میگزین رپورٹ:
جعلی عاملوں کے علاوہ دنیا میں بعض ایسے عاملین بھی موجود ہیں جو ہیں تو اپنی بات کے سچے لیکن ان کی طاقتوں کا راز روحانیت کے بجائے شیطانیت اور سفلیت ہے۔ ایسے عاملین زندگی بھر نہ صرف خود ذلت و خواری کی زندگی گزارتے ہیں۔ بلکہ دوسروں کا دین و ایمان بھی خراب کرتے رہتے ہیں۔ جو سزا انہیں مرنے کے بعد ملے گی اسے تو رب ہی جانتا ہے۔ لیکن زندگی بھر دنیا میں ذلت کی زندگی گزارنے کے بعد ان عاملوں کی موت عبرت ناک ہوتی ہے وہ مرتے وقت بھی کسی خارش زدہ کتے کی حالت کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ مرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں موت نہیں آتی۔ موت کی خواہش میں وہ اپنے بدن کے مختلف اعضا تک کاٹ ڈالتے ہیں لیکن انہیں ایک خاص وقت تک موت نہیں آسکتی۔ میں نے خود کئی مواقع پر اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے۔ جس میں اسی طرح کا ایک واقعہ تو اندرون سندھ کا ہے۔
یہ غالبا پانچ سال پرانا واقعہ ہے جب بھارتی بارڈر کے ساتھ لگنے والے اندرون سندھ کے علاقے عمر کوٹ مٹھی کا باسی راجو میرے پاس آیا تھا۔ اس کا واقعہ بھی عجیب ہے۔ راجو کراچی میں ہی محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ جبکہ اس کا گھر بار گوٹھ میں واقع تھا۔ محنت مزدوری کرکے وہ خود روکھی سوکھی کھاتا تھا اور اپنے خاندان میں روح و جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے پیسے گھر بھجواتا تھا۔ گھر میں اس کی بیوی کے علاوہ دو بچے اور بوڑھے ماں باپ تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ راجو اور اس کا خاندان نہ صرف ہندو دھرم سے تعلق رکھتا تھا۔ بلکہ اس کا باپ ایک تانترک تھا۔
تانترک جو شیطانی کاموں کے ذریعے بہتر شکتیوں کے مالک بننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ راجو کا باپ سچل ان شکتیوں کی کئی منزلیں پارکر چکا تھا۔ اس فانی طاقت کے ذریعے اپنی دنیا بھی نہیں سنوار سکا۔ یہ حقیقت ہے کہ شیطانی طاقت حاصل کرکے کسی کو بھی فائدہ نہیں پہنچایا جاسکتا۔ بلکہ یہ صرف تخریب کاری کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ پس راجو کا باپ بھی ساری عمر شیطانی طاقت کے زیادہ سے زیادہ حصول کے نشے میں آگے ہی بڑھتا رہا۔ یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ وہ اس سے کسی اور کو چھوڑ کر اپنے آپ کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتا۔ وہ اس دلدل میں اترتا ہی رہا۔ اس دن کسی ریفرنس سے راجو میرے پاس پہنچا تھا کہ اس کا باپ سکرات میں مبتلا ہے۔ لیکن اس کی جان نہیں نکل رہی۔ وہ اپنے آپ کو دانتوں سے کاٹ کھارہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود موت اسے گلے نہیں لگارہی۔
عاملوں کی موت
تانترک کو اپنی آخری منزل پر تڑپتے دیکھنے کے شوق اور اس غریب پر ترس کھاکر میں راجو کے ساتھ چل پڑا۔ طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد جب عمر کوٹ پہنچے تو وہاں کی صورتحال اب راجو کی بیان کی ہوئی صورتحال سے بھی بگڑچکی تھی۔ راجو کا باپ سچل جو مثانی کا تانترک تھا۔ موت کی خواہش میں بغدے سے اپنا ایک پورا بازو قیمے میں تبدیل کرچکا تھا۔ لیکن اب بھی اسے موت نہیں آئی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خود کو اپنے ہاتھوں شدید زخمی کرنے کے باوجود وہ اب تک مکمل طور سے اپنے حواس میں تھا۔ راجو کو دیکھتے ہی اس نے ایک بار پھر زور شور سے راجو کی منتیں کرنا شروع کردیں کہ وہ اس کا بوجھ لے لے۔ تاکہ وہ سکون کی موت مرسکے۔
