھر سے غائب ہونے پر لڑکی کے والد شمس چانڈیو نے تھانہ سرجانی ٹاؤن میں اغوا کا مقدمہ درج کرایا تھا۔ بعد ازاں دونوں نے کورٹ میرج کرلی ہے۔ تاہم لڑکی کے والد و مدعی مقدمہ شمس چانڈیو نے عدالت میں سندھ چائلڈ میرج رسٹرین ایکٹ کے تحت درخواست دائر کی اور مؤقف اختیار کیا کہ اس کی بیٹی کم عمر ہے۔ لہذا یہ شادی غیر قانونی ہے۔ لڑکے کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ لڑکی نے عدنان سے سٹی کورٹ میں رضامندی سے کورٹ میرج کی تھی۔ تاہم لڑکی کی والدہ نے بیٹی کی عمر بارہ سال قرار دی۔

عدالت نے مذکورہ مقدمہ میں پولیس کو کارروائی کا حکم دے رکھا ہے۔ علاوہ ازیں لڑکی کی والدہ شمعو بی بی کی جانب سے اپنے وکیل لیاقت علی خان گبول ایڈووکیٹ کے توسط سے سندھ ہائیکورٹ میں بیٹی کی بازیابی کی درخواست بھی داخل کی جاچکی ہے۔ درخواست میں انسپکٹر جنرل سندھ پولیس، ایڈیشنل آئی جی کراچی، ایس ایس پی انویسٹی گیشن ساؤتھ، ایس ایچ او تھانہ کلفٹن، ایس آئی او تھانہ کلفٹن اور تفیشین ا فسر تھانہ کلفٹن کو فریق بنایا گیا۔ درخواست گزار کے وکیل لیاقت علی گبول ایڈووکیٹ کہتے ہیں ’’میری موکل کی بیٹی بنگلے میں ماسی کا کام کرتی تھی۔ وہ پندرہ جولائی دو ہزار بائیس کو کام کے لیے گئی۔ مگر شام تک واپس نہیں آئی۔ جس پر میری کلائنٹ نے بنگلے اور شتہ داروں کے گھر جاکر اسے تلاش کیا۔ لیکن کچھ پتہ نہیں چلا۔ والدہ نے تھانہ کلفٹن میں بیٹی کے اغوا کا مقدمہ الزام نمبر 277/2022 زیر دفعہ 365 بی کے تحت درج کرایا۔ مگر مہینوں گزر جانے کے باوجود پولیس لڑکی کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ہے۔ یہ مقدمہ اس وقت زیر سماعت ہے۔
اس معاشرے میں دو اقسام کے المیے جنم لے رہے ہیں۔ ایک وہ، جس کا ذکرکیا جا چکا ہے کہ کس طرح کچی عمر کی لڑکیاں پر فریب خوابوں کے سحر میں گھر کی دہلیز پار کرکے والدین کے لئے رسوائی کا سبب بنتی ہیں۔ دوسری قسم شادی کا جھانسہ دیکر کم عمر لڑکیوں کو جال میں پھنسانے کے دھندے سے متعلق ہے۔ اس نوعیت کا سنسنی خیز حال ہی میں سامنے آیا ہے۔