اگرچہ یہاں پر سچل کے بیٹے راجو کے علاوہ اس کے کچھ چیلے بھی موجود تھے۔ لیکن سب ہی اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر رہے تھے۔ میں بھی اس وقت خاصا حیران ہوا تھا۔ کیونکہ یہ چیلے خود بھی شیطانی طاقت کے حصول میں سچل کی منزل تک پہنچنا چاہتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود سچل کی شکتی لینے سے احتراز برت رہے تھے ۔ بعد میں انہوں نے مجھے یہ حیرت انگیز بات بتائی تھی کہ سچل کی شکتی لینے پر اگرچہ سچل تو سکون کی موت مرسکتا تھا۔ لیکن شکتی لینے والا اپنی موت کے وقت اسی صورتحال کا شکار ہوسکتا تھا۔ جبکہ یہ شکتی اس کے کسی کام کی بھی نہیں تھی۔ یعنی سچل کا بوجھ اٹھانا صرف خسارے کا ہی سودا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے گرو اور بیٹا بھی اس کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہ رہے تھے۔
سچل نے بتایا تھا کہ وہ مثانی کا تانترک ہے۔ اگرچہ مجھے پہلے ہی مثانی کے بارے میں کافی معلومات تھیں۔ لیکن سچل جو مجھے نجات دہندہ سمجھ بیٹھا تھا۔ اس نے اس بارے میں مجھے مزید معلومات بھی دے ڈالی تھیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے مثانی کو شمشان گھاٹ میں جلنے والے مردے کے شریر سے نکلنے والی آما سے مہاکالی کا سب سے بڑا روپ مثانی حاصل کیا تھا۔ جس کے لئے اسے کئی بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنا پڑا تھا۔ کالی کا یہ روپ شمشان گھاٹے میں جلنے والی چتا کے اس دھویں سے کشید کیا جاتا ہے۔ جو شمشان گھاٹ کے اس حصے سے اٹھ رہا ہوتا ہے جسے مثان گھاٹ کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ وہ سفلی روحیں ہوتی ہیں۔ جو انسان کے نچلے دھڑ میں موجود ہوتی ہیں۔ اگر انسان نیک ہو تو یہ روحیں مغلوب ہوجاتی ہیں اور اگر انسان بد ہو تو یہ روحیں خوب پھل پھول کر خود ایک شیطان کا روپ دھار لیتی ہیں۔ بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے۔ اب سچل تانترک کو موت سے ملانے کا ایک ہی حل تھا کہ کوئی اس کی شکتیوں کو گلے سے لگالے۔ میں خود یہ کام نہیں کرسکتا تھا۔ کیونکہ اس صورت میں سب روحانی قوتیں جاتی رہتیں۔ کیونکہ ایک جگہ ایک ہی چیز سما سکتی ہے۔ میں نے سب چیلوں کو بھی اس بات پر راغب کیا۔ لیکن کوئی بھی اس بات پر راضی نہ تھا ۔
آخر میں نے راجو کو ہی اس بات پر راضی کیا۔ کیونکہ وہ خود ایک سیدھا سادہ انسان تھا۔ جسے شیطانی اور سفلی عملیات کا ذرہ برابر بھی شوق نہ تھا۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ میں اسے اس شکتی سے جلد ہی نجات دلادوں گا۔ تانترک کے مروجہ طریقہ کار کے مطابق جب راجو نے کچھ منتر پڑھ کر اپنے باپ کو بوجھ اپنے کندھوں پر لادا تو فوراً ہی اس کے باپ کی روح پرواز کرگئی۔ موت کے بعد نہ صرف سچل کی لاش سے شدید تعفن اٹھ رہا تھا۔ بلکہ اس کے چہرے پر وحشت اور نحوست کے پہاڑ نظر آرہے تھے۔ سچل کو میں نے اپنے باپ کے کریا کرم سے فارغ ہوکر اپنے پاس آنے کا کہا تھا۔ بعد ازاں میں اسے کراچی میں موجود عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر لایا۔ جہاں موجود پانی کے کنویں سے میں نے اسے غسل وغیرہ کراکے کلمہ طیبہ پڑھادیا۔ اس طرح اگرچہ اس کے دل میں کلمہ طیبہ داخل ہوگیا۔ جس کی وجہ سے بدی کی وہ قوتیں عارضی طور پر اس سے جدا ہوگئیں ۔ میں نے اسے تاکید کی کہ ہر وقت اسے اس کلمے کا ورد کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر یہ قوتیں اس کا ہر کام بگاڑ دیں گی۔ راجو آج بھی زندہ ہے ۔ اگرچہ وہ مذہباً اب بھی ہندو ہے۔ لیکن دن میں کم از کم دسیوں مرتبہ کلمہ طیبہ اس کی زبان پر جاری ہوتا ہے۔ شاید اس کلمے کی برکت سے ہی اللہ پاک اسے ہدایت دے دے اور وہ دائرے اسلام میں داخل ہوجائے۔