یہ انکشاف سندھ ہائی کورٹ میں ایک نابالغ لڑکی کے اغوا اور اس سے زبردستی نکاح کرنے والے ملزم کی درخواست ضمانت کی سماعت کے موقع پر ہوا۔ معلوم ہوا کہ ایک منظم گروہ کم عمر لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دیکر بیرون ملک اسمگل کر رہا ہے۔ یہ تفصیلات سامنے آنے پر معزز جج بھی دنگ رہ گئے۔ سندھ ہائی کورٹ نے محکمہ داخلہ کو جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا اور اس معاملے پر ایف آئی اے کو بھی تحقیقات کی ہدایت کی ہیں۔ عدالت کی جانب سے ایس ایس پی سٹی اور ایف آئی اے حکام سے نو جنوری کو تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔ یہ کیس جسٹس صلاح الدین پنہور کی زیر سربراہی سنگل رکنی بنچ سن رہا ہے۔ سماعت کے موقع پر بازیاب ہونے والی لڑکی اپنی والدہ کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود تھی۔ ملزم عدنان نے موقف اختیار کیا کہ اس نے لڑکی سے نکاح نہیں کیا۔ دراصل وہ سونیا نامی لڑکی کے ساتھ شادی کرنے عمان سے آیا تھا اور سٹی کورٹ میں نکاح نامے پر دستخط کیے تھے۔ ملزم کی گفتگو سننے کے بعد عدالتی حکم میں کہا گیا کہ اگرچہ متاثرہ لڑکی نے جبری شادی یا زیادتی سے متعلق براہ راست الزام نہیں لگایا۔ لیکن یہ سنگین نوعیت کا کیس ہے۔ لہذا انسداد ریپ آرڈیننس 2020 کی دفعہ 9 (2) کے مطابق اس معاملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی ضرورت ہے۔

 

لڑکی کے بیان کے مطابق اسے اغوا کرکے تین جگہوں پر فروخت کیا گیا۔ آخرکار وہ اغوا کاروں کے چنگل سے فرار ہو کر اپنے گھر پہنچ گئی۔ متاثرہ لڑکی نے اپنے بیان میں مزید بتایا کہ اغوا کاروں نے اسے ایک ایسے گھر میں بھی رکھا جہاں پہلے سے پندرہ نوعمر لڑکیاں موجود تھیں۔ لڑکی کے بیان کے مطابق اسے تین بار فروخت کیا گیا۔ لڑکی کی روداد سننے کے بعد عدالتی حکم میں کہا گیا کہ اس مقدمے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایسے گینگ بغیر کسی مداخلت کے کام کر رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ان کو لگام ڈالنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ تاہم عدالت نے ملزم عدنان کی ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی۔ لڑکی کے اغوا اور مبینہ شادی کا مقدمہ تھانہ عید گاہ میں درج ہے۔

قانونی ماہرین نے کم عمری میں بھاگ کر شادی کرنے کی وجوہات دین سے دوری، روشن خیالی، تربیت میں کوتاہی اور والدین کی جانب سے بچوں پر نظر نہ رکھنا قرار دی ہیں۔ اس حوالے سے سینئر قانون دان عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کم عمری میں گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کے سبب بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایک بنیادی بات یہ ہے کہ اسلام میں عمر کی حد مقرر نہیں کی گئی ہے۔ تاہم نکاح کے لئے بالغ ہونا لازم قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ کچھ مسلک ایسے ہیں جن میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا جائز قرار دیا گیا ہے۔ عثمان فاروق کے مطابق سندھ میں چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ کے نام سے قانون بنایا گیا تھا۔ جس میں شادی کے لئے اٹھارہ سال عمر کی حد مقرر کی گئی۔ کم عمری کی شادی پر شرعی اور صوبائی قوانین آپس میں متصادم ہیں۔ چنانچہ کم عمری کی شادی کو لیکر عموما اسلام کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو غلط ہے۔ ایسے کیسز بھی آمنے آئے، جس میں لڑکیوں کا غلط استعمال کیا گیا۔ جیسے لڑکیوں کے بیرون ملک اسمگل کا کیس ہے۔ اس قسم کے واقعات پاکستانی معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔
سینئر وکیل خرم شہزاد ایڈووکیٹ کے مطابق انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے آزادانہ استعمال کی وجہ سے کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ کچا ذہن ہونے کے باوجود لڑکے یا لڑکیاں خود کو سمجھتا تصور کرنے لگتے ہیں اور ایسے قدم اٹھالیتے ہیں جو والدین اور خاندان کے لیے باعث رسوائی بن جاتے ہیں۔

انٹرنیٹ کی رسیا نئی تہذیب ناسور بن گئی (پہلی قسط